انور عباس
25مئی، 2013
(انگریزی سےترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
اسلام کی آمد سے پہلے عورتوں کی حیثیت نہ تو عرب میں اور نہ ہی دنیا کے دیگر حصوں میں قابل رشک تھی ۔ بہت سی قدیم ثقافتوں میں خواتین کو نیچا دیکھا گیا اور ان کے ساتھ ایک کمتر مخلوق کے طور پر سلوک کیا گیا ۔
ان کی ان ثقافتوں میں بھی یہی حالت تھی جن ثقافتوں نے بنی نوع انسان کی علمی و فنکارانہ دولت میں اہم تعاون کیا ہے ۔ قدیم یونانی تہذیب میں ایک عورت کی حیثیت تقریبا ایک غلام جیسی تھی : جس کا تعلق بچپن میں والد سے تھا ، نو جوانی میں اس کے شوہر سے تھا اور بیوہ ہو جانے پر اس کے بیٹوں سے تھا۔
قدیم روم کی خوش نماں تہذیب میں بھی باپ اور شوہر کا ان کی بیویوں یا بیٹیوں پر مکمل کنٹرول تھا۔ یہاں تک کہ یہودی اور عیسائی مذاہب میں – جیسا کہ انہوں نے بعد میں تیار کیا تھا عورتوں کو آلودگی کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا جبکہ کچھ ہندو کتابوں نے بھی عورتوں کو مردوں پر مکمل طور پر منحصر بتایا تھا ۔
قبل از اسلام عرب اکثر لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے میں ملوث تھے جس میں وہ عام طور پر کوئی فخر نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے لئے خواتین ایسی ساتھی نہیں تھیں جو اپنے شوہروں کی زندگی میں مکمل طور پر شامل ہوں بلکہ وہ محض ایسی اشیاء تھیں جو مردوں کو تسکین فراہم کرتیں یا ایسی غلام تھیں جو ان کے احکام بجا لاتیں ۔ خواتین کو ذاتی جائیداد اور ان کے ساتھ مردوں کے ذریعہ برے سلوک کے خلاف کسی حفاظت کا کوئی حق نہیں تھا۔
اسلام کا کام سب سے پہلے یہ اعلان کرنا تھا کہ جنسوں کے درمیان حقیقی مساوات ہے اور کوئی کمیونٹی یا انسان زندگی کے دھارے نہیں بنا سکتا جب ان کے باہمی تعلقات بجا طور پر استوار نہ ہوں۔ مردوں کو خواتین کے ساتھ احترام اور غور و فکر کے ساتھ پیش آنا اور ساتھ ہی ساتھ اقتصادی اور سماجی تعلقات میں انصاف کا ایک احساس بھی پیدا کرنا سیکھنا چاہئے ۔
جیسا کہ خواتین پوری تاریخ میں 'کمزور' جنسی رہی ہیں ، خاص طور پر مردوں کے لئے یہ دیکھنا فرض کیا گیا کیا گیا ہے کہ انہیں ان کے مناسب حقوق حاصل ہوں ۔ اپنے وصال سے پہلے آخری خطبہ میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ "۔۔۔ (خدا کے سامنے) وہ سب سے اچھا مومن ہے جو اپنے ماتحتوں کت ساتھ خوش اخلاقی اور شائستگی سے پیش آتا ہے........... " نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ان کی جائداد پر آزاد اختیار کی اجازت دی اور وراثت کے حوالے سے ان کی پوزیشن کو بہتر بنایا۔
اسلام کے قوانین عورتوں کی وسیع آزادی کا احاطہ کرتے ہیں ۔ اس میں بیواؤں کو کچھ مخصوص شرائط کے تحت دوبارہ شادی کرنے اور شوہر کو طلاق دینے کی آزادیاں بھی شامل ہیں۔ اس کا مقصد بہتان اور نا خوش گواری کی حوصلہ شکنی کرنا اور مردوں اور عورتوں کے درمیان سماجی اخلاق کے مناسب معیار کو یقینی بنانا ہے ۔ قرآن (2:229) "کا کہنا ہے ..... پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ...... "
اسلام جائیداد کے وارث ہونے کے حق کے ذریعے خواتین کے لئے کچھ اقتصادی آزادی کو بھی یقینی بناتا ہے ، شوہر پر شادی کے وقت اس کی مہر کی ادئیگی کی ذمہ داری ، آخری لیکن کم نہیں، اس کے نان ونفقہ کے لئے شوہر کو ذمہ دار بنا کر ۔
خدا کی تمام مخلوق کے لئے ہمدردی اسلام میں، مہذب اور خدا کے خوف پر مبنی زندگی کی بنیاد ہے۔ اسلام کے پیغام کے اس بنیادی عنصر کو ختم کرنے کی کسی بھی متعصب مسلمان یا خطرناک اور جاہل غیر مسلموں کے ذریعہ کوئی بھی کوشش شاید وہ سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا مذہب کو سامنا ہے۔
مثال کے طور پر کچھ سال پہلے ایک ایم پی نے ایوان بالا، قوم اور بے شک دنیا کو حیرت زدہ کر دیا تھا جب اس نے مبینہ طور پر بلوچستان میں پانچ خواتین کو اپنی مرضی کی شادی کرنے کی خواہش کرنے کی وجہ سے زندہ دفن کئےجانے کا مبینہ طور پر دفاع "ہماری ثقافت کا حصہ" کہہ کر کیا تھا۔
مسلم ممالک میں سیاسی زندگی کو آمرانہ حکومتوں کے ذریعہ سختی کے ساتھ معاشرے کے تمام طبقات کے مفادات پر اکثر بار ہا ضرب اور سیاسی قتل کے ذریعہ بگاڑا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں عام انتخابات میں ملک کے بعض علاقوں میں ووٹ ڈالنے سے خواتین ووٹروں پر پابندی لگانا ۔
یہ اچھی طرح سے جانا جاتا ہے کہ قدامت پسند اور کبھی کبھی حقیقی طور پر گمراہ علماء کرام یہ نقطہ نظر اپناتے ہیں کہ خواتین کو کوئی آزادی نہیں ہونی چائے اور ایک قوم کی زندگی میں حصہ لینے کی انہیں اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ اس معاملے میں نہ صرف مذہبی اور فرقہ وارانہ جماعتوں نے بلکہ مرکزی دھارے میں شامل جماعتوں نے جو جلد ہی ملک میں حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالیں گیں، مبینہ طور پر خواتین ووٹرو کو ووٹ دینے سے روکنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے ۔
دنیا کی آبادی کا تقریبا ایک نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ کوئی بھی مذہبی یا سماجی اصول جو خود کو بنی نوع انسان کی بھلائی کے ساتھ جوڑتا ہو اس کا تعلق خواتین کی فلاح و بہبود، حقوق اور ترقی کے ساتھ بھی ہونا چاہئے۔
اسلام نےاکثر سماجی، اقتصادی اور دیگر معاملات میں ایسا وسیع اصول پیش کیا ہے جس کا عمل افراد اور جماعتوں کے تعلقات پر ہونا چاہئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےجس قسم کی آزادی اور مکمل شرکت کا اعلان ساتویں صدی کی خواتین کے لئے کیا تھاجس سے وہ آج لطف اندوز ہو رہی ہیں، اس بات پر شک ہے کہ اس کا نمایا اثر تھا یا نہیں اور اسے بر وقت سمجھا گیا یا نہیں۔
اسی وقت اسلام نے پیش قدمی کی طرف واضح اشارہ کیا اور اس کے ترجمانوں اور علماء کرام کو بعد کی صدیوں کے ذریعے نشو نما پا رہے معاشرے کے نمونوں میں خواتین کی پوزیشن کی تعریف نو کرنے کے لئے آگاہ کیا ۔ اسلام یا مسلمانوں کی تاریخ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو تبدیلی کے خلاف ہو ۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشروں نےجس آسانی کے ساتھ نئے مادی اور نفسیاتی حالات میں خود کو ڈھال لیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں ہمیشہ مطابقت پذیری کی صلاحیت موجود ہے۔
انور عباس ایک فری لانس مضمون نگار ہیں۔
ماخذ:
http://dawn.com/2013/05/24/disenfranchising-women/
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-women-feminism/disenfranchising-women/d/11771
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/disenfranchising-women-/d/12670