ارشد عالم، نیو ایج اسلام
20 جون 2016
مسلم پرسنل لاء کو معاشرےکے مطالبات سے مزید ہم آہنگ کرناکم از کم قانونی طور پر صنفی مساوات کے قیام کا مطالبہ کرتا ہےاور یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جس کے لیے وقتاًفوقتاً آواز بلند کی گئی ہے۔
یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کہ مسلم پرسنل لا خواتین کے ساتھ امتیازیرویہ پر مشتمل ہے لہٰذا، اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے،سیاسی اور علمی شخصیتوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس طرح کی کسی بھی تبدیلی کا مطالبہ باہر سے نہیں کیا جانا چاہئے، بلکہ اس کا مطالبہ مسلم کمیونٹی کے اندر سے ہی پیدا ہونے والا ایک داخلی مطالبہ ہونا چاہئے رہا ہے۔مسلم معاشرے کے اندر مستند علماء کی ناقص قیاس آرائیوں کی وجہ سے انتہائی کمزور پرسنل لاء کی طرح جس نے متبادل سیاسی قیاس آروئیوں کو روک دیا ہے، سیاسی اور علمی شخصیتوں کی یہ اتفاق رائے بھی اتنی طاقتور تھی کہ چھ دہائیوں تک اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔یہ مسلم قانونی اور مذہبی اصلاحات کے بارے میں سوچنےکا تقریباً ایک عام طریقہ کار بن گیا۔
ماضی پر نظر ڈالنے والوں کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کی اس اتفاق رائے نے دو ممتاز لیکن باہم مربوط شعبوں کی ضروریات کو پورا کیا ہے۔ حکمراں جماعت کانگریس اور اس کی علمی اور فکری جماعت (بائیں بازو)دونوں کے لیےان کے اس اجماع نے اسلام اور مسلمانوں پر کسی بھی تنقیدی گفتگو سے بچ نکلنے کا راستہ فراہم کیا۔ بھارتیہ مسلم مہیلاآندولن (BMMA) کیہی قابلیت نے اس اتفاق رائےکی بنیاد کو ہلا دیا تھا۔پرسنل لاء کو صنفی مساوات پر مبنی انصاف کو متعارف کروانے کے لیے پہلی بار مسلم کمیونٹی کے اندر ایک منظم کوشش کی گئی ہے۔خود مسلم خواتین اس تحریک میں پیش پیش ہیں۔مسلم کمیونٹی کے اندر سے اس پرفریب آواز کی بنیاد پر مسلمانوں کے اندر مذہبی اصلاحات کے معاملے کو ملتوی کرنے اب ممکن نہ رہا کہ ہے؛ اس لیے کہ یہ آواز پہلے سے ہی موجود ہے اور مشکل سوال پیش کر رہی ہے۔بھارتیہ مسلم مہیلاآندولن نے نہ صرف یہ کہ اس اتفاق رائے کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے کہ بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مسلم مذہبی جماعتیں پرسنل لاء کے اندر تبدیلی کی کسی بھی تجویزکے کتنے سخت مزاحم ہیں۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کی تشکیل دی ہوئی مسلم مذہبی جماعت عدالت میں مختلف مسلم خواتین جماعتوں کی جانب سے مجوزہ اصلاحات کی مخالفت میں ہے۔تین ایسی اہم بنیادیں ہیں جن کی بنا پر وہ مسلم پرسنل لاء میں اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں۔اور وہ تینوں دلائل فرضی اور غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔
ان کی دلیل کی سبسے پہلی بنیاد یہ ہے کہ شریعتقانون الٰہیہ سے عبارت ہے اور اس کے اندر کسی بھیقسم کی تبدیلی کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم خدا کے اپنے قانون میں تحریف اور تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں ہے۔یہدلیل انتہائی مضحکہ خیز ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت جو کچھ بھی ہو لیکن یہ قانون الٰہیہ نہیں ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ شرعی قانون موجودہ قانونی اور اخلاقی اصول و ضوابط پر مبنی ہے اور یہ ہمیشہ اسلامی قانون کے اوپر انسانی دماغ کیکے استعمال کا نتیجہ رہی ہے۔اگر معاملہ ایسا نہیں ہوتا تو بہت سے مسلم اکثریتی ممالک کے اندر جن میں سے کچھ اسلامی ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں،شرعی قوانین میں ترمیم کرنا ناممکن ہوتا۔
دوسری دلیل کا تعلق زیادہ سیاست سے ہے: جن معاملات میں اصلاحات کی تجویز پیش کی گئی ہے ان کی مخالفت اس لیے کہ جارہی کیوں کہ اسے یونیفارم سول کوڈ کی وکالت کرنا تصور کیا جا رہا ہے۔ علماء یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آئین میں ایسے خاص دفعات ہیں جو انہیں اپنے مذہب کا اقرار کرنے اور اس پر عمل کرنے کی آزادی عطا کرتے ہیں۔ لہذا، دین کے اندر کوئی بھی تبدیلی مذہب کے ایسے معاملات میں مداخلت کے مترادف ہو گیجس پر صرف مسلم کمیونٹی کو ہی دخل اندازی کا حق ہے۔ اس دلیل کا نقص یہ ہے کہ یہ ایک جھوٹ پر مبنی ہے۔ مسلم خواتین کی تنظیم کسی یونیفارم سول کوڈ کے لیے مہم نہیں چلا رہی ہیں۔ ان کی تحریک کی جد و جہد صرف پرسنل لاء اور ملک کے اس قانون کے درمیان بے ضابطگیوں کو درست کرنے کے لئے ہے جو خواتین کو شادی اور طلاق کے معاملے میںزیادہ منصفانہ حل پیش کرتے ہیں۔یہ دلیل بھی بےبنیاد ہے کہ ریاست مذہب کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے، اس لیے کہ تاریخی طور پر ریاست صحت اور امن و امان کی بحالی کے نام پر ایسا کرتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ ریاست کو بھاری غیر منصفانہ ہندو پرسنل لاء کی اصلاح کرنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں پیش آیا۔کیا اب بھی مسلم پرسنل لاء یہی دلیل دے گا کہ ریاست کا ایسا کرنا غلط تھا اور یہ کہ ہندو عورتوں کو ظلم و جبر پر مبنی اسی پدرانہ قوانین کے تحت زندگی گزارنا چاہیے تھا جس میں ان کے لیے کوئی سکون نہیں تھا؟ ریاست کی مداخلت کے بارے میں گفتگو کرنا بھی ایک سطحی اور بے بنیاد بات ہے اس لیے کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم خواتین خود تبدیل مطالبہ کر رہی ہیں اور اس مرتبہ اس کی شروعات ریاست نہیںکر رہی ہے۔
تیسرا اعتراض پیش تو نہیں کیا گیا ہے لیکن یہ مختلف ٹیلی ویژنپر بحث و مباحثے سے بہت واضح ہے۔انصاف کی بات یہ ہے کہ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایک ہی نشست میں تین طلاق دینا طلاق دینے کا بہترین طریقہ نہیں ہے۔ تاہم، یہ بات میرے لئے واضح معلوم ہوتی ہے کہ ریاست کا اس عمل کو ختم کرنے سے انہیں پریشانی ہے۔ان علماء کی نظر میں خود عدالتیں اسلامی قوانین سے واقف نہیں ہیں،لیکن انہیں سب سے برا خوف اس بات کا معلوم ہوتاہے کہ ایک مکمل طور پر اسلامی مسئلہ پر فیصلے میں غیر مسلم بھی موجود ہوں گے۔جب مسلم مذہبی تنظیموں کی بات آتی ہے تو پھر یہ سب سے زیادہ نقصان دہ علیحدگی پسندی ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے۔یہایک دیگر مثال ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلم علماء کو ابھی تک یہ طے کرنا باقی ہی ہے کہ ایک سیکولرساخت کے تحت کس طرح اسلامی موقف پر گفتگو کی جائے۔یہ تصور رکھنا بے بنیاد ہے کہ اگر ریاست سیکولر ہے تو یہ ہمیشہ اپنا ہی موقف ثابت کرے گی۔
دلائل کی بنیادمذہبی مسائل پر رکھنے سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔اگر مسلم علماء کا مؤقف یہ ہے کہ پرسنل لا ایک مذہبی معاملہ ہے اور ہندوستان کی کوئی بھی عدالت مذہب کے معاملات میں قانون سازی نہیں کر سکتی ہے تو مجھے رام مندر پروپیگنڈے کی یادآتی ہے جس میں ہندومت کے نجات دہندگان نے مسجد کو مسمار کرنےکے لیے یہی نعرہ بلند کیا تھا۔مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اس موازنہ کوپسند نہیں کرے گا، لیکن خود ساختہ مسلم ڈھانچے اور ہندوتوا کے حامیوں کے درمیان کچھ بھی منتخب کرنابہت مشکل ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/reforming-muslim-personal-law-all/d/107707
URL: https://newageislam.com/urdu-section/aimplb-its-bogus-arguments-??/d/108257
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism