ارشد عالم، نیو ایج اسلام
20جولائی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
کسی بھی نام میں کیا رکھا ہے؟ شاید بہت کچھ، اگر ہم اس پر غور کریں۔ چند سال پہلے، ملیشیا میں کچھ مسلمانوں نے عیسائیوں کے ذریعہ خدا کے لئے اللہ کے نام کا استعمال کرنے پر اعتراض کیا تھا۔
یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ان لوگوں کے پاس اللہ کے نام کا استعمال کرنے کا کاپی رائٹ ہو۔ ان مسلمانوں کی دلیل تھی کی چونکہ اللہ
ان کے خدا کا نام ہے اس لئے صرف وہ (مسلمان) ہی اس لفظ کا استعمال کر سکتے ہیں۔
اللہ کے نام کے استعمال پر تنازعہ ملیشیا کے مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے اس طرح کے تنازعہ ہندوستان سمیت دوسری جگہوں پر بھی موجود ہیں۔ صرف مسلمانوں ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ لفظ اللہ صرف ان سے تعلق رکھے گا یا عالمی طور پر
دیگر مذہبی روایات کے لئے بھی دستیاب
ہوگا۔ اسلامی علماء کرام نے اللہ کو ہمیشہ تمام انسانیت کے خدا اور اسلام کو
ایک عالم گیر مذہب کے طور پر پیش کیا ہے۔
ملیشیا میں اس تنازعہ کے بعد یہ یقیناً ناقابل یقین لگنا شروع ہو گیا ہے۔
لیکن ایسا کیوں ہے کہ مسلمانوں کے ایک جماعت نے
ایک عالم گیر خدا کو مسلمانوں کےخدا تک محدود کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟
کیا یہ ان کے اپنےوجود کے بارے میں
کچھ کہتا ہے، کہ وہ کس قسم کے مسلمان ہیں اور کس طرح کے مسلمان وہ بننا چاہتے ہیں؟
بہار میں میرے آبائی شہر کے
سفر کے دوران میں خود کوغور کرنے سے نہیں روک سکا کہ میرے زیادہ تر
دوست بہت زیادہ روایتی 'خدا حافظ' کی جگہ
'اللہ حافظ' کا استعمال کر رہے تھے۔ اصطلاحات کی اس تبدیلی کی وجہ تلاش کرنے کے تجسس
میں مجھے بتایا گیا کہ مسلمانوں کے خدا کا نام اللہ ہے اس لئے مسلمانوںکے لےٗ صرف اس کا نام استعمال کرنا مناسب
ہے۔
لفظ خدا کو اس لئے الگ کر
دیا گیا کیونکہ دیگر مذہبی روایات سے تعلق
رکھنے والے افراد بھی اس لفظ کو استعمال کرنے
کے لئے جانے جاتے تھے۔
یہ وہی بے چینی، وہی خوف ہے
جس نے ملیشیائی مسلمانوں کو گھیرا ہے۔ یہ
ان کے مذہبی تشخص کی بے چینی ہے۔ ایک ایسی
بے چینی جو آپ کس طرح کے مسلمان ہیں ، خود سے
پوچھنے پرپیدا ہوتی ہے۔ اپنے مذہبی
وجود کے بارے میں اس زوردار سوال کی گونج صرف ملیشیا یا ہندوستانی مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ
یہ اسلامی دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کی
بھی خصوصیت ہے۔
اس طرح مشرق وسطی کے اسلامی
مرکز یا اس حد کے باہر رہنے والے علاقے کے مسلمان بھی اپنی مذہبی شناخت کو لے کر پریشان ہو رہے ہیں۔ مہابھارت کا پاٹھ کرنے والے انڈونیشیا کے مسلمان اب افسانہ بننے کے دور میں ہیں؛ وسطی ایشیائی ملکوں اور پاکستان میں بین المزاہب مقام کے طور پر
جانے جانے والےمزار حملے کی زد میں ہیں اور برقع کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور
مسلم خواتین کے سروں پر سندور کی عدم موجودگی
کو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
اس طرح ان علاقوں میں مسلمانوں
کو زبردست تشریحی دباؤ سے ہوکر گزرنا پڑ رہا ہے اور مسلمان ہونے کا مطلب کیا ہے کی دوبارہ
تشریح کی جا رہی ہے۔
اس دوبارہ تشریح کا ایک حصہ
ان حدوں کی تخلیق ہے جو انہیں واضح طور پر دوسروں سے الگ کرتی ہے۔
دیوبند جیسے اصلاح پسند تنظیموں کی مدد سے
وہ اپنے ثقافتی مقامات اور مخصوص تاریخ
کو ترک کرنے کے درپے ہیں۔ اس عمل میں وہ خود اپنی روایت اور ثقافتی ورثے کے بارے میں منفی
رخ اختیا کر رہے ہیں؛ جسے وہ اپنے اسلامی وجود پر آلودگی پھیلانے والے اثر کے طور پر دیکھتے ہیں۔
خالص' ہونے کی یہ تلاش انہیں ان عربوں کی طرف لے جاتی ہے جو خود کو بے آمیزش اسلامی وجود والا مانتے ہیں۔ اسلام کا
مرکز اپنی تمام فراخ دلی کے ساتھ
تیل سے حاصل ہونے والی دولت کو مساجد اور مدارس میں مالی مدد کے لئے استعمال کر رہا ہے، جواس مرکز کے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کو سکھائے گا کہ 'اصل ' اسلام کیا ہے۔ یہاں کیا پڑھایا جاتا ہے،
وہ غیر اہم ہے لیکن طالب علموں کے ذہنوں میں جو منظر نقش ہوں گے وہ ان کے اپنے ماحول سے بہت مختلف ہیں۔ انہیں وہ کہانیاں سنائی جائیں گی جن کا ان کے آس پاس کے ماحول اور جن کی جڑیں
ان کے اپنے ثقافتی روایت میں نہیں ہیں۔
جنوبی ایشیائی کلاسیکی موسیقی میں
مسلمانوں کے تعاون کے بارے میں علم نہ ہونے کے با وجود یہ پڑھانا کہ
اسلام میں موسیقی جائز نہیں ہے، ایک مسلمان کو اس کے اپنے تاریخی وجود کی جڑوں سے علیحدہ کرنے کے
مترادف ہے۔ انڈونیشیا کے گھنے جنگلات میں بیٹھ کر عرب کے ریگستان کے بارے میں جاننا علامتی تشدد ہے۔ یہ تشدد ایک فرد کو اس کے اپنے سماجی ماحول سے بیگانہ بناتا ہے۔ ان مسلمانوں سے کوئی کیا امید کر سکتا ہے جو خود تشدد کی پیدا وار ہوں؟
یہ بدقسمتی لیکن حقیقت ہے
کہ بڑی تعداد میں مسلمان اپنی ثقافتی بنیادوں سے علیحدہ ہو رہے ہیں۔ یہ لاتعلقی اور عربوں کی اسلامی روایت کے ساتھ خود کو جوڑنے سے مسلمانوں کو
انتہائی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اور خاص طور پر ان لوگوں کو جو ہندوستان جیسے کثیر الثقافتی
معاشروں میں رہ رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ ان
لوگوں کو اپنے آس پاس اور پڑوس سے بیگانہ بنائے گا اور ان لوگوں کو دیگر طبقات کے بارے میں منفی اور
دقیانوسی تصورات پیدا کرنے کی طرف لے جائے گا۔
یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف دوسروں کے ساتھ رہنے کی اپنی
تاریخی خصوصیات کے بارے میں جانیں بلکہ اس کی تعریف بھی کریں اور دیگر لوگوں کی سماجی زندگی میں بھی شرکت کریں۔ عرب سامراجیت کے عمل کو روکا جانا بہت ضروری ہے، نہ صرف اس لئے کہ یہ سیاسی
اعتبار سے ضروری ہے بلکہ عام حقیقت ہے کہ، کوئی بھی طبقہ بغیر اپنی جڑوں کے صحت مند زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ اس لئے
مخصوص تناظر والے علم دین کی اس وقت
ضرورت ہے ، جس کی پوری طرح کمی ہے۔
تاریخ اور ثقافت میں کسی خاص طبقے کے
مقام کو تلاش کر نے اورثقافتی بیداری کو پھیلانے میں تعلیم یافتہ
متوسط طبقے کا اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے اپنے متوسط طبقے نے اس رول کو پوری طرح در کنار کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے یہی لوگ ٹیلی ویژن پر نظر آنے والے ذاکر نائیک کے جیسے تیسرے درجے کی تقریر کرنے والے اور مختلف معلوماتی نیٹ ورک کے ذریعے عرب سامراجیت کی
بہنے والی ہوائوں کی زد میں رہے ہیں۔
ارشد عالم ایک مصنف اور مضمون
نگار ہیں، فی الحال جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے منسلک ہیں۔ وہ
نیو ایج اسلام کے لئے کبھی کبھی کالم لکھتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/by-arshad-alam-for-new-age-islam/allah-hafiz-and-loss-of-muslim-self/d/7991
URL
for Hindi article: http://www.newageislam.com/hindi-section/allah-hafiz-and-loss-of-muslim-self--अल्लाह-हाफ़िज़-और-मुसलमानों-का-खुद-का-नुक्सान/d/8096
URL: