New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 11:35 AM

Urdu Section ( 24 Jun 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Dilemma before the White Neo-Muslims تیرا کیا بنے گا کالیا؟

 

عارف انیس ملک

24 جون، 2013

جب کئی ماہ قبل ریڈ کراس کے کارکن خلیل ڈیلے کی لاش کوئٹہ کے ایک مرغزار سے برآمد ہوئی تو ان کے پرانے ساتھی بے اختیار پکار اٹھے ‘‘ خلیل اپنی منزل پر پہنچ گئے۔’’

لندن میں نو مسلم عبد الحکیم (پرانا نام ٹم ونٹر) نے پرانے دنوں اور خلیل مرحوم کے ولولے کو یاد کیا۔ انہوں نے اس دن کا ذکر کیا جب افغانستان میں ان کا ڈرائیور گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔ صومالیہ میں قیام کے دوران جھیلی گئی مصیبتوں کو بیان کیا پھر وہ پاکستان کے سب سے لرزا دینے والے صوبے بلوچستان میں جا پہنچے جہاں آج کل جاتے ہوئے پاکستانیوں کا پِتہ بھی پانی ہوجاتا ہے، بالآخر وہ طالبان کے ہاتھوں اپنی جان ہار گئے، اسلام قبول کرنے والا ایک نو مسلم، مسلمانوں کی خدمت کے جوش میں ہزاروں میل سفر کرنے کے بعد مسلمانوں کا ہی نشانہ بن گیا۔

تاہم برطانیہ سمیت یورپ کے بہت سے ملکوں میں بہت سے تجزیہ نگار ایک چیز پر مبہوت ہیں ‘‘ آخر وہ کون سی چیز ہے جو اسلام کی بین الاقوامی میڈیا پر منفی تشہیر (اسلامی فوبیا)، شدت پسند مسلمانوں کی قابلِ گرفت روایت اور مسلمانوں کے خلاف معمولی فضا کے با وجود یورپین کیوں جوق در جوق اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں؟’’

پچھلے ہفتے ٹوٹنگ کے اسلامی سینٹر میں لارین بوتھ کا خطاب سننے کے لیے گیا تو ٹونی بلیئر کی نو مسلم سالی کو سننے کے لیے بھرپور کشادہ ہال بھی کم پڑگیا۔ ان کی یہ بات کافی انکشاف انگیز تھی کہ برطانیہ میں نو مسلموں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نو مسلموں کی کثیر تعداد (70 فیصد) گوری خواتین پر مشتمل تھی جن میں عمومی عمر 27 سال کے لگ بھگ پائی گئی تھی۔

میں نے ان کی زبان سے یہ کلمات سننے کے بعد حاضرین کے چہروں پر انار پھوٹتے دیکھے اور کئی افراد نے بے ساختہ نعرہء تکبیر بلند کر دیا تھا۔

‘‘ یہی چیز تو مجھے رلاتی ہے۔’’ عمران خان کی سابقہ دوست، ایم ٹی وی کی معروف مہمان اور ‘‘ ایم ٹی وی ٹو مکہ’’ کی مشہور مصنفہ کرسٹین بیکر نے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے مجھے بتایا تھا ‘‘ایک گوری عورت خاص طور پر وہ پڑھی لکھی اور کامیاب ہو تو وہ تمام مسلمانوں کے لیے ایک ‘‘ ٹرافی’’ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ کرسٹل کی ٹرافی جس کو ہر کوئی ہاتھ میں اٹھائے اس کے ساتھ تصویر بنانا چاہتا ہے لیکن اس سے زیادہ وہ کسی کام کی نہیں۔ اس میں تو پانی بھی نہیں پیا جاسکتا۔’’

‘‘ کام کی؟..... میں نے استفہامیہ نظروں سے کرسٹین کی طرف دیکھا تھا۔’’

‘‘ ہاں....... کام کی۔’’ کرسٹین نے جنگجوانہ انداز میں جواب دیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ سپینش، جرمن، فرنچ اور انگریزی بولنے والی پڑھی لکھی لڑکیاں جب مسلمان ہوتی ہیں تو ان کو پتہ چلتا ہے کہ اب انہیں کسی مسلک میں بھی داخل ہونا ہوگا۔ جب وہ اسلام کی پریکٹس کے لیے رہنمائی چاہتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو تو اردو، بنگلہ دیشی یا ہندی آتی ہے۔ اچھا رشتہ اس لیے نہیں ملتا کہ پڑھی لکھی اور اونچی خودی کی مالکہ گوری کو قابو کرنے کے ڈر سے اکثر لوگ بدک جاتے ہیں۔ بہت کم گھر کی کھونٹی سے بندھنے کو ترجیح دیں گی۔ انہیں دبانا بھی قدرے مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہیں۔’’

‘‘ تو پھر ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟’’ میں نے پریشان ہوکر پوچھا۔

‘‘ اچھا، قبولِ اسلام کے ہنی مون پیریڈ کے بعد حقائق کی تلخی گلے سے نیچے اتارنے لگ جاتے ہیں۔ اکثر نو مسلم لڑکیاں فرسٹریشن اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ سوشل لائف نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ میں کافی لڑکیوں کو جانتی ہوں جو اس دباؤ کے سامنے ہار گئیں اور واپس اپنی گزشتہ زندگی کی طرف پلٹ گئیں تاہم یہ تعداد پرسنٹیج کے حساب سے بہت کم ہے۔ ’’نو مسلموں کے حوالے سے بچپن سے سجا اونچے کرناس پر پڑی ہوئی مورتی چھن سے نیچے گری اور ٹکڑوں میں بٹ گئی۔

بعد میں کیمبرج یونیورسٹی میں نو مسلموں پر کی گئی ایک تحقیق میں شامل ہوا تو معلوم ہوا کہ مسائل اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اسلام فطرتاً یورپیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے، وہ انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے اپنے اندر کی آواز کے تعاقب میں سچائی کو ڈھونڈتے اسلام تک آ پہنچتے ہیں تاہم قبولِ اسلام کے بعد اصل چیلنج درپیش ہوتا ہے۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کے علاوہ ثقافتی اثرات عمومی معاشرت کو بھرپور طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔ انہیں وہ مسلمان ملتے ہیں جو جھوٹ بولتے، بدکاری کرتے، منافقت کو ترویج دیتے نظر آتے ہیں۔ پھر فرقہ واریت کی بھول بھلیاں انہیں الجھاتی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا کہ نسلی مسلمان ان کے لیے تالیاں تو بجاتے ہیں لیکن انہیں اپنی زندگی میں شامل نہیں کرتے، اس لیے بہت سی نو مسلم خواتین اکیلی اور مشکل زندگی سے نبرد آزما ہو رہی تھیں۔

کچھ ایسا ہی ماجرا اس وقت پیش آیا جب آکسفورڈ کی پڑھی لکھی اور لندن کے میئر بورس جانسن سے شادی کے بعد طلاق لینے والی الیگرا نے خود سے آدھی عمر کے ایک لاہوری نوجوان سے شادی کی کیونکہ اس کے خیال میں یہی ممکن تھا۔

بہت سی سویڈش، فرنچ اور گوری نو مسلم خواتین سے انٹرویو کرتے ہوئے بہت سی نئی چیزیں سامنے آئیں۔ ایک تو ابھرتا ہوا ٹرینڈ، جس میں بیشتر نو مسلم اپنا پرانا نام تبدیل نہیں کرتے تھے۔ اس کی عمومی وجہ 9/11 کے بعد مغرب میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتا ہوا تعصب ہے۔ ایک اور بات سرگوشیوں میں کہی گئی اور وہ یہ کہ مؤثر جگہوں، پارلیمنٹ، میڈیا، اکیڈمک، اکانومی، سیاست اور دیگر سرخیل لوگ مسلمان ہوچکے ہیں پر سامنے آنے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایران اور سعودی عرب نو مسلمانوں پر ‘‘ انویسٹمنٹ’’ کرنے والے دو بڑے ممالک تھے اور وجہ زیادہ سے زیادہ ‘‘ ٹرافیوں’’ کا حصول تھا۔

ایک کافی حیرت انگیز خبر شدت پسند تنظیموں میں مسلمان عورتوں یا مردوں کی حمایت کے لیے بہت ‘‘ کمپی ٹیشن’’ تھا جس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ ‘‘ایک گورا نو مسلم جب جہاد کے لیے بندوق اٹھاتا ہے تو اس کے پیچھے ایک ہزار ‘‘ کاٹھے’’ مسلمان مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔’’

مجھے بہت سالوں پہلے اشفاق احمد مرحوم کے ڈرائنگ روم میں سنی وہ بات یاد آئی جب میں نے ان کی بیماری کے با وجود ان کا چار گھنٹے طویل انٹرویو کیا تھا اور بانو آپا دھمکی آمیز انداز میں بار بار ڈرائنگ روم کے چکر کاٹتی تھیں۔

اشفاق احمد مرحوم نے کہا تھا ‘‘ اسلام کی نشاۃ ثانیہ اگر ہوگی تو ان یورپی اور امریکی گوروں سے ہوگی جو مسلمان ہوں گے تو میری اور آپ کی طرح منافق نہ ہوں گے، جھوٹ نہ بولیں گے، دھوکا نہ دیں گے، یوں مسلمان تو ہوں گے پر ذرا ‘‘ وکھرے ٹائپ’’ کے مسلمان ہوں گے۔ یہی لوگ اس امت کو آگے لے کر جائیں گے۔’’

آج کل جب میں لندن میں قبولِ اسلام کے حوالے سے کوئی بڑی خبر سنتا ہوں تو دل ہی دل میں بڑبڑاتا ہوں ‘‘  تیرا کیا بنے گا کالیا؟’’

24 جون، 2013  بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس، ملتان 

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/the-dilemma-white-neo-muslims/d/12260

 

Loading..

Loading..