ارشد عالم، نیو ایج اسلام
24 اپریل 2018
کفیل خان ، جو بابا راگھو داس (بی آر ڈی) میڈیکل کالج / ہسپتال معاملے میں ایک ملزم ہیں
اکثر مہذب معاشروں میں اسے ایک اسکینڈل مانا جاتا۔ ڈاکٹر کفیل خان جنہوں نے گورکھ پور حادثے کے دوران درجنوں بچوں کی زندگی بچائی وہ گزشتہ 8 ماہ سے جیل میں ہیں۔ یہ وہی شخص ہیں جو مختلف ذرائع سے آکسیجن حاصل کرنے کے لئے اِدھر اُدھر بھاگتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے تاکہ گورکھ پور ہسپتال کے بچوں کی موت آکسیجن کی کمی سے نہ ہو ۔ ان کی بات کی تائید میں کافی شواہد موجود ہیں: پیرا شسترا سیما بل میں اب بھی یہ ریکارڈ موجود ہے کہ ڈاکٹر کفیل نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ٹرکوں سے ان کی مدد کریں تاکہ وہ آکسیجن سلنڈر فوری طور پر ہسپتال پہنچا سکیں۔ بچوں کو بچانے کے لئے ان کی پوری کوششوں کے باوجود بچوں کی موتیں ہوئی ہیں۔ پورا ملک خوف و ہراس میں تھا جیسا کہ بی جے پی کے وزراء نے یہ کہہ کر حالات کی منطقی توجیہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح کے معاملات میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ ہمیشہ چاق و چوبند رہنے والے وزیر اعظم نے اس معاملے کو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ اس پر ایک ٹویٹ (tweet) ہی کر دی جائے ۔ اسی پارلیمانی حلقے سے پانچ بار رکن پارلیمنٹ رہ چکے وزیراعلی کو اتنی بھی فرصت نہیں مل سکی کہ وہ ان والدین کے غم میں شریک ہو سکیں جنہوں نے اس جانکاہ حادثے میں اپنے بچے کھوئے تھے۔ کسی بھی ملک میں شہریوں کی جانب سے اظہار مذمت کے لئے اسی قدر مجرمانہ غفلت کافی ہونی چاہئے۔ ہندوستانی شہریوں کا احساس اس قدر مردہ ہو چکاہے کہ یہاں بچوں کے اس خوفناک قتل کو صرف کسی بھی دوسرے المناک واقعہ کے طور پر ہی دیکھا گیا۔
حکومت نئی تھی اور یہ اچھے دن کے وعدے پر بنی تھی۔ لہذا سسٹم (system)کو مجرمین کی تلاش کرنی چاہئے تھی۔ ابھی لوگوں کے آنسووں بھی خشک نہیں ہوئے تھے کہ سسٹم (system)نے ڈاکٹر کفیل کو سزا دینا شروع کر دیا۔ اس دردناک سانحے کی طویل رات کے بعد بچوں کو بچانے کے لئے ان کی ہمدردی اور کوششوں پر ڈاکٹر کفیل کی میڈیا میں ہر جگہ تعریفیں ہونے لگیں۔ لیکن اس کے بعد ان کی پہچان انتہاپسندوں کو راس نہیں آئی۔ ایک مسلمان ہیرو کیسے بن سکتا ہے؟ آخر کار یہ ایک ایسی حکومت تھی جو مسلم مخالف مدوں پر انتخاب لڑ کر اقتدار میں آئی تھی اور ان کے لئے اس سے بھی بڑی تکلیف کی بات یہ تھی کہ حکومت کی مہلک خاموشی کے بیچ ایک ایسا مسلمان تھا جس کی مختلف مقامات پر تعریفیں کی جا رہی تھیں۔ ٹرول (troll) فعال ہوگئے۔ ڈاکٹر کفیل کے ماضی کے پنّے اُلٹے گئے اور ان پر احمقانہ الزامات عائد کئے گئے۔ جن میں مضحکہ خیز اور جھوٹے الزامات بھی تھے۔
ڈاکٹر کفیل پر ہسپتال سے آکسیجن باہر نکالنے کا الزام لگایا گیا۔ یہ اپنے آپ میں ایک عجیب بات ہے کہ مائع آکسیجن کو اتنی آسانی کے ساتھ کیسے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ ڈاکٹر کفیل نے یہ کام کس طرح انجام دیا۔ نہ ہی یہ سسٹم (system) جو انہیں مجرم ٹھہرا رہی ہے - ہمیں یہ تبانے کے لئے تیار ہے کہ ڈاکٹر کفیل نے یہ کیسے کیا۔ جبکہ دوسری طرف اس بات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتے سے آکسیجن کی فراہمی خطرناک طور پر کم چل رہی تھی۔ یہ بھی ریکارڈ میں ہے کہ سپلائر (supplier) نے اس وقت تک آکسیجن کی مزید فراہمی روک دی تھی جب تک کہ ہسپتال نے ان کی بقایا رقم چکتا نہیں کردیا۔ اگر اتنی اموات کے لئے کوئی ذمہ دار ہے تو وہ اس ضلع کا چیف میڈیکل آفیسر ہے۔ لیکن اگر آپ کسی مسلمان کو بلی کا بکرا بنانے پر قادر ہیں تو عقل اور منطق کا سارا استعمال اسی انسان کو ملزم بنانے کے مقصد سے کیا جانا چاہئے۔
ڈاکٹر کفیل پر اس لئے بھی شکنجہ کسا گیا کیوں کہ وہ ہسپتال میں کام کرنے کے علاوہ اپنی ایک نجی کلینک بھی چلاتے تھے۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ چونکہ وہ اپنی ایک نجی کلینک بھی چلاتے ہیں اسی لئے انہوں نے ہسپتال پر کافی توجہ نہیں دی جس کے نتیجے میں اتنے بچوں کی موت ہو گئی۔ یہ الزام انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ ہندوستان میں اکثر ڈاکٹر اپنی نجی کلینک بھی چلاتے ہیں۔ گورکھ پور ہسپتال کے تمام ڈاکٹر اپنی نجی کلینک چلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے۔ اگر دلیل یہ تھی کہ تمام ڈاکٹروں پر نجی کلینک چلانے پر پابندی عائد کی جائے تو یہ الگ پہلو تھا اور اس پر بحث کی جا سکتی تھی۔ لیکن نجی کلینک چلانے کی بنا پر اس لئے صرف ایک ڈاکٹر کو نشان زد کرنا کیونکہ وہ مسلمان ہے ، اس سے منظم تعصب اور نفرت کی بو آتی ہے۔
اس لئے کہ اگر آپ کسی شخص کے پیشہ ورانہ رویے میں کوئی خامی تلاش کرنے سے عاجز ہوتے ہیں تو پھر آپ اس کے ماضی میں گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالکل یہی ڈاکٹر کفیل کے ساتھ بھی ہوا۔ 2015 میں ان پر عصمت دری کا الزام لگایا گیا تھا۔ ٹرول (troll) بھڑک اٹھے۔ ڈاکٹر کفیل کے مجرم ہونے کا ایک انتہائی اطمینان بخش ثبوت ان کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ آخر کار ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے کہ جس شخص پر عصمت دری کا الزام لگایا گیا ہو وہ لاکھوں لوگوں کے لئے ہیرو بن جائے۔ لیکن اخلاقی طور پر ان کی حوصلہ شکنی کرنے کے اپنے جوش و جذبے میں انتہاپسند یہ بھول بیٹھے کہ پولیس نے ان کے معاملے کی تحقیقات کی تھی جس میں یہ پایا گیا تھا کہ ان کے خلاف لگایا گیا یہ الزام غلط اور بے بنیاد تھا اور ان کے خلاف کسی سازش کا حصہ تھا۔ لیکن جو لوگوں کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اپنے سیاسی نظریات قائم کرتے ہیں انہیں صرف الزام ہی جرم کا ایک پختہ ثبوت معلوم ہوتا ہے۔
آٹھ ماہ کی ایک طویل مدت تک جیل کی کربناکی جھیلنے کے بعد ڈاکٹر کفیل نے ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے اپنی بے گناہی کا اعلان کیا ہے۔ نچلی عدالت ان کی ضمانت کی عرضی بار بار خارج کر چکی ہے اور ہائی کورٹ کسی نہ کسی بہانے ان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ٹال رہی ہے۔ گورکھ پور کے ڈی ایم اور محکمہ صحت کے اعلی حکام پر ان کا الزام بجا ہے کہ انہوں نے اس بات کا دھیان نہیں رکھا کہ اس اسپتال کو آکسیجن فراہم کرنے والوں کا بل باقاعدہ چکایا جا رہا ہے کہ نہیں۔ ان لوگوں کے بجائے وہ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا جیل میں کاٹ رہے ہیں۔ اس ملک کا قانون ، جس نے کئی بار یہ اعلان کیا ہے کہ ضمانت دینا استثناء نہیں بلکہ قانون ہے، جب مسلمان کی باری آتی ہے تو اس کا پیمانہ بدل جاتا ہے۔ صرف ڈاکٹر کفیل ہی نہیں ، بلکہ ان حالات میں ان کی غلط گرفتاری کی وجہ سے ان کا پورا خاندان ایک کربناک دور سے گزر رہا ہے۔ سول سوسائٹی کو اپنی غفلت سے بیدار ہو کر ایک مہم شروع کرنا چاہئے تاکہ ڈاکٹر کفیل کے ساتھ جلد سے جلد انصاف ہو ۔
URL for English article: https://www.newageislam.com/islam-politics/his-name-khan-hero/d/115031
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism