ارشد عالم نیو ایج اسلام کے
لئے
2جنوری 2013
( انگریزی سے ترجمہ ۔ مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
ایک مسلم کو حال ہی میں ٹرائل کورٹ کے ذریعہ ملامت کرتے ہوئے سنائے گئے
فیصلے اور تعدد ازدواج پر ایک مولوی کو دی گئی سزا کا ہر ایک کے ذریعہ خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔عدالت نے بجا طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ اسلام میں تعدد ازدواج ایک ہی وقت میں چار بیویوں کو رکھنے
کی سند نہیں ہے بلکہ اسے ایک ایسا قانون سمجھا جا نا چاہئے جس کا اجرا ء، غیر معمولی
حالات میں مثلاً مجبور و لاچار عورت کی فلاح و بہبود کے کے لئے کیا جا تا ہے ۔ تاریخی تناظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں مردوں
کے لئے عورت رکھنے کی تعداد کی کوئی حد نہیں تھی
۔ چار عورتوں سے شادی کرنے کی ممانعت
کو تعدد ازدواج کے لئے جواز اور سند سمجھنے کے بجائے اسے بجا طور پر ممانعت سمجھنا چاہئے ۔مزید برآں ، قرآن خود
اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اگر مرد
کو اس بات کا یقین ہو کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے گا ، تبھی
اسے ایک سے زیادہ شادی کرنی چاہئے ،بصورت دیگر ایک ہی بیوی رکھنا اس کے لئے بہتر ہے ۔
واضح طور پر ، وہ جس قرآنی
اور اسلامی ضابطہ حیات کی بات کرتے ہیں وہ تاریخی اعتبار سے اتفاقیہ تھا اور اس زمانے کے ساتھ مخصوص تھا ۔ بہر کیف ، قرآن میں کچھ ایسے بنیادی اقدار ہیں جس پر مسلمان عمل کرتے ہیں
اور انہیں ابدی سمجھا جانا چاہئے ۔ان
پیغامات میں سے ایک ، ہمارے معاشرے میں عورتوں کو عزت و احترام اور انہیں با وقار مقام عطا کرنے کے با رے میں ہے ۔تمام مذہبی
روایات میں عورتوں کو جائداد میں حصہ متعین کرنے والا اسلام ہی پہلا مذہب تھا ۔ایک ایسا انقلابی
قانون جسے اس وقت سمجھنا بھی دشوار تھا جب
اس کا نفاذ کیا گیا ۔ اسی طرح نکاح نامہ کے ذریعہ
مسلم عورتوں کو وہ حقوق دئے گئے ہیں جن کے بارے میں دوسرے مذہبی روایات کی عورتیں سوچ بھی نہیں سکتیں ۔مغربی عورتوں کو جائداد کے حقوق اور عوامی جگہ پر اپنا مالکانہ حق کا دعویٰ کے حق
کے لئے سینکڑوں برس جد و جہد کرنی پڑی ۔
جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں
کہ قرآن ہر زمانے کے لئے برحق ہے وہ اسلام کو وقت کی بندش میں منجمد کر دیتے ہیں ، اور مقدس مذہبی کتاب کی روح کو نہیں سمجھتے ۔ جیسا
کہ اوپر بیان کیا گیا ، کہ قرآن میں کچھ خاص چیزیں ہیں جنہیں ہی صرف ابدی سمجھا جاتا
ہے ۔ تفصیلات ہمیشہ تاریخی اعتبار سے مخصوص رہی
ہیں ۔ چنانچہ جن آیات میں تعدد ازدواج کی اجازت دی گئی ہے انہیں ایک خاص سیاق
و سباق میں پڑھا جاناچاہئے ، تاکہ یہ نتیجہ
حاصل ہو کہ قرآن تاریخ کےایک خاص زمانے میں جنسی ضابطہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے
۔ بہر کیف اس اجازت کے پیچھے روح ابدی
نہیں ہے اس کی روح اس بات کا ادراک ہے کہ عورت
اپنی پسند اور نا پسند کے ساتھ اپنے حق میں
منفرد ہے ۔ اگر قرآن کا بنیادی پیغام انصاف ہے تو یہ کو ئی نہیں سمجھ سکتا کہ اس قسم
کے تعدد ازدواج کا قانون کا جواز کیوں کر ہو سکتا ہے جو اخلاقی طور پر عورتوں کے لئے غیر منصفانہ ہے ۔اسی لئے تعدد ازدواج
کے نظریہ کو اسلام کا ایک سطحی پہلو سمجھنا چاہئے ، جس کی حیثیت یہ ہے کہ اس کی اجازت
صرف خاص مواقع پر ہی ہونی چاہئے ۔اور وہ حالات جنگ ، مصیبت کی وجہ سے ہجرت ،قدرتی آفت
اور وہ تمام عوامل ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں قرآن بات کر رہا ہے ۔ عام حا لات میں
تعدد ازدواج کی اجازت دینا قرآن کی روح کے خلاف ہے ۔
میں یہاں اسی سے متعلق ایک مسئلہ اٹھانا چاہوں گا ، نزول قرآن
کے زمانے میں اسلامی ریاست ایک ابھرتی ہو ئی ریاست تھی ۔اسلام کو طاقت و قوت کی فراہمی
ایک نیک معاشرے سے ہوئی جس کی بنیاد بھائی چارگی اور پارسائی پر رکھی گئی تھی اور جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی عورتوں کی مفلسی اور غریبی وغیرہ
، جیسے اہم پہلؤں پر غور کرنا ایک نوخیز ریاست کے لئے ممکن نہیں تھا ۔ان حالات میں اس بات کا تقاضا با
معنی تھا کہ سوسائٹی سے ایک ایسا اصول حیات
مرتب کرنے کو کہا جائے جو غیر
محفوظ عورتوں کی حفاظت کر سکے ۔ ایسے حالات میں تعدد ازدواج اس کا سب سے آسان جواب
تھا ، اس لئے کہ جنسی محرک کے علاوہ اس نے بے شمار عورتوں کو جذباتی اور اقتصادی طور
پر غذا فراہم کیا ۔، بہر کیف اس زمانے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے : آج جب کہ ریاست مضبوط
ہے اور وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کر سکتی ہے
اور وہ اس کے لئے پابند عہد بھی ہے ، لہذا
آج تعدد ازدواج کا کیا جواز ہے ؟ فلاح و بہبود کی جدید ریاستوں کی تعمیر اس مفروضہ پر ہوئی ہے
کہ وہ اپنے شہریوں کے کمزور طبقہ
کا خیال خاص طور پر رکھیں گی اور ہندوستان
جیسے جدید ریاست کی ان عورتوں کی طرف توجہ فطری طور پر حتیٰ الامکان ہونی
چاہئے ۔ یہی وہ غور و فکر تھی جس کی وجہ سے ترکی اور تیونس جیسے مسلم معاشرے میں تعدد ازدواج کو غیر
قانونی قرار دے دیا گیا ، اور یہ انڈونیشیا جیسے ممالک میں سخت ممنوع ہے
۔ اگر یہ معاشرے قرآنی ہدایات کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھ سکتے ہیں تو ہندوستانی
مسلمانوں کو ایسا کرنے سے کس چیز نے روکا
ہے ؟ اب علماء کے لئے وہ وقت آچکا ہے کہ وہ اس موضوع پر بات چیت کریں
اوریہ فیصلہ صادر کریں کہ اب تعدد ازدواج ضروری نہیں رہا ،اس لئے کہ وہ ایک ایسی چیز تھی جس کا وقت بہت پہلے
ہی جا چکا ،ایک ایسا دستور ہے جسکی افادیت اب باقی نہیں رہی ۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم تعدد ازدواج کو مسترد
کر دیں اور اپنے درمیان سے اسے باہر
نکالیں ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ حقیقی طور پر پائی جانے والی سچائی میں اس کا بڑا
اثر ہو گا اس لئے کہ مسلمانوں کی اکثریت تعدد ازدوج کی قائل نہیں ہے ۔ در اصل تعدد
ازدواج کے اقتصادی خسارہ کا مطلب یہ ہے کہ
ہندوستانی مسلمان دوسری بیوی کا خطرہ کم ہی مول لینا چاہیں گے ، بہر کیف تنسیخ کے فیصلے
سے ایک بڑا مقصد یہ حاصل ہو گا : کہ مسلمان
اب وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کو تیار
ہیں ۔
----------------
ارشد عالم مسلم اقلیتی مسائل
پر کالم نگار ہیں اور وہ جواہر لعل نہرو یونیور سٹی دہلی ،میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں
URL
for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/time-abolish-polygamy/d/9853
URL
for this article: https://newageislam.com/urdu-section/time-abolish-polygamy-/d/9885