ارشد
عالم، نیو ایج اسلام
15 فروری 2021
قرون
وسطی کے مسلم ذہنیت کے مطابق، ہندوستان بت پرستی کی سرزمین رہا ہے۔ بت پرستی کے
ساتھ ہندوستان کی یہ رفاقت اتنی مضبوط تھی کہ اس کے مذہبی فلسفیانہ نظام کو سمجھنے
کے لئے صرف چند مسلمانوں ہی نے مہم جوئی کی۔
اسلامی روایت کے مطابق ، ہندوستان پہلا ملک تھا جس میں بت پرستی کی جاتی تھی اور
یہاں سے ہی مذہبی نظام کی یہ شکل پوری دنیا میں چلائی گئی تھی۔ اس روایت کا ماننا
ہے کہ آدم علیہ السلام جنت سے بے دخل ہونے
کے بعد بودھ نامی ایک ہندوستانی پہاڑ پر اترے اور ان کی اولاد ان کی موت کے بعد ان کے جسم کی پوجا کرنا شروع
کردیئے۔ آخر کار اس سرزمین پر پہلے بتوں
کو کاین کے بیٹوں نے تراشا تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں طوفان
نے ان بتوں کو جدہ پہنچادیا جہاں لوگوں نے ان کی پوجا کرنا شروع کردی تھی ، اس طرح
یہ رواج عربوں میں پھیل گیا تھا۔ دوسری روایت کے مطابق، ہندوستان کے برہمن حضرات قبل از
اسلام کے زمانے میں ان بتوں کی پوجا کے لئے مکہ جاتے تھے اور وہ کعبہ کو زمین کا
سب سے مقدس مقام سمجھتے تھے۔
اس
طرح ہندوستان کو اسلام کے آغاز ہی سے بت پرستی کی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا
تھا۔ اپنے ہی سیاق و سباق میں، اسلام نے بت پرستی کی مذمت کی، اس سے جنگ لڑی اور
آخر کار شرک کی جگہ اسلام نے لے لی۔ اسلام نے یہودیت اور عیسائیت جیسے توحید پسند
مذاہب کے ساتھ مصالحت کر لی ، اور ان کے پیروکاروں کو اہل کتاب کا نام دے دیا۔ ایسا ہندو مذہب کے ساتھ اس کی بت پرستی کے عمل کی وجہ
سے نہیں ہو سکا۔ درحقیقت، یہ رواج ایک آزاری کی حیثیت اختیار کر گیا جس کے ذریعے
مسلمانوں نے کسی بھی معاشرے کی تہذیبی پیشرفت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ لہذا یہ بلا
وجہ نہیں ہے کہ مسلم مورخ بارانی نے مطالبہ کیا کہ ہندوؤں کے خلاف تعزیری اقدامات
کیے جائیں۔ انہوں نے استدلال کیا کہ مسلم بادشاہوں اور راجاوں کو صرف جزیہ نافذ کرنے پر ہی راضی نہیں ہونا چاہئے بلکہ انہیں ‘کفر
کو ختم کرنے اور برہمنوں کے قائدین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرنی چاہئے’۔ مسلم تھیلوجین شیخ احمد
سرہندی بھی چاہتے تھے کہ مسلم راجا سختی کا مظاہرہ کریں جس سے ہندوؤں کو معاشرے
میں ان کا کمتر مقام مل جائے۔ وہ راجہ اکبر کے دین الٰہی پر خوب تنقید کرتے تھے جس
سے تمام مذاہب کی ایک عالمی تفہیم حاصل کی جا سکتی تھی ۔
یہ
نظریات بمشکل ہی حیرت انگیز ہیں اس حقیقت کے مد نظر کہ اسلام کا بنیادی لمحہ بتوں کی پوجا کے خلاف رہا
ہے۔ تاہم، اس مخالفت کے باوجود ، ہم دیکھتے ہیں کہ قرون وسطی میں کچھ مسلمان ایسے بھی تھے جنہوں نے ہندو مذہب کو بہت ہمدردی کے
ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ۔ چنانچہ مشہور مؤرخ البیرونی یہ استدلال کرتے ہیں کہ بت
پرستی کو عام لوگوں کے عمل کے طور پر
سمجھنا چاہئے کیونکہ ان میں تجرید کی صلاحیت نہیں ہے اور انہیں اپنی عقیدت کو
مرکوز کرنے کے لئے کسی ٹھوس شے کی ضرورت ہے۔ عیسائیت جیسی بہت سی دوسری مذہبی
روایات میں اسی مقصد کے لئے تصویری نمائندوں
کو شامل کیا گیا ہے ۔ اس طرح ہندو بتوں کو صرف ان پڑھ لوگوں کے فائدے کے لئے بنایا
گیا ہے۔ دوسری طرف وہ ہندو جو فلسفے اور الہیاتیات کا مطالعہ کرتے ہیں ، وہ "ابسٹریکٹ
سچائی (نہ دکھنے والا حق) کے خواہشمند ہیں" اور 'کبھی بھی اس کی نمائندگی کے
لئے تیار کردہ شبیہ کی عبادت کا خواب نہیں دیکھ سکتے ہیں'۔ اس وقت بیروانی کے لئے
، ہندو مذہب اور توحید کے مابین بہت کم فرق تھا۔ فرق ان کے مذہبی وابستگی سے قطع
نظر ، اشرافیہ اور عام لوگوں کے درمیان تھا۔
فارسی
مورخ الغر دیزی کا بھی یہاں تذکرہ ہونا چاہیے ، جنھوں نے ’’ ہندوؤں کی نوے
برادریوں ‘‘ کو چار الگ الگ گروہوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ ان کے مطابق، ان
چار گروہوں میں سے پہلے دو واضح طور پر توحید پرست تھے۔ ان کے مطابق، پہلے گروہ نے
خالق اور اس کے انبیاء پر ایمان رکھتے تھے جبکہ دوسرا گروہ جہنم اور جنت پر ایمان
رکھتا تھا۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ گردیزی
کا استدلال ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو انسانیت کی شکل میں ’توحید پرست برہمنوں‘ کے
پاس بھیجا۔ اللہ کے نام کو برہمنوں کے دیوتا کے طور پر منتقل کرنا یقینا ہندو مذہب
کو مسلمانوں کے لیے مزید لذت بخش بنانے کی کوشش تھی۔
اسی
طرح امیر خسرو نے بھی اس سرزمین کے لوگوں کی بے حد تعریف کی
لیکن جب ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں لکھتے ہیں تو اس تعریف کی روک تھام کی جاتی
ہے۔ پھر بھی ان کی دلیل ہے کہ دنیا میں بہت ساری برادریاں ایسی ہیں جن کے عقائد ہندوؤں سے زیادہ برے ہیں۔ اس طرح ان کے مطابق،
ہندوؤں کا ماننا ہے کہ دنیا کا ایک خالق اور ایک رب ہے جو زندگی اور موت سے بالا تر ہے ۔ یہ عقیدہ بہت
سے ‘جھوٹے’ عقائد سے کہیں بالاتر ہے جیسے خدا کے لیے بیٹا تسلیم کرنا (عیسائیت) یا
دنیا کی ابدیت پر عقیدہ رکھنا (دہریہ)۔ ان کے مطابق براہمن سورج ، پتھر اور
جانوروں کی پوجا کرتے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ خالق سے کوئی مشابہت رکھتے ہیں بلکہ
اس لئے کہ وہ سب اس خالق کی تخلیق کا حصہ ہیں۔ وہ ان کی پوجا کرتے ہیں کیوں کہ یہ
روایت جو ان کے پاس ہے ان کے آباؤ اجداد
نے دی ہے نہ کہ اس طرح کی اشیاء پر کسی قسم کے عقیدہ کے سبب۔ اس طرح کی دلیل کی
درآمد واضح تھی: اگر اسلام عیسائیت کے ساتھ ان کے خامیوں کے ساتھ تعامل کرسکتا ہے ، تو پھر اسی طرح ہندو مت کے ساتھ بھی
تعامل کے لیے مشغول ہونا چاہیے ۔
خاص
طور پر دارا شکوہ کا بھی ذکر کیا جانا چاہئے جنہوں نے ہندو مذہب کو بلا تنقید سمجھنے کی گہری کوشش کی۔ انہوں نے اوپنیشد جیسے سنسکرت
متون کا فارسی میں ترجمہ کرکے دونوں روایات کی مقدس کتابوں کے مابین تعلقات بنانے میں
مستقل دلچسپی لی۔ دارا نے استدلال کیا کہ تمام مذہبی کتابوں کا ماخذ ایک جیسا ہے
اور وہ ایک دوسرے کی ترجمانی کرتے ہیں۔
خیالات جنہیں بالاختصار یا مجازی طور پر ایک کتاب میں بیان کیا گیا تو دوسری کتاب
میں اس کی تشریح کی گئی ۔ دارا کے مطابق، قرآن کے بہت حصوں میں مجاز و استعارہ ہے اور اس کی وضاحت صرف اپنیشدوں میں ہی مل سکتی ہے۔ کسی مسلمان کے ذریعہ ہندو
صحیفوں کی اس طرح کی تعریف شاید بے مثال ہے اور ان دونوں مذہبی روایات کو قریب
لانے کی خواہش کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ حتی کہ دارا مذہبی شعور کی نشوونما میں بت
پرستی کو ایک مثبت کردار قرار دیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بت ان لوگوں کے لئے
ناگزیر ہیں جو مذہب کے اندرونی (باطنی ) معانی کو نہیں سمجھتے ہیں اور اس لئے اس
مقدس کے ٹھوس مظہر کی ضرورت ہے۔ جیسے ہی وہ مذہب کے حقیقی معنی سے واقف ہوں گے ،
انہیں ایسے بتوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ماڈرن
دور سے پہلے کے مسلمانوں میں سے جنہوں نے ہندو مذہبت کی تعریف کی ہے ان میں سے زیادہ تر مورخین یا سیاسی شخصیات ہیں۔ یہ حیرت
کی بات ہے کہ علماء کرام کی طرف سے ایسی
کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ یہ سوال اہم ہے کیوں کہ اتنے لمبے عرصے تک ایک ساتھ
زندگی بسر کرنے بعد بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ اسلامی الہیات کو ہندو مذہب کے ساتھ
جامع طور پر شامل کرنا چاہئے تھا۔ یہ کیوں نہیں ہوا ایک پریشان کن سوال ہے۔
-----
Arshad Alam is a columnist with NewAgeIslam.com
URL for English article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/engaging-with-hinduism-medieval-muslim/d/124318
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/engaging-with-hinduism-medieval-muslim/d/124342
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism