عرب نیوز
22نومبر 2013
اللہ رب العزت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ارشاد فرمایا کہ ‘‘آپ تمام جہانوں کے لئے سراپا رحمت ہیں ’’قرآن میں ارشاد باری ہے ، ‘‘ ائے حبیب) ہم نے تمہیں پوری کائنات کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کیا ہے ’’(21:107)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہونے کی صفت خا ص صرف مسلمانوں یا کسی ایک قوم کے لئے ہی مخصوص نہیں ہے ۔ بلکہ ان کی رحمت غیر مسلموں کو بھی عام ہے اس حقیقت کے باوجود کے کچھ غیر مسلموں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مشن کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوششیں کیں ۔ ان کی رحمت اور معافی کی داستان ایسے بہت سارے واقعات میں نمایاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات میں بھی اپنے خطرناک دشمنوں کو معاف کر دیا جب کہ ان کے پاس بدلہ لینے کے ہر ممکن امکانات موجود تھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی کسی سے کسی بات کا بدلہ نہیں لیا ۔انہوں نے یہ فرمایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی برائی کا بدلہ برائی سے نہی دیا بلکہ انہوں نے ایسی صورت حال میں معافی اور درگزر سے کام لیا ہے ۔ یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے درج ذیل واقعات کا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد اور بھی واضح ہو جائے گا ۔
اپنے مشن کے ابتدائی دور میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے مکہ کے قریب پہاڑیوں میں واقع وادی طائف کا سفر کیا ۔طائف کے لیڈران انتہائی بے ادبی اور گستاخی کے ساتھ پیش آتے تھے ۔جب ا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور آپ کی گستاخی سے بھی ان کا دل نہیں بھرا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے اور انہیں پریشان کرنے کے لئے شہر کے اوباش اور آوارہ لڑکوں کو بھی برانگیختہ کر دیا ۔ اس کے بعد معاشرے کے رزیل اور اوباش عناصر نبی صل اللہ علیہ وسلم پر چلاتے اور ان سے بدکلامیاں کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دوڑنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لہولہان ہو کر ایک باغ میں پناہ لینےپر مجبور ہو گئے ۔
لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو طائف کی وادی میں مکہ سے کہیں زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ محلے کے اوباش اور بدمعاش لوگ راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکنے لگے جس کی وجہ سے آپ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بری طرح زخمی ہو گئے اور سر تا پا خون سے لت پت ہو گئے ۔ اس حد درجہ کے ظلم و ستم کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر کبیدہ خاطر ہوئے اور اتنا اداس ہو گئے کہ آپ کی زبان اقداس سے بے ساختہ ایک دعا نکل پڑی جس میں آپ نے اپنی مجبوری اور درد بھری صورت حال کو بیان فرمایا اور اللہ کی مدد کے طالب ہوئے: ‘‘ ائے اللہ میں میں تجھ سے ان لوگوں کے سامنے اپنی لاچاری ، ذرائع کی کمی اور عاجزی کی شکایت کرتا ہوں ۔ائے میرے مالک اور کمزوروں کے خدا تو رحمٰن و رحیم ہے ۔ تو مجھے کن لوگوں کے حوالے کرے گا ؟ تو نے میرے اوپر بیگانوں ، میرے بدخواہوں اور دشمنوں کو قدرت دے رکھی ہے ؟ اگر تو مجھے کوئی قوت نہیں عطا کرتا ہے تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ، اس لئے کہ تیری رضا میرے لئے کافی ہے ۔میں تیری مدد کی روشنی میں پناہ چاہتا ہوں جس سے تمام تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور اس دنیا اور آخرت کے سارے معاملات عیاں ہو جاتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرا غصہ میرے اوپر نازل ہو جائے یا میں تیری ناراضگی کا شکار ہو جاؤں۔ میں صر ف تیری رضا اور خوشنودی کا طالب ہوں اس لئے کہ صرف تیری ہی توفیق سے میں نیکیاں کرتا ہوں اور گناہوں سے پچتا ہوں ۔ اور توہی بڑا قوی اور قادر مطلق ہے ۔
اس کے بعد اللہ نے پہاڑوں کے فرشتے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان پہاڑوں کو ملا دینے اور وادی طائف کو تباہ کرنے کی اجازت لینے کے لیےبھیجا جن کے درمیان یہ شہر واقع ہے ۔ اپنی انتہائی عظیم قوت برداشت اور رحم و کرم کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب دیا: ‘‘تم ایسا مت کر و! اس لئے کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کے صلب سے ایسے لوگوں کو پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے ۔ ’’(صحیح مسلم)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمدلی اتنی عظیم الشان تھی کہ متعدد مقامات پر خود اللہ نے اس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ کی ہے ۔اسلام کا ایک سب سے بڑا مخالف اور ذاتی دشمن مدینہ کے منافقوں کا سردار عبد اللہ بن أبئی تھا ۔ جو بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتا تھا لیکن اس نے خفیہ طور پر مسلمانوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو بڑا نقصان پہنچایا ہے ۔ اس کے حالات سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی اور اس کے لئے اللہ سے بخشش و مغفرت کی دعا کی ۔ قرآن اس وقعہ کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔‘‘آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں (کیونکہ آپ کا کسی جگہ قدم رکھنا بھی رحمت و برکت کا باعث ہوتا ہے اور یہ آپ کی رحمت و برکت کے حق دار نہیں ہیں)۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئے’’(9:84)
عبد اللہ بن أبئی نے اپنی تمام زندگی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کے خلاف کام کیا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدنام کرنے اور ان کے مشن کو ناکام بنانے کے لئے اس نے ہر ممکن کوشش کی ۔ اس نے غزوہ احد میں اپنے تین سو حامیوں کو واپس بلا لیا اس طراح ایک ہی جھٹکے میں اس نے مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی ۔ وہ اپنی ساری زندگی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچتا رہا اور ان کے ساتھ دشمنی نبھاتا رہا ۔ یہ وہی شخص ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ پر (معاذ اللہ) بدکاری کا الزام لگانے کے لئے اپنے حامیوں اور اتحادیوں کو بھڑکایا تھا تاکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیغام کو ذلیل و رسوا کر سکے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
http://www.arabnews.com/news/480926URL for English article:
https://newageislam.com/islam-spiritualism/prophet-merciful-non-muslims-too/d/34665
URL for this article:
ttps://newageislam.com/urdu-section/prophet-merciful-non-muslims-too/d/97778