ارشد عالم، نیو ایج اسلام
20 ستمبر 2016
خواہ پردہ کا مسئلہ ہو، برقعہ کا مسئلہ ہو یا اب برقعینی کامسئلہ ہو، ایسا لگتا ہے کہ یورپ کو اس بات کو سمجھنے میں حقیقی مسائل کا سامنا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے ارکان دنیا کے بارے میں اپنے نقطہ نظرکو سراہنے میں ناکام کیوں ہو رہے ہیں۔ فرانسیسی، جرمنی اور اب برطانوی لوگ 21ویں صدی کے لندن یا پیرس کی سڑکوں پر قرون وسطی کے انداز میں برقع پوش خواتین کو دیکھ کر خوف زدہ ہیں۔خواہ وہ پردہ کا معاملہ ہویا برقعینی کا ، یہاں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یورپی جدیدیت نے انسانی جسم کو کیا سمجھا ہے اور کس طرح اسلام بنیادی طور پر اس سے اختلاف رکھتا ہے۔
پوروپ کا یہ سمجھنے کے لیے تیار نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے کہ انسانی جسم کے تعلق سے ان کا نقطہ نظر ان کی اپنی مذہبی و ثقافتی محل وقوع کی ایک پیداوار ہے اور یہ کہ مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھے والے لوگ اپنے انسانی جسم کے تعلق سے مختلف تجربہ اور مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ انسانی جسم کی نمائش کے تعین کا ایک معیاری طریقہ مقرر کرنے کی کوشش میں یورپ نے مکالمے اور مباحثے کے ذریعےباہمی مکالمے اور باہمی تبدیلی کی ایک حقیقی کوشش کی گنجائش کم کر دیا ہے۔
چنانچہ یورپ پردہ کو مجبوری اور بے بسی کی علامت سمجھتا ہے جبکہ قدامت پسند مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ پردہ خدا کی طرف سے نازل کردہ ایک مذہبی حکم ہے۔دونوں نظریات ایک دوسرے کے مخالف معلوم ہوتے ہیں،لیکن ان دونوں کے دلائل میں ایک بنیادی وحدت ہے اس لیے کہ دونوں اس امر پر ایک اجارہ داری کا دعوی کرتے ہیں کہ مسلم خواتین کے جسم کو کس طرح پیش کیا جانا چاہیے۔
ایسا ایک اشارہ موجود ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی پردہ خواتین کی مجبوری اور بے بسی کی علامت ہے۔ قدامت پسند مسلمانوں کا یہ ماننا ہے کہ قرآن مردوں اور عورتوں دونوں کو شرم و حیا کا لباس پہننے کا حکم دیتا ہے۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ جب خواتین کے جسم کی بات آتی ہے تبھی اس قانون پر سختی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے؛ جبکہ مسلمان مردجیسا لباس چاہیں پہننے کے لیے آزاد ہیں۔
اسلام میں خواتین اور شرم و حیاء کا چولی دامن کا ساتھ ہے جیسا کہ اسے ثابت کرنے کے لیےقرآن و حدیث سے بہت سارے دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں۔ایسے قدامت پسند مسلمانوں کی رائے کو جو خواتین کوایک ہمیشہ لبھانے والی شئی سمجھتےہیں قرآنی دلائل کی تائید اور حمایت بھی حاصل ہے جسے وہ جب چاہیں پیش کر سکتے ہیں۔لہذا یقینی طور پر یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پردہ یا برقعہ کو مسلم خواتین کی جنسیت کوکنٹرول کرنے کا ایک آلہ سمجھا جا سکتا ہے۔آج پردہ دیگر مختلف مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ان میں سے بعض خود مسلم خواتین کے لیے فائدہ مند ہیں۔ ان میں سے ایک نسبتا معمولی ہے اور وہ یہ حقیقت یہ ہے کہ آج پردہ ایکفیشن بن چکا ہے۔ صرف کچھ خاص لوگوں کے لیےپردہ ایک نشان امتیازاور شوق پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔
تاہم، پردہ کی یہ حیثیت محض ایسے کچھ خاص لوگوں تک ہی محدود ہے، جن کے مطابق پردے کی جگہ کسی بھی فیشن کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شاید پردہ دنیا بھر میں بے شمار مسلم خواتین کے لیے درحقیقت 'آزادی'کی ایک علامت بن سکتا ہے۔یورپ کے تناظر میں،جو مسلمان خاندان بنیادی طور پر جنوبی ایشیائی ممالک سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے ہیں وہ اپنے ساتھ اپنے موروثی نظریات کو بھی لے کر آئے ہیں۔یہ یورپی ریاستوں کی ناکامی ہے کہ وہ ان کو اپنی نظریاتی ساخت میں ضم نہ کر سکے۔اسی لیے نسل پرستی اور بے روزگاری سے دور بھاگنے والے یہ خانداندوسرے تارکین وطن خاندانوں کے ذریعہ فراہم کردہ ساخت پر انحصار کر لیتے ہیں۔
اسلام نے ان خاندانوں کو ایک کر دیا ہے۔ ایک مذہبی نظریہ سے بڑھ کرایک کمیونٹی اور تعلق کے احساس نے اسلام کو ایک مسلمان تارک وطن کی روزانہ کی زندگی کا ایک حصہ بنا دیاہے۔ ابتدائی اسی(80) کی دہائی میں بھی یورپ میں اور خاص طور پر برطانیہ میں نسل پرستی مخالف تحریک اور ثقافتی تکثیریت کی پالیسی میں کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔اگرچہ اس کے پیچھے نیت اچھی تھی لیکن اس پالیسی نے ثقافت کو مذہب کے ساتھ خلط ملط کر دیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو میزبان برطانوی معاشرے کے بجائے کا اسلام کے ساتھ زیادہ منسلک کیا جانے لگا۔
اس کے علاوہ، ایک پالیسی کے طور پر کثیر ثقافتی رجحان کے نتیجے میں یوروپ میں اسلام کی اپنی تفہیم کے ساتھ جنوبی ایشیا اور شمالی افریقہ کے علماء کی درآمدات میں آضافہ ہوا۔ایک مشترکہ نظریہ قائم کرنے کے لیے ان مذہبی ماہرین کے ساتھ گفت و شنید کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جو کہ یورپی معاشرے کے جدید مطالبات اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے لئے بھی یکساں طور پر قابل قبول ہو سکتا تھا۔اسی وجہ سے پردہ انتہاپسند مسلمانوں کے لیے اتنی ہی بڑی خوبی ہے جتنی انضمام کی یورپی پالیسی کی ناکامی ہے۔
تاہم،ان تارکین وطن کے بچوں کو جو نظریات وراثت میں ملے وہان کے والدین اور باپ دادا کے نظریات سے بہت مختلف تھے۔انہوں نے برطانوی اسکولوں میں تعلیم حاصل کی اور وہ وہی کرنا چاہتے تھے جو برطانوی بچوں نے کیا۔ لڑکوں کے لیےایسا کرنا آسان تھا جبکہ سن بلوغت کو پہنچے کے بعد والدین کے پرانے خیالات و نظریات نے مسلم لڑکیوں کی سرگرمیوں اور آزادیوں کو محدود کر دیا۔ بہت سے مسلم گھرانوں میں پردہ مفاہمت کی ایک علامت ہے۔اس سےوالدین کو اس بات کا یقین ہوا کہ ان کی بیٹی مسلم اصولوں کے مطابق ملبوس ہے تا کہ کوئی ان کے خاندان پر انگلی نہ اٹھا سکےاور ساتھ ہی ساتھ اس سے مسلم لڑکیوں اس بات کی بھی آزادی مل گئی کہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں اور ملازمت کے قابل بن سکیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جس پردہ کو بہت سے لوگ مجبوری اور پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں اسے ہی مذاکرات اور آزادی کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر یورپ کے تناظر میں پردہ ہمیشہ روایتی پسماندگی کی علامت نہیں ہے؛بلکہ اسے ایک ایسے آلہ کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جو جدید شعبے میں مسلم خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔اس کی عوامی مقامات پر پردے میں ملبوس خواتین کی موجودگی سے زیادہواضح مثال نہیں ہو سکتی۔
ہر حجاب محض رسم اور سمجھوتے کا نتیجہ نہیں ہے۔ کچھ خواتین کے لئے حجاب ایک رضاکارانہ انتخاب بھی ہو سکتا ہے۔لبرل رائے رکھنے والوں کو جس بات نے حیرت زدہ کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ پردہ کی حمایت کرنے والی مسلم خواتین کے درمیان سے بااثر آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ اور پردے کا دفاع کرنے والی زیادہ تر خواتین جدید تعلیم کی پروردہ ہیں اور وہ اپنے آپ میں کامیاب خواتین بھی ہیں۔
شایدیورپ کویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جسم اور جنسیت کے تئیں اسلام کا نقطہ نظر وہ نہیں ہے جو عیسائیت کا ہے۔حقیقی گناہ کے عیسائی تصور کے ساتھ موازنہ کے قابل اسلام میں کچھ بھی نہیں ہے۔ فلسفہ کی رو سے اگر بات کی جائے تو جنسیت کے تئیں ایک عیسائی موقف اور نظریہ کے تحت زندگی خود گنہگار ہےاور انسانی جسم گناہوں میں دبا ہوا ہے جس کا مظاہرہ خود کالُونِيَت کے اصولوں میں ہوتاہے، جس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مباشرت جنسی لذت اور خواہش کو پوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف افزائش نسل کے لیے کیا جانا چاہیے۔لہذا، روشن خیال یورپی باشندوں کے لیے انسانی جسم کے بارے میں مکالمہ کرنا اور اسے مذہبی بیڑیوں سے اسے آزاد کراناضروری ہو چکا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یورپ میں پردہ کے تئیں اجتماعی نفرت انگیزی کا محرک یہی تاریخی تجربہ ہے۔
وہ یہ بھول چکے ہیں کہ اسلام انسانی جسم کے تئیں ایک مکمل طور پر مختلف موقف کا حامل ہے۔ایک مذہب کے طور پر اسلام نے کبھی بھی دنیاوی لذات و خواہشات کو نہیں کچلا ہے بلکہ ہمیشہ اسلام نے انہیں منظم اور منضبط کرنے کی کوشش کی ہے۔ جنسی تعلقات اور جنسیت اسلام میں کوئی ممنوع موضوع نہیں ہے اور اسلام کے ابتدائی دور کی کتابوں میں صفحات در صفحات اس موضوع پر بحث و مباحثہ کیا گیا ہے۔ لہذا اسلام میں لبرل خیالات و نظریات جسم و جسمانیات پر ایسی تنقید نہیں کر سکتے جیسا کہ مغرب ان پر کرتا ہے، اور اس کی وجہ بالکل آسان ہے کہ اسلام نے جسم و جسمانیات کو اس کی لذات و خواہشات سے کبھی محروم نہیں کیا ہے۔اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض مسلم خواتین حجاب کو جنسی مجبوری اور لاچاری کی علامت نہیں مانتی ہیں جبکہ مغربی عیسائی عورتیں اسے مظلومی اور بے بسی کی علامت مانتی ہیں کیونکہ اس تعلق سے ان کے تاریخی اور مذہبی تجربات بہت مختلف ہیں۔حجاب کو صرف جنسی مجبوری اور پسماندگی کی علامت قرار دے کر یورپ خوداپنی تاریخی تعصبات، تشویش و اضطراب اور تفریق پسندی کو آفاقی شکل عطا کرنا چاہتا ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/europe-muslim-body/d/108612
URL for this article: