ارشد عالم، نیو ایج اسلام
1 نومبر، 2017
آخر کار اتر پردیش کے وزیر اعلی کو تاج محل میں جاروب کشی کرنی ہی پڑی تاکہ لوگوں تک یہ پیغام جائے کہ یہ عظیم یادگار کسی بھی تنازع سے اوپر ہے۔ اور یہ ایک ایسا تنازع ہے جسے جزوی طور پر انہوں نے ہی یہ کہہ کر شروع کیا ہے کہ اب غیر ملکی سیاحوں کو مغل یادگار تاج کے بجائے گیتا کی ایک نقل دی جائے گی۔ اس کا اشارہ بہت واضح تھا کہ: یہ ایک ہندو حکومت ہے اور اس وجہ سے کوئی مسلم ثقافتی ورثہ ہندوستانی ثقافت کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہئے ، اس میں کوئی حجت نہیں ہے کہ یہ ایک ہندو حکومت ہے لیکن انہیں یہ بات بالکل سمجھ میں نہیں آتی کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام اور رسوا کر کے ہندوپن کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس یوگی سے کیا امید کی جانی چاہئے جو مسلم خواتین کو اغوا کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ لہذا ان سے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ ہمیں تاج محل کی اصل تک جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرفی یہی کافی ہے کہ 'یہ' ہماری 'زمین' پر ہے اور اس کا خیال رکھنا جانا چاہئے۔ اچانک یہ دِل کا بدلاؤ کیوں؟
مجھے شک ہے کہ اس کا تعلق اس رد عمل سے ہے جو اس حکومت کی حمایت کرنے والے غیر ملکی اور دیگر بڑے شہروں کے ہندوؤ کے درمیان تاج محل پر تنازع کے سبب پیدا ہو چکا ہے۔ ہندو قدامت پرستوں کی نظریاتی بنیاد کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ مسلمان ہمارے ملک کے حملہ آور ہیں اور یہ کہ ہندو ہندوستان کو اپنے مسلم ماضی سے اپنی آزادی کی منزل کا خاکہ خود تیار کرنا چاہئے۔ اس کے بعد مسلمان اور اسلام کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا اور اس میں وہ تمام چیزیں شامل کر لی گئیں جن کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک سچا ہندو ہونے کا ایک واحد پیمانہ یہ ہے کہ مسلمان کی تنقید و تنقیص کی جائے۔ تاہم، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں (ان کے ایک طبقہ) نے صدیوں تک اس زمین پر حکمرانی کی ہے اور اس طرح انہوں نے ہندوستانیوں کے ذہن و دماغ پر ایسے اثرات چھوڑے ہیں جنہیں ختم کرنا بہت مشکل ہے۔ مسلمانوں نے کچھ نئے خیالات پیش کئے لیکن یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ان میں سے اکثر نے ہندوستانی معاشرے کے اندر مروجہ تہذیبی اور ثقافتی ڈھانچے کے مطابق ہی حکومت کی ہے۔ لہٰذا، اس میں تعجب نہیں ہے کہ برہمنوں نے اپنے تسلط کو برقرار رکھا جبکہ کہ مسلم حکمرانوں کے طویل دور میں ذات پات کی بنیاد پر اسلام تقسیم کا شکار رہا۔ ثقافت سے لیکر زبان تک مسلمان ہر جگہ موجود ہیں۔ اگر ہندو جماعتیں واقعی اس ملک کی ثقافتی یادگار کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو انہیں سب سے پہلے لفظ ہندوستان کے استعمال کو بند کرنا ہوگا جو کہ اصل میں فارسی کا لفظ ہے۔
یہ سچ ہے کہ تاج محل میں کام کرنے والے مزدور ہندوستانی تھے انہوں نے ہی اس شاندار عمارت کی تعمیر کی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اورنگ زیب کی طرح اس یاد گار کو فضول خرچی شمار کیا جائے ۔ لیکن صرف اس بنیاد پر اس کی تنقید کرنا کہ اسے مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے حماقت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ تاج محل صدیوں سے محبت کی علامت رہا ہے۔ مغل دستاویز اور بعد کی تاریخ نے ہندوستانی عوام میں محبت کی اس علامت کو عام کر دیا ہے۔ ہندو اور مسلمان دونوں اسے محبت کی یادگار مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ خود ہندوؤں کی جانب سے اس پر شدید رد عمل کا اظہار ہوا جس نے یوگی کو تاج کی خدمت جاروب کشی کرنے پر مجبور کر دیا۔ اسے مروجہ اقدار کی کامیابی کہتے ہیں اور ہندو جماعتوں کے لئے یہی مشورہ ہے کہ وہ یوپی کے وزیر اعلی نے تاج پر بات کرتے ہوئے جو عہد لیا ہے اس کے خلاف قدم اٹھانے سے پہلے خوب سوچ سمجھ لیں۔
لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایسا کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کسی قوم کے ماضی کی دوبارہ تعمیر و تشکیل کوئی آسان کام نہیں ہے اور یہ کام خطرات سے بھرا ہوا بھی ہے۔ ہندو جماعتوں میں اس قوت فکر کا فقدان ہے جو دوبارہ تاریخ رقم کر سکتی ہے۔ ہیرو اور نظریاتی بنیادوں سے خالی وہ اپنے موقف کی تائید میں صرف P N Oak جیسے تیسری درجے کے ماہرین پر ہی تکیہ کر سکتے ہیں اور اپنے حق میں کچھ نوآبادیاتی ماہرین کا حوالہ بھی پیش کر سکتے ہیں۔ تاریخ کے میدان میں کوئی بھی جنہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ ہندوجماعتیں سچائی کو تبدیل کرنے کی تمام کوششیں کر سکتی ہیں: اور شاید وہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں کیونکہ سچائی اور حکومت کا رشتہ بہت قریب کا ہے۔ لیکن تاریخ تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر سچائی بدل دی جائے تب بھی تاریخ ہمیشہ ایک ہی رہتی ہےاس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ تاج محل کو تاجو مہالیہ کہنا اور اس کے ثبوت میں غیر معتبر اور مشکوک مورخین کا حوالہ پیش کرنا مسلمانوں کے ساتھ ہند جماعتوں کی بے اعتمادی کا ثبوت ہے۔ ہندوؤں نے شاندار مندروں کی تعمیر کی ہے لیکن اس پر فخر کرنے کے بجائے وہ تاج محل پر قبضہ جمانے اور اسے ایک ہند یادگار قرار دینے کے فراق میں ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ہندو ہر وقت مسلمانوں کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور یہ ان کی بے اعتمادی کی بنیاد ہے۔ مرکز میں اپنی ایک ہمدرد حکومت ہونے باوجود وہ اب بھی ایک مسلم ماضی کے ساتھ جد و جہد کر رہے ہیں؛ اور یہ کہ ہندوستان اب بھی باہر کی دنیا میں تاج کی زمین کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کہ 1200 سال کی غلامی پر اپنی ولولہ انگیز تقریر کے باوجود ان کے پسندیدہ وزیراعظم کو اب بھی لال قلعہ پر ہی پرچم کشائی کرنی ہوتی ہے جو کہ ایک مسلم یادگار ہے۔
کچھ باتیں ایسی ہیں جن سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے تاج پر آخری بات نہیں سنی ہے۔ وزیر اعلی نے جو کیا ہے وہ صرف عارضی طور پر معاون ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے تاج محل کی اصل کے بارے ان معاملات کا سد باب نہیں کیا۔ انہوں نے تھوڑی دیر کے لئے اس پر بحث و مباحثہ کو معطل کر دیا ہے۔ وہ کچھ ایسے دوسرے ایم ایل اے کے ساتھ آئے جنہوں نے اس تاثر کو مضبوط کرنے کی کوشش کی کہ دراصل تاج محل ایک شیو مندر تھا۔ ایسی باتوں کو رد کرنے کے لئے یوگی نے کچھ بھی نہیں کیا۔ ان کی خاموشی نے وقت میں تھوڑی گنجائش پیدا کر دی ہے لیکن اس سے پہلے کہ زیادہ وقت گزرے انہیں کی پارٹی کا کوئی اور ممبر پھر سے ایسی لایعنی باتیں کرنا شروع کر دیگا۔
URL: https://www.newageislam.com/islam-politics/and-taj-stands-tall/d/113096
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/and-taj-stands-tall-/d/113222
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism