عارف عزیز
29 مئی، 2013
ہم تاریخ کےاوراق پلٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگاکہ ہر دورمیں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین کے عزم و حوصلے اور طاقت و بہادری کےناقابل فراموش کام انجام دیئے ہیں۔ رضیہ سلطان ، چاند بی بی ، مہارانی لکشمی بائی ،بیگم حضرت محل ، اہلیہ بائی، رانی درگا وتی ،نواب شاہ جہاں بیگم اور سلطان جہاں بیگم وغیرہ تو اس کی بڑی مثالیں ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی ایسی کتنی ہی خواتین ہیں جنہو ں نے ناموافق حالات کے باوجود تاریخ پر اپنے نقوش ثبت کئے ہیں۔
آزادی کےبعد کی جمہوری آب و ہوا میں ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ خواتین کا ہندوستانی معاشرہ میں کردار اور مستحکم ہوتا، اُنہیں سیاسی و سماجی میدانوں میں آگے بڑھنے کے مواقع ملتے لیکن جمہوری نظام کے قیام سے آج تک عملی سیاست اور سماجی خدمت کے شعبوں میں خواتین کی شرکت کافی محدود رہی ہے۔ سروجنی نائیڈو اور ہیرا بائی ایسی اول خواتین ہیں جن کو کافی کوشش کےبعد الیکشن لڑنے کے لئے راضی کیا گیا چنانچہ سروجنی نائیڈو ملک کی پہلی خاتون گورنر بنیں اور جواہر لال نہرو کی بہن وجےلکشمی پنڈت ہندوستان کی پہلی سفیر کے عہدہ پر فائز ہوئیں ۔ بعد کے عرصہ میں جو الیکشن ہوتے رہے اُن میں خواتین امیدوار وں کی تعداد الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مرتب اعداد و شمار کے مطابق درج ذیل رہی ۔
ہندوستان کی پہلی پارلیمنٹ کے الیکشن میں 51 خاتون امیدوار ں نےحصہ لیا ، 1957 میں 70 خاتون امیدواروں میں 27 الیکشن میں کامیاب ہوئیں ، 1862 میں 65 اور 1947 میں 44 خواتین الیکشن میں کھڑی ہوئیں جن میں سے علی الترتیب 33 اور 38 کامیاب ہوئیں ، 1971 کی پارلیمنٹ کیلئے خاتون امیدوار وں کی تعداد تو 86 تھی لیکن کامیاب صرف 21 ہوئیں ، 1977 میں 70 خواتین الیکشن لڑیں جن میں کامیابی 19 کو ملی ، 1982 میں جنرل الیکشن میں 142 خواتین میدان میں تھیں جن میں سے 28 منتخب ہوئیں ، 1984 میں 161 میں 42 منتخب ہوکر لوک سبھامیں پہنچیں جب کہ 1989 میں 198 خواتین نے قسمت آزمائی اور صرف 25 کو سرخروئی نصیب ہوئی ۔ 1991 میں 325 خاتون امیدواروں میں 35 ہی منتحب ہوسکیں بعد کے تین پارلیمانی الیکشن میں بھی کم و بیش یہی صورت حال رہی تاہم آزادی کے 66 برس کے دوران اندرا گاندھی ، سچیتا کرپلانی ، جےللتا ، ممتا بنرجی، مایا وتی ، اوما بھارتی اور پرتبھا پاٹل جیسی خواتین نے سیاست کو زینہ بنا کر عروج کی منزلیں طے کیں۔
مذکورہ خواتین کے نام پر ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ عملی سیاست میں بحیثیت مجموعی خواتین کی شرکت میں بتدریج اضافہ ہوا تا ہم یہ خاطر خواہ نہ رہا، اس کی وجہ پرُانے نظریات پر مشتمل ہمارا معاشرتی نظام ہے جس میں سیاست کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اُس میں شریف گھرانے کی عورتوں کا داخلہ تو نا پسندیدہ عمل ہی شمار ہوتا ہے ۔ حالانکہ آج کے روز افزوں ترقی کے دور سے یہ نظر یہ میل نہیں کھاتا ،خاص طور پر اس لئے بھی کہ جس طرح کوئی پرندہ ایک پر سے پرواز نہیں کرسکتا ،اسی طرح کوئی بھی معاشرہ عورت کو نظر انداز کر کے ترقی کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکتا ،کیونکہ عورت معاشرہ کے پرندے کا دوسرا پر ہے، جب تک عورت کو ترقی کے ہمہ جہتی مواقع میسر نہیں آئیں گے یا اُسے سماجی سر گرمیوں میں مساوی حصہ نہیں ملے گا، ہمارا معاشرہ مثالی نہیں بن سکتا ۔ اگر ملک کو واقعی ترقی کرنا ہے تو خواتین کی ملک میں 48 فیصد آبادی کو اُس کا جائز حصہ دینا ہوگا، اس میں خود اعتمادی ،خود کفالتی اور خود انحصاری کا احساس جگانا ہوگا، خود اعتمادی کی یہ ضرورت وقت کے ساتھ اس لئے بھی بڑھ رہی ہے کہ آج خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرتی نظر آتی ہیں، اگر اُن میں خود اعتمادی نہیں ہوگی تو نہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرسکیں گی، نہ حوصلہ و ہمت سے پیش رفت ہی کرپائیں گی ، یہ خود اعتمادی اپنے آپ پر اور اپنی صلاحیتوں پر یقین کر کے کوشش و محنت کرنے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
آج کی خواتین کا دائرہ عمل اُن کے گھر کی چہار دیواری ہو یا کھُلی پڑی دنیا کی بسیط فضا، دونوں ہی میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کے لئے خود اعتمادی کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔ اور اُسے محنت، لگن ، قابلیت سے جلا ملتی ہے۔ آج کی ہنگامی زندگی کا ہر دن غیر متوقع سانحوں سے دو چار ہوتا ہے، گھر ہو یا باہر حادثات ہونے میں دیر نہیں لگتی ، نہ کوئی واقعہ پہلے سے آگاہ کر کے آتا ہے ،بار ہا خواتین کو تن تنہا اُن کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ جس میں سب سے زیادہ اُن کی خود اعتمادی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ عام طور پر شہر میں رہنے والی عورتیں پڑھی لکھی ہوتی ہیں، کام کرتے کرتے اُنہیں تجربہ بھی حاصل ہوجاتا ہے ،ایسی عورتوں کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہونا فطری ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کا نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی استعمال کریں، ایسی خواتین کی تعداد بھی اب معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہے جو گھر یلو زندگی کے ساتھ ملازمت بھی کررہی ہیں، اس طرح ان کی ذمہ داری دوہری اور تہری ہوجاتی ہے، ملازمت کے پیشہ میں اجنبی و نامانوس ماحول میں اپنے افسر وں ، ساتھیوں یا ماتحتوں کے ساتھ کام کرنا، دوسرے اپنے گھر ، شوہر، بچوں اورعزیزوں سے متعلق ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دینا پڑتا ہے، ایسی خواتین کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے لیکن خوشگوار زندگی ان ہی خواتین کو میسر آتی ہے جو خود اعتماد ی کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں۔
خواتین میں خود اعتمادی کے حصول کا انحصار بہت کچھ اُن کے خاندانی پس منظر اور گھریلو تربیت پر بھی ہوتا ہے ۔ جہاں تک تعلیم کا سوا ل ہے تو وہ انہیں پیش آئند مسائل کو حل کرنے کا سلیقہ عطا کرتی ہے اور حالات سے مقابلہ کرنے کی برداشت بھی بڑھا دیتی ہے لیکن خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر کا حوصلہ خود بڑھائیں ، ایسی خواتین اپنے ساتھ اپنےشوہروں اور بچوں کو بھی خود اعتماد بنانے میں مدد گار بن جاتی ہیں اور گھر و باہر کی ذمہ داریاں بخوبی نبھا کر دوسروں کے لئے مثال ثابت ہوتی ہیں اور ایسے نشان چھوڑ جاتی ہیں جو آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتے ہیں۔
29 مئی، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/self-confidence-necessary-today’s-women/d/12110