ارشد عالم، نیو ایج اسلام
4 جولائی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
مالی کے شہر ٹمبکٹو میں اسلامی بنیاد پرستوں کے ذریعہ مقامی مزارات
کی بے حرمتی کی خبر سننا اب شدید حیرت کا باعث نہیں ہے۔ یہ خبراب شدید حیرت کا باعث نہیں ہے ، میں ایسا اس لئے کہتا
ہوں کیونکہ دکھ کی بات ہے کہ یہ کوئی اتفاقی
واقعہ نہیں ہے۔ یہ انتہا پسند اسلام کے رجحان
کا ایک حصہ ہے اور بامیان کے بدھ کے مجسمے
اور پاکستان میں مزاروں اور صوفی درگاہوں کو دھماکے سے اڑانے اور تباہ کرنے میں ان کا بد صورت چہرہ وقتاً فوقتاً سامنے آتا رہا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس طرح کے گستاخانہ
اور خوفناک حملے سعودی عرب پر وہابیوں
کے قبضے کے بعد شروع ہوا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار اقدس کو منہدم
کرنے کی کوشش میں وہ لوگ صرف جزوی طور پر کامیاب
ہو سکے ہیں۔ مزارات صدیوں سے اسلامی سماج کا حصہ رہے ہیں۔ یہ بہت سے مسلمانوں اور غیر
مسلموں کے لئےجو زندگی کی صعوبتوں میں پھنس
گےٗ ہیں، کے لئے مدد کا ایک ذریعہ ہے۔ کئی
حوالوں سے مزارات لوگوں کو شفا بھی
پیش کرتے ہیں اور زیادہ تر ثقافتوں میں یہ بے درد اور دیوانہ بنانے والی دنیا میں تسلی ، راحت
اور سکون فراہم کرتےہیں۔ مزارات اسلام
کے توسیع سے منسلک ر ہے ہیں اور خاص طور سے ہندوستانی برصغیر میں جہاں ۔انہوں نےامن اور ہم آہنگی کا پیغام پھیلا
کر بھائی چارہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تو یہ بیمار ذہن لوگ مزارات اور دیگر مقامات کو جسے مسلمانوں کی اکثریت مقدس تصور کرتی ہے کو دھماکے سے اڑا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
ایک سطح پر یہ طاقت اور اقتدار
کے جدوجہد کے لئے ہے۔ مزارات صرف روحانیت کے مراکز نہیں ہیں بلکہ یہ مقامی حوالے سے سیاسی قوت کا ایک اہم نشان ہے۔ اقتدار کے مقامی انتظام میں، مزارات ان معنوں میں ایک اہم مقام ہیں کہ
اس حوالے سے کوئی بھی سیاسی جوڑ اکثر مزار کی روحانی اور اخلاقی سرمایہ سے قانونی جواز حاصل کرنا
چاہتا ہے۔ دوسری جانب بنیاد پرست اسلام اپنا اقتدار
قائم کرنا چاہتا ہے، جیسا کہ یہ بات
کسی خاص معاشرے کے اندر نئی قوتوں کے ظہور سے پتہ چلتا ہے۔ مختلف گروہوں کے درمیان اس طرح کا مقابلہ مسلم معاشروں کے لئے منفرد نہیں ہے، لیکن
بہت سے معاشروں میں یہ جدوجہد خیالات کے دائرے
میں لڑا جاتا ہے۔ مسلم معاشروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسند اسلام طاقت اور تشدد
کے دم پر اپنی برتری کو قائم کرنا چاہتا ہے۔
اسلام کی اپنی فہم کو نافذکرنے کے دعوے میں انتہا پسند اسلام نام نہاد 'سنہرا دور کا حوالہ دیتے ہیں ، ان کی
دلیل ہے کہ اس زمانے میں اسلام میں مزارات
کے لئے کویٗ مقام نہیں تھا۔ ان کی دقیا نوسی
فہم میں مزارات ایک اضافی یا غیر اسلامی چیز بن گئے ہیں جو مانا
جاتا ہے کہ اسلام میں توحیدکے اصول سے سمجھوتہ
کرتا ہے۔ اسلام کی اس تفہیم کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ دونوں تاریخی
اور موروثی راستوں کے ساتھ نا انصافی کرتا
ہے جسے اسلام مقدس قرار دیتا ہے۔
انتہا پسند اسلام اسلامی تاریخ کے ساتھ نا انصافی کرتا ہے کیونکہ
مقدس لوگوں کے مزارات مسلمانوں کے ذریعہ احترام، اسلامی صدی کے آغاز کے بعد سے ہی کیا جاتا
رہا ہے۔ اس میں کوئی حیرت نہیں کہ اسلام کے
ابتدائی مقامات پر بہت سے مزاروں اور مقبرے رہے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کو
اوراسلام کو مقامی حوالوں میں ضم کرنے
میں مدد کی ہےجس سے کہ اسلام ان کی ثقافتی یاد داشت میں
مستقل غیر ملکی عنصر نہ بنا رہے۔ بلکہ، مزارات کے ذریعے اسلام وقت اور
مقام کی ثقافتی میٹرکس کے اندر سرایت
کر گیا۔ یہ عظیم اور چھوٹی سی روایات کا آپس
میں خوبصورت ملنا ہے جو پوری دنیا میں مزارات کی نمائندگی کرتے ہیں
۔ اور شاید یہ مقامی اور عالمگیر ثقافتوں کا آپس میں ملنا ہے جس سے انتہا پسند اسلام سب سے زیادہ پریشان ہیں اور اسے
ختم کر دینا چاہتے ہیں۔
یہ بتاتا ہے کہ مقامی ثقافتوں سے بنیاد پرست اسلام کا رشتہ کیسا ہے۔ بارہا یہ ثابت ہوا ہے کہ انتہا پسند اسلام مقامی ثقافتی روایات سے متضاد ہے۔
انتہا پسند اسلام ایک نئے منظر نامے کو پیدا کرنا چاہتا ہے جو کسی مقامی ثقافتی روایت سے عاری ہو۔ مستند ہونے
کا دعوی کرنے میں انتہا پسند اسلام اس منظر نامے کو اصل اسلام
کے طور پر مانتا ہےاور اس وجہ سے اپنے
پر تشدد کارروائی کو متبرک منسوب کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کی بہترین کوششوں کے باوجود،
اسلام سمیت کسی بھی مذہب کو اس کی ثقافتی جڑوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انتہا پسند اسلام کی طرف سے عرب ثقافت کا ایک خاص انداز پیش کیا جاتا ہے، جو دیگر ثقافتی روایات سے کسی بھی طرح بالادستی کا دعوی نہیں کر سکتا ہے۔
مزید اہم بات یہ ہے یہ عرب ثقافت مکمل طور
پر دوسری ثقافتوں کے ناموزوں ہے اور جن کی اپنی
مخصوص اور شاندار ثقافتی روایات ہیں۔
اس لئے انتہا پسند اسلام خالص
تشدد ہے اور اس کی تشدد نہ صرف جسمانی بلکہ علامتی بھی ہے۔ ٹمبکٹو میں ہم جو دیکھ
رہے ہیں وہ انتہا پسند اسلام کے وسیع تر ایجنڈے کا ایک حصہ ہے جس کے تحت اس کو اس کی ثقافتی بنیادوں اور نتیجتاً اس کے تنوع سے الگ کرنا ہے۔
دیگر معاشروں کی طرح مسلم معاشرہ بھی بغیر ثقافتی ماضی کے ایک صحت مند انداز میں کام نہیں کر سکتا ہے۔ یہ وہی
ثقافتی ماضی ہے جسے انتہا پسند اسلام مٹانا چاہتا ہے۔ تشدد کی اس شکل کی ہر ایک
کی جانب سے مزاحمت کی جانی چاہئے۔ افسوس کی بات
ہے کہ اس کی مزمت کے لئے خاطر خواہ
مسلمانوں کی آواز نہیں ہے۔
ارشد عالم ایک مصنف اور مضمون
نگار ہیں، فی الحال جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے منسلک ہیں۔ وہ
نیو ایج اسلام کے لئے کبھی کبھار کالم لکھتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/arshad-alam-for-new-age-islam/radical-islam,-destruction-of-shrines-and-cultural-memory/d/7818
URL: