New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 01:54 AM

Urdu Section ( 30 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is Animal Sacrifice Hardwired Condition of Mankind from Ancient Times کیا جانوروں کی قربانی قدیم زمانے سے بنی نوع انسان میں رائج رہی ہے

 راشد سمناکے، نیو ایج اسلام

 12 جولائی 2022

 قربانی، خواہ وہ جانوروں کی ہو یا انسانوں کی، قدیم زمانے سے بنی نوع انسان میں رائج رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ اس کی فطرت میں داخل ہے۔

 اہم نکات:

 1- ازٹیک سے لے کر صیون تک ماضی کی نام نہاد اعلیٰ تہذیبوں میں پوری بے شرمی کے ساتھ دیوی اور دیوتاؤں کی قربان گاہ پر جوان مردوں یا کنواریوں کا گلا کاٹا جاتا رہا ہے۔

 2- نیپال میں ہر پانچ سال بعد غدیمائی نامی تہوار منایا جاتا ہے جہاں ہزاروں جانوروں کو ککری سے گلے کاٹ کر بے دردی سے مار دیا جاتا ہے۔

 3- بعض صورتوں میں قربانی کے لیے جانوروں کو ذبح کرنے کا طریقہ ایجاد نہیں ہوتا ہے۔

 ------

 قربانی، خواہ وہ جانوروں کی ہو یا انسانوں کی، قدیم زمانے سے بنی نوع انسان میں رائج رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ اس کی فطرت میں داخل ہے۔ ازٹیک سے لے کر صیون تک ماضی کی نام نہاد اعلیٰ تہذیبوں میں پوری بے شرمی کے ساتھ دیوی اور دیوتاؤں کی قربان گاہ پر جوان مردوں یا کنواریوں کا گلا کاٹا جاتا رہا ہے۔

 اس مہینے ہر قسم کے ہزاروں جانوروں کو، اور بالخصوص مویشیوں کو دیوی غدیمائی کے نام پر ککری، جو کہ ایک قسم کا خمیدہ چاقو ہوتا ہے اس سے گلے کاٹ کر بے دردی سے مارا جائے گا۔ یہ تہوار ہر پانچ سال بعد نیپال میں ہندوستان اور نیپال کی سرحد کے بالکل پار منایا جاتا ہے، جہاں ایک بڑی تعداد میں عقیدت مند اپنے اپنے جانوروں کو لیکر آتے ہیں۔

 کئی سالوں سے اس عمل پر قانونی اور مذہبی پابندی کے باوجود جاری ہے۔ کئی دہائیوں قبل ذبح کیے جانے والے جانوروں کی تعداد لاکھوں میں ہوا کرتی تھی لیکن اب لگتا ہے کہ یہ تعداد ہزاروں میں رہ گئی ہے۔

  جانوروں پر یہ ظلم خوفناک ہے کیونکہ دیگر چھوٹے چھوٹے جانوروں کے بچوں کو قربان کیے جانے والے جانوروں، بچھڑوں سے الگ نہیں کیا جاتا اور جانور کے وہ چھوٹے چھوٹے بچے اپنی ماؤں اور دوسرے جانوروں کو کٹتے ہوئے دیکھتے ہیں!

 افسوس; یہ جانوروں کی بربادی کا سب سے بڑا موقع ہوتا ہے، قربانی کی مسلم رسم کے برعکس - جو حج کے مہینے میں ادا کی جاتی ہے، کیونکہ قربانی کا گوشت کھایا جاتا ہے یا تقسیم کیا جاتا ہے اور منافع کے لیے چھپا کر بیچا جاتا ہے، جبکہ غدیمائی تہوار میں گوشت بالکل ہی استعمال نہیں کیا جاتا۔ تاہم بعض صورتوں میں قربانی کے لیے ذبح کرنے کا طریقہ بہت زیادہ خراب ہوتا ہے، اور خاص طور پر بڑے جانوروں کی قربانی کے لیے ظالمانہ اور قدیم طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

 ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مذبح خانوں میں کام کرنے والوں میں جرائم کی شرح میں نسبتاً اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ جانوروں کے خون کی ندیوں کو دیکھنے کے نتیجے میں انسانی احساسات سے خالی ہو جانا ہے، جو کبھی ان کا پالتو جانور بھی ہوا کرتا تھا۔

 شکر ہے کہ قربانی کے ذبح کا موسم ختم ہو چکا ہے، اور گوشت کی عام ضرورت کے علاوہ جو اکثر مذبح خانوں سے پورے کیے جاتے ہیں، اگلے سال تک دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر جانوروں کو ذبح کرنے کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔

 بڑھتی ہوئی بیداری کے پیش نظر، آج جانوروں کی قربانی کی اس رسم کے بہت سے پہلوؤں پر، کچھ اہم سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، جو قرآن کی تعلیمات اور ابراہیم سے متعلق کہانی کی تشریح پر مبنی ہیں، کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے اسماعیل اور یا اسحاق/اسحاق کو ذبح کرنے کی کوشش کی تھی۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ قربانی اسماعیل کی دی گئی تھی اور بائبل بتاتی ہے کہ قربانی اسحاق کی پیش کی گئی تھی!

  یہ کہانی اس قدر مشہور ہے کہ خاص طور پر مسلمانوں کو اس کی صداقت کے لیے قرآن کے حوالے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ عام قارئین کے لیے اس کا خلاصہ ہی پیش کر دینا کافی ہے۔

 کہانی یہ ہے کہ ابراہیم خلیل اللہ، "اللہ کے دوست" نے ایک بار خواب میں دیکھا کہ اللہ/خدا نے ان سے اسماعیل کو خدا کی راہ میں "قربانی" کرنے کو کہا۔ جسے ابراہیم پورا کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ جب ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کو گلا کاٹنے کے لیے زمین پر لٹا دیا تو خدائی آواز نے پکار لگائی اور کہا کہ ابراہیم نے پوری طرح خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت دیا ہے اس لیے بیٹے اسماعیل کی بجائے ایک بکری یا بھیڑ کی قربانی کر دی جائے۔

 اس کے بعد یہ ایک رسم بن گئی ہے جسے پوری دنیا کے مسلمان خدا کے ساتھ ابراہیم کی وفاداری کی یاد منانے کے لیے ادا کرتے ہیں، بکری، بھیڑ، گائے، بیل اور اونٹ جیسے مویشی ذبح کیے جاتے ہیں۔ بعد میں بڑے جانور جنت میں جانے کے لیے سات افراد تک کی اعانت کے لیے کافی ہوتے ہیں، جب کہ چھوٹے جانور صرف ایک فرد کے لیے کافی ہیں۔

 مندرجہ بالا سادہ کہانی کی بنیاد پر، درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:

 1- ابراہیم خلیل اللہ کی ذاتی کہانی ہے۔ اور یہ ابراہیم لیے کوئی وحی نہیں ہے جو بطور رسول انہی دی گئی ہو اور انہیں یہ حکم دیا گیا ہو کہ قربانی کی رسم کو اپنانے کے لیے پوری انسانیت کو اس کی تبلیغ کی جائے۔

 2- ابتدا میں قربانی/خواب دیکھنا تھا۔ ابراہیم کے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے، ان کی جگہ ایک بکری/بھیڑ نے لے لی۔ لہٰذا، یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ ایک "حکم" تھا، اس کا اطلاق ان پر نہیں ہونا چاہیے جن کا کوئی بیٹا ہی نہیں ہے۔

 3- قربانی خاص طور پر بکرے/بھیڑ کی تھی۔ بڑے جانوروں کی نہیں۔ اس لیے بڑے جانوروں کو ذبح کرنا بدعت ہے! اس لیے یہ "وہ جود کو دکھانا چاہتے ہیں" کا معاملہ ہے کہ وہ آپ سے زیادہ مقدس ہیں یا آپ سے زیادہ امیر! اس اعتبار سے یہ متن قرآن کی تحریف بھی ٹھہری ہے۔

 4- ابراہیم کی قربانی منیٰ/مکہ میں ہوئی تھی… اگر سنت پر عمل کرنا ہے تو وہاں صرف حاجی ہی قربانی کریں!

 5- قرآن ایک ہدیہ/تحفہ کا مطالبہ کرتا ہے جو حج کی جگہ بھیجے جائیں تاکہ وہاں کے دبلے پتلے، بھوکے اور تھکے ہوئے مسافروں کو کھانا کھلایا جا سکے۔ نہ کہ اپنے گھر کے پچھلے صحن میں انواع و اقسام کی پکوان بنانے کیلئے!

 6- یہ تحفہ کسی بھی شکل میں ہو چلے گا، ضروری نہیں کہ جانور ہی ہو۔

  مجموعی طور پر، ایسا لگتا ہے کہ یہ مسلم دنیا کی بدعت بالکل وہی ہے، یہ نہ بھولیں کہ اس سے جانوروں کے جان کا ضیاع ہوتا ہے اور گوشت کی بربادی الگ۔ آج آدھی دنیا کو بمشکل ہی بھر پیٹ کھانا میسر ہے۔ یہ رسم آب و ہوا کی تبدیلی میں کافی اضافہ کرتی ہے، کیونکہ اس کے لیے چرواہوں کو زیادہ سے زیادہ جانوروں کے ریوڑ ہانک کر لے جانا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں قابل کاشت زمین اور جنگلات تباہ ہوتے ہیں اور جانوروں کی سانسوں سے میتھین کی پیداوار سے آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

 "زندہ جانوروں کی تجارت" کے ذریعے ان جانوروں کے ساتھ ہونے والا ظلم ایک خاص معاملہ ہے جہاں جانوروں کو برآمد کرنے والا کوئی بھی بڑا ملک اس سے محفوظ نہیں ہے، بشمول ہندوستان کے جہاں زیادہ تر سبزی خور پائے جاتے ہیں!

 لہٰذا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے جانوروں کی قربانی ایک مذہبی بدعت ہے اور اسے فوری طور پر ترک کر دیا جانا چاہیے، خواہ مسلم مذہبی طبقہ سڑکوں پر نکل آئیں کیونکہ ان کی کھالوں اور چمڑوں کی فروخت سے ان کے "روزی" کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جو کہ کروڑوں ڈالر پر مشتمل ہے۔

 English Article: Is Animal Sacrifice Hardwired Condition of Mankind from Ancient Times

URL: https://newageislam.com/urdu-section/animal-sacrifice-mankind-nepal-ghadimai/d/128989

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..