ارشد عالم، نیو ایج اسلام
19 اپریل 2021
تبلیغی جماعت کے ممبران کو
بدنام کیا گیا اور مجرم قرار دیا گیا، جبکہ کمبھ میلے کے حوالے سے ایسا کوئی احتیاطی
اقدام نہیں دیکھا گیا، حالانکہ اس کا پیمانہ تبلیغی جماعت سے کہیں زیادہ بڑا تھا
اہم نکات:
1. کمبھ میلہ کا معاملہ مختلف تھا کیونکہ کہ یہ مسلمانوں کا نہیں ہے
2. آج کے ہندوستان میں صرف مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ قانون
کا احترام کر رہے ہیں
3. بہت سے مسلمانوں نے رضاکارانہ طور پر ہسپتال کے بستروں، ادویات،
آکسیجن اور خوراک کا بندوبست کرکے کووڈ کے مریضوں کی مدد کی ہے۔
4. تبلیغی جماعت کے عام ارکان کو صرف اس لیے شکار بنایا گیا کیونکہ
وہ مسلمان تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو کوئی دکھاوا بھی نہیں
کرتا۔ آج کے ہندوستان میں صرف مسلمانوں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ قانون کا احترام کر
رہے ہیں۔ ہندو کسی بھی چیز کو بس اسے اپنے مذہب کا معاملہ قرار دے کر جو چاہیں کر سکتے
ہیں۔ اس منافقت کو اجاگر کرنے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہے: نہ اپوزیشن کو اور نہ میڈیا
کو۔ اگر کچھ دہائیاں قبل ایسا ہو رہا ہوتا تو ہندوستانیوں کا ایک طبقہ اسے ہندو اپیزمنٹ
قرار دیتا۔ لیکن ملک کی فضا اس قدر زہر آلود ہو چکی ہے کہ نیک نیت لوگ بھی کوئی واضح
بیان دینے سے پہلے دو بار سوچتے ہیں۔
ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ گنگا کا پانی ان کے گناہوں کو دھو دیتا ہے۔ لیکن اس بار اس کا استعمال کچھ اور ہو رہا ہے: اب ایک قوم پرست طبقے، سیاسی طبقے، اور مطلب پرست میڈیا کی مجرمانہ اور منافقت ظاہر ہونے لگی ہے جو اس طرح کی زوال پذیری کو ہوا دیتا ہے۔ ایک پھیلتی ہوئی وبائی مرض کے درمیان کمبھ جاری ہے جس کی کوئی نگرانی نہیں کی جارہی ہے، کیونکہ کہ اتنی بڑی بھیڑ کی نگرانی ناممکن ہے۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس میں شامل ہونے والوں کو ٹیسٹ کروانے کے بعد ہی آنے کی اجازت دی گئی تھی وہ بنیادی طور پر صرف خانہ پری کر رہے ہیں تاکہ دنیا انہیں حساس جانے۔ حکام خود ریکارڈ پر آکر بتا چکے ہیں کہ کمبھ میں آنے والے ہر شخص کی اسکریننگ کرنا ناممکن ہے۔ پہلے ہی سینکڑوں معاملات رپورٹ ہو چکے ہیں لیکن نہ تو کوئی اس لاپرواہی کا حساب لینے والا ہے اور نہ ہی کسی کے اندر اس کی مذمت کرنے کی ہمت ہے کہ اتنی جانوں کو خطرے میں کیوں ڈالا گیا۔
موازنہ اس بات سے کیا جائے
گا کہ کس طرح تبلیغی جماعت کو اس وبائی مرض کی پہلی لہر کے دوران وائرس 'پھیلانے' کے
لیے ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ سارا تماشا اس حقیقت کے باوجود کھڑا کیا گیا کہ جب
تبلیغی جماعت کے ارکان نظام الدین مرکز میں پھنسے تو اس وقت کوئی لاک ڈاؤن نافذ نہیں
تھا۔ مولانا سعد (تبلیغی جماعت کے سربراہ) کی ’’مسجدیں بھرنے‘‘ کی احمقانہ نصیحت کے
باوجود، تبلیغی جماعت کے عام ارکان کو محض اس لیے شکار بنایا گیا کیونکہ وہ مسلمان
تھے۔ یہ مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کے عصری سیاسی بیانیے کے ساتھ اچھی طرح ہم آہنگ
ہے۔ تبلیغی جماعت کے ارکان اب پھنسے ہوئے نہیں تھے بلکہ یہ کہا گیا کہ وہ ’چھپے ہوئے‘
ہیں۔ انہیں مجرم بنانے کے اس عمل کو مسلم مخالف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے خوب
پھیلایا گیا جہاں سے کورونا جہاد کے ویڈیوز بڑے پیمانے پر شائع کیے گئے۔ صرف ہندوستان
ہی ایک ایسا ملک تھا جہاں کورونا کا بھی مذہب نکال لیا گیا۔
لوگ کہتے ہیں کہ کمبھ کا معاملہ
الگ ہے۔ یہ اس لئے مختلف ہے کیونکہ بنیادی طور پر اس کا تعلق مسلمانوں نہیں ہے۔ مسلمانوں
کے کسی بھی معاملات میں شکوک و شبہات، جرم اور ممکنہ طور پر جہاد کا پہلو بہ آسانی
نکال لیا جاتا ہے۔ جبکہ ہندوؤں کے کسی بھی معاملے کو مذہب کا معاملہ بنا کر نظر انداز
کر دیا جاتا ہے۔ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ کے اس بیان سے کہ 'تبلیغی جماعت کے پروگرام
اور کمبھ کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا' یہی واضح ہوتا۔ ان کی دلیل تھی کہ تبلیغی جماعت
کی تقریب ایک عمارت کے اندر منعقد کی گئی تھی جبکہ کمبھ کھلے میں منایا جا رہا تھا۔
اشارہ بالکل واضح تھا: تبلیغی جماعت کی سرگرمی مشکوک تھی کیونکہ وہ اندر (چھپ کر) ہو
رہی تھی جبکہ ہندوؤں کا عظیم مذہب شفاف ہے۔ اب وی ایچ پی کے جوائنٹ سکریٹری، سریندر
جین کیوں پیچھے رہتے، انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ کمبھ کا تبلیغی جماعت کے پروگرام
سے موازنہ کرنا گنگا کے پانی کو نالے کے گندے پانی سے تشبیہ دینے کے مترادف ہے۔ اس
سے تو یہی واضح ہوتا ہے کہ کچھ طاقتور ہندوؤں کے نزدیک اس ملک میں صرف ان کے ہی عقیدے
کو مذہب کا درجہ حاصل ہے، اور دیگر تمام مذاہب صرف ہندوؤں کے خلاف سازش کرنے کے لیے
موجود ہیں۔
شکر ہے کہ ہندوؤں کے ایسے
مضحکہ خیز علمبرداروں کے جال میں صاف ستھرے ذہن والے لوگ نہیں پھنسے۔ کمبھ کو معطل
کرنے کے لئے وزیر اعظم کی اپیل نے اس طرح کے مذہبی پولرائزنگ موازنہ کو ختم کر دیا
ہے لیکن اس سے پہلے کافی نقصان ہو چکا تھا۔ جہاں وبائی مرض نے مذہب کے تمام امتیازات
کو ختم کر دیا ہے وہیں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اب بھی ان کے کپڑوں سے لاشوں کی شناخت
کرنا چاہتے ہیں۔ مقدس گنگا کے پانی نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ مقدس دریا میں ڈبکی
لگانے کے باوجود بالآخر سینکڑوں لوگوں کو کووڈ ہو گیا۔ جبکہ سینکڑوں لوگوں کا تو کوئی
پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ان کا کیا ہوا۔ آخرکار، اوپر سے سیاسی دباؤ نے انہیں عقل اور
سمجھداری کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کیا۔ ان سیاست دانوں نے بنیادی طور پر ہندو مذہب
کو ایک منفی عقیدہ بنا دیا ہے جسے اس کی اپنی قابلیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلام کی
توہین کے ذریعے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی تہذیب کے لیے جو سناتن ہونے کا دعویٰ
کرتی ہے، یہ واقعی انتہائی افسوسناک ہے۔
Devotees
gather to offer prayers during the third 'Shahi Snan' of the Kumbh Mela 2021,
at Har Ki Pauri ghat in Haridwar on Wednesday. (Photo: PTI)
-----
کوئی کروڑوں ہندوؤں کے عقیدے
کو یقینی طور پر انتہائی احترام کی نظر سے دیکھ سکتا ہے جو کمبھ میں شرکت کو خوش آئند
سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک مذہب کے لیے اس عظیم احترام کی بنیاد پر کسی کو بھی اس حکومت
اور کچھ میڈیا طبقے کے صریح دوہرے معیار سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں تبلیغی جماعت
کے ارکان کو بدنام کیا گیا اور مجرم قرار دیا گیا، وہیں کمبھ کے حوالے سے ایسی کوئی
تضحیک و تذلیل نہیں دیکھی گئی جبکہ اس کا پیمانہ تبلیغی جماعت کے پروگرام سے کہیں زیادہ
بڑا تھا۔ مزید یہ کہ حکومت پہلے ہی جان چکی تھی کہ وائرس کی یہ نئی شکل اس سے کہیں
زیادہ خطرناک ہے جس کا ہم نے اس وبائی مرض کے پہلے دور میں سامنا کیا تھا۔ یہ حکومت
اور حکام کی اس بات کو یقینی بنانے میں مکمل ناکامی ہے کہ ایسے واقعات سے ہزاروں لوگوں
کی زندگی خطرے میں نہ پڑیں۔
Kumbh
Mela. Photo courtesy Quartz India
------
اتنی گہری مسلم مخالف بیان
بازی اور نفرت کے درمیان، زمینی سطح پر کچھ اہم مثبت باتیں ہو رہی ہیں۔ اور اس میں
زیادہ تر مثبت باتیں مسلمانوں کی بے لوث سرگرمیوں سے پیدا ہو رہی ہیں۔ بہت سے لوگوں
نے رضاکارانہ طور پر ہسپتال کے بستر، ادویات، آکسیجن اور خوراک کا بندوبست کرکے کووڈ
کے مریضوں کی مدد کی ہے۔ ان مسلمانوں پر ہندوستان کو فخر ہے کیونکہ وہ لوگوں کی خدمت
کرنے سے پہلے کسی کے مذہب کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ وڈوڈرا میں مرنے والوں کی آخری رسومات
میں بھی مسلمان مدد کر رہے ہیں۔ کوئی اور ملک ہوتا تو ان کاوشوں کو سراہا جاتا۔ ہمیں
امید ہے کہ ہندوستان میں اس سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کر کے روزی
کمانے والوں کو کچھ شرم آئے گی۔
English
Article: Despite the Pandemic, Religious Bigotry is on the
Rise
Malayalam
Article: Despite the Pandemic, Religious Bigotry is on the
Rise മഹാമാരി
ഉണ്ടായിരുന്നിട്ടും, മത വർഗീയത
ഉയർന്നുവരുന്നു
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism