ارشد
عالم، نیو ایج اسلام
1 فروری 2021
محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے شروع کردہ سعودی
عرب کی ’اوپننگ‘ نے دنیا بھر میں کافی دلچسپی پیدا کی ہے۔ سنیما متعارف کرکے اور
خواتین کو سفر کرنے اور گاڑی چلانے کی اجازت دے کر جو سخت ثقافتی اصولوں میں تخفیف
ہوئی ہے اس کا خاص طور پر مغرب نے بہت
مثبت استقبال کیا ہے۔ پہلے عورتوں کی تصویر کشی کالے ابایوں اور نقابوں میں نظر
آتی تھی لیکن اب دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن یقینی طور پر ان کی تصویر ان عورتوں کی
وجہ سے متغیر ہوتی جا رہی ہے جو گاڑیوں پر سوار ہو کر یونیورسٹیوں کا سفر طے کر رہی ہیں۔ اس سے عالمی برادری میں سعودی عرب کی رجعت
پسندانہ شبیہہ کو یقینا بہت فرق پڑا ہے۔ لیکن ان تبدیلیوں کا براہ راست اثر مسلم
دنیا پر بھی پڑے گا، کیوں کہ بہت سارے سنی مسلمانوں کے نزدیک سعودی عرب ایک مثالی
اصول پسند ریاست سمجھا جاتا ہے۔ مرکز کی طرف سے ہونے والی کسی طرح کی تبدیلی کے نتائج
اس کے گرد و نواح میں بھی دیکھنے کو ملیں
گی۔
Woman Driving An Uber Taxi Is
The Face Of Real Change
FAISAL AL NASSER/REUTERS
-----
معاشرتی
اصلاحات کے تحت سخت سعودی عرب کا یہ احساس
ہے کہ طویل عرصے تک انہیں تیل کی آمدنی پر کم ہی انحصارکرنا پڑے گا۔ ایسے حال میں
کہ جب پٹرولیم اسٹاک کی کمی ہو رہی ہے اور دنیا
مزید صاف ستھری متبادلات کی طرف
گامزن ہو رہی ہے، سعودیوں کو اپنے سروس سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت
ہوگی۔ جیسا کہ سعودی ویژن 2030 میں بیان کیا گیا ہے کہ ٹھیک کچھ ایسا ہی منصوبہ
ہے۔ لیکن کسی سروس معیشت کی طرف پیش قدمی ہمیشہ معاشرتی اور ثقافتی اصولوں میں
بدلاؤ کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔ جدید معیشت روایتی اور قرون وسطی کے اصولوں کے ساتھ
نہیں چلتی ہے۔ لہذا ثقافتی طرز زندگی اور طرز فکر کو نئی سیاسی معیشت کے مطابق
بنانا ہوگا۔ شاید سعودی کے اس زیر
عمل اصلاحات کے بیچھے یہی سب سے اہم وجہ ہے۔
ایک
اور اہم جیو سیاسی وجہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول بنانا ہے۔ اگرچہ ابھی تک
سعودی حکومت کے لیے اس طرح کا کوئی
باقاعدہ اقدام کرنا باقی ہے لیکن کچھ مشرق وسطی کی ریاستیں پہلے ہی ایسا کر چکی
ہیں جو سعودی منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
جزوی
طور پر موجودہ مذہبی تھیولوجی جو کہ سعودی اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں اس سے
مذہبی انتہاپسندی اور یہودی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ حیرت کی بات نہیں ہے کہ سعودی
درسی کتب میں یہود مخالف نفرت، عورتوں کو کم تر سمجھنے اور جہاد جیسے تصورات سے
بھری ہوئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب سعودی حکام ان خطرات کے سامنے بیدار ہو چکے ہیں
جو ایسی تحریریں پیدا کرتی ہیں اور جن سے ان کی اپنی آنے
والی نسلوں کو خطرہ در پیش ہے۔ حال ہی میں انہوں نے ان درسی کتب کے مواد میں کچھ
اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ برائے مانیٹرنگ پیس اینڈ کلچرل ٹالرنس ان اسکول
ایجوکیشن (IMPACT-SE)
کے ذریعہ 2020-2021 کے لئے کی گئی منتخب درسی کتب کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے
کہ یہ تبدیلیاں اگرچہ چھوٹی ہیں لیکن ان
کے باوجود نمایاں نظر آتی ہیں۔
سعودی عرب کی نئی کتابوں سے اس غیر معروف حدیث
کو ہٹا دیا ہے جس میں طلبا کو یہ تعلیم دی جاتی
تھی کہ یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین جنگ ناگزیر ہے اور جس میں یہ تھا
کہ مسلمان تمام یہودیوں کو مار ڈالیں گے۔
اسی طرح ایک عبارت جس میں کہا گیا تھا کہ قیامت کے دن مسلمان یہودیوں کا قتل کریں
گے، اسے بھی ہٹا دیا گیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق نئی درسی کتب میں جہاد کی فضیلت کو بھی کم بیان کیا گیا ہے۔ ایک اور مشکل
عبارت جس میں ہم جنس پرستی کی مذمت کی گئی
اور یہ دلیل دی گئی تھی کہ ایسے لوگوں کو
‘سوڈومی کے جرم’ کی وجہ سے موت کی سزا دی جانی چاہیئے، اسے بھی ہٹا دیا گیا ہے، جو یقینی طور پر مزید رواداری
اور برداشت کی طرف ترقی کرنے پر ایک دلیل ہے ۔ تاہم کچھ پریشان کن عبارتیں ابھی بھی موجود ہیں۔ ان نصابی کتب میں بہت ساری
جگہوں پر یہودیوں اور عیسائیوں کی جگہ ’دشمنان اسلام ‘ کر دیا گیا ہے۔
ابھی
بھی سعودی عرب کے درسی کتب کے اندر بعض ایسے مقامات ہیں جن میں شرک پر سختی کا
مظاہرہ ہے اور دلیل یہ دی گئی ہے کہ قیامت کے دن ان کی سزا سخت ہوگی۔ ایک آزاد اور
روادار معاشرے کے لئے اس طرح کی عبارتوں
کی موجودگی اچھا اشارہ نہیں دیتی ، پھر بھی درسی کتب میں اصلاحات پر جو عام
زور دیا گیا ہے اسے خوش آمدید کہا جانا
چاہئے۔
Jamal
Khashoggi
-----
اگرچہ
اختیارات سعودی عرب میں یقینی طور پر وسیع
ہورہے ہیں، لیکن یہاں ایک بہت ہی اہم پہلو ایسا ہے جس پر سختی سے قابو پایا جارہا ہے۔ اگر سعودی
دنیا کو بڑے پیمانے پر یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ لبرل ازم کے آغاز
کی اپنی خواہش میں صادق و امین ہیں تو
سیاسی رائے کا آزادانہ اظہار اس طرح کی پالیسی کا سنگ بنیاد ہونا چاہئے۔ تاہم جو
کچھ ہم سعودی عرب میں دیکھ رہے ہیں وہ حق اور آزادانہ اظہار رائے کے حق کی نفی ہے۔
Lujain
al-Hathloul, women’s right activist
-----
اس
حقیقت کے باوجود کہ ایم بی ایس نے خواتین کے لئے ایسی جگہیں کھول دی ہیں جو اب تک
ان کے لئے بند تھیں، لیکن ساتھ ہی اس نے بہت
خواتین کو سخت سزا بھی دی ہے جو ان حقوق کا مطالبہ کرنے میں پیش پیش تھیں۔
خاص طور پر لوجین الھذلول کا معاملہ نمایاں ہے۔ وہ تقریبا ایک دہائی سے خواتین کے
حق کے لئے مہم چلا رہی تھی لیکن اب وہ جیل کے پیچھے ہے۔ ایسا ہی معاملہ بہت سارے
مرد اور خواتین کا بھی ہے جو ثقافتی ، معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے
تھے، جب کہ رائف بدوی جیسے کچھ لوگ ، عوامی طور پر کوڑے مارے جانے کے بعد، اپنا
وقت جیل میں گزار رہے ہیں۔ کچھ دوسرے ایسے ہیں
دیگر ممالک میں پناہ لینا پڑا۔ جمال خاشوگی کا معاملہ، جسے سعودی حکومت کی
تنقید کا نشانہ بننے کی وجہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان سارے واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ شاید ہی سعودی عرب میں
اصلاحات کے خیالات پر اعتماد کو بڑھاوا دے
۔
Raif
Badawi
-----
اس
میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب میں بنیادی تبدیلیاں جاری ہیں لیکن یہ تبدیلیاں سزا
کی قیمت پر آرہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت صرف ٹاپ ڈاون اپروچ ہی میں دلچسپی
رکھتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہی شہری اور سول سوسائٹی کی اصلاحات کی
صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ مزید آزاد اور روادار معاشرے کے ڈھونگ کے باوجود بھی
آمریت پسندی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
جلد
یا بدیر سعودی باشندے سیاسی حقوق کا مطالبہ
کرنے والے ہیں جیسا کہ عرب اسپرنگ کے دوران بہت سے دوسرے ممالک میں دیکھا گیا۔
شاید ان باشندوں کا یہی وہ مستقبل
سیاسی حق ہے جسے سعودی حکومت دینا نہیں چاہتی ہے اور اسی لئے وہ کسی طرح کی اٹھنے والی سیاسی بیانات پر دباو
ڈالتی ہے ۔ سعودی حکومت کو جو بات سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس کی ریاستی
قیادت میں اصلاحات لوگوں کی توقعات اور امنگوں کو پہلے ہی بڑھا چکی ہیں اور ریاست
کو اب ان پر قابو پانا بہت مشکل ہوگا۔ سعودیوں کے لئے آگے بڑھنے کا بہترین طریقہ
یہ ہے کہ وہ اپنے عوام پر اعتماد کریں اور سماجی اور ثقافتی اصلاحات کے ساتھ ساتھ
سیاسی اصلاحات کا آغاز کریں۔
URL for Urdu article: https://newageislam.com/islamic-society/are-saudi-reforms-real/d/124197
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/are-saudi-reforms-real-/d/124256
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism