ساحل رضوی، نیو ایج اسلام
26 ستمبر 2024
منصور الحلاج ایک عظیم صوفی ہیں جنہوں نے "انا الحق" ("میں حق ہوں") کا نعرہ بلند کیا، جو خدا کی معرفت کی علامت ہے۔ اگرچہ صوفیاء کرام ان کی تعظیم کرتے ہیں، لیکن ان یہ بیان اسلامی قدامت پسندوں کی طرف سے ظلم و ستم کا باعث بنا، جس کے نتیجے میں انہیں ارتداد کی سزا دی گئی۔
اہم نکات
1. منصور الحلاج نے "انا الحق" کا نعرہ بلند کیا جس کا مطلب ہے "میں حق ہوں" یا "میں خدا ہوں۔"
2. ان کے اس اعلان نے اسلامی نظریہ توحید کو چیلنج کرتے ہوئے مذہبی مباحث کو جنم دیا۔
3. صوفی اسے معرفت الہی سے تعبیر کرتے ہیں، نہ کہ خود نمائی سے۔
4. قدامت پسند علماء خاص طور پر حنبلی، ان کے اس نعرے کو ارتداد مانتے ہیں۔
5. الحلاج کو 922 عیسوی میں موت کی سزا دی گئی، لیکن ان کی تعلیمات نے تصوف پر دیرپا اثر چھوڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Mansur al-Hajjaj/ Photo: https://barakainstitute.org/
------
9ویں صدی کے اواخر میں ایران میں پیدا ہونے والے عظیم صوفی منصور الحلاج کو ان کے نعرے "انا الحق" کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جس کا ترجمہ "میں حق ہوں" یا "میں خدا ہوں" ہے۔ یہ جرات مندانہ نعرہ پوری اسلامی تاریخ میں جستجو، بحث و مباحثہ اور تنازعہ کا باعث رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کے لیے، یہ ہندوستانی ادویت فلسفہ "آہم برہماسمی" کے متوازی ہے، جو کہ ایک ایسا تصور ہے جو خالق اور مخلوق کے اتحاد پر زور دیتا ہے۔ دونوں نظریات کی تعلیم یہ کہ اللہ خارجی نہیں بلکہ نفس کا ایک باطنی حصہ ہے۔ تاہم، منصور الحلاج کا "انا الحق" کا نعرہ خاص طور پر اسلامی فریم ورک کے اندر متنازعہ فیہ تھا، جہاں اس طرح کے عقائد بنیادی مذہبی اصولوں کے خلاف مانے جاتے ہیں۔
انا الحق اسلامی فکر کے تناظر میں
علمائے اسلام نے منصور الحلاج کے اس نعرے کے مضمرات پر ایک طویل بحث کی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامیات سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جنید حارث کے مطابق، "انا الحق" کے جملے میں اس لیے بھی خرابی تھی، کیونکہ اس کے ذریعے منصور الحلاج نے اپنے لیے الوہیت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ اسلام میں، خدا کو اس کی مخلوق سے مکمل طور پر جدا سمجھا جاتا ہے، اور یہاں تک کہ انتہائی عظیم شخصیات، جیسے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کا رسول اور ایک بندہ مانا جاتا ہے، نہ کہ خود اللہ۔ لہٰذا، منصور الحلاج کے اس نعرے کو ارتداد کے طور پر دیکھا گیا، کیونکہ اسے زمان و مکان سے پاک خدا کی وحدانیت کے عقیدے کے خلاف مانا گیا۔
ہیریس بتاتے ہیں کہ جہاں کچھ مذہبی روایات، جیسے ہندو مت اور فلسفے کی کچھ شاخیں، یہ مانتی ہیں کہ انسان الوہیت کے حصے ہیں، اسلام خالق اور اس کی مخلوقات کے درمیان واضح فرق قائم کرتا ہے۔ اس تناظر میں، منصور الحلاج کے "انا الحق" کے نعرے کو اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا گیا، جو بالآخر ان پر ظلم و ستم اور پھر سزائے موت کا باعث بنا۔
"انا الحق" کی صوفی تشریح
تاہم، منصور الحلاج کے نعرے کو اسلامی تصوف کے اندر زیادہ ہمدردانہ پذیرائی ملی ہے۔ صوفی خدا کے ساتھ ذاتی اور روحانی تجربات پر زور دیتے ہیں، جو اکثر مرکزی دھارے کی مذہبی روایات کے سخت اور خارجی نام و نمود سے ماوراء ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہمدرد یونیورسٹی کے پروفیسر طارق اشفاق بتاتے ہیں، صوفی نقطہ نظر سے "انا الحق" خدا ہونے کا دعویٰ نہیں، ہے بلکہ انفرادی روح کے خدا کے ساتھ وصال کا اظہار ہے۔ اس صوفیانہ حالت میں، عبادت گزار اور معبود کے درمیان فرق ختم ہو جاتا ہے، جس سے خدا کے ساتھ وصال کا تجربہ ہوتا ہے۔
یہ تصور دیگر روحانی روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہے، جو روح اور اللہ کے باہمی ربط کو اجاگر کرتی ہیں، جیسے کہ "تت تمم آسی" (تو ہی وہ ہے) کا اپنشد اصول۔ تصوف کے اندر، یہ فنا کی کیفیت کوئی گستاخی کا عمل نہیں، بلکہ روحانی تجربے کا حتمی ہدف ہے، جہاں انا تحلیل ہو جاتی ہے اور صرف اللہ باقی رہ جاتا ہے۔
منصور الحلاج پر ظلم و ستم اور سزائے موت
الحلاج کی روحانیت اور ان کے عوامی نعرے نے انہیں قدامت پسند مذہبی طبقے کی زد میں ڈال دیا۔ 909 عیسوی میں، حنبلی مکتبہ فکر، جو اسلامی قانون کی سخت تشریح کے لیے جانا جاتا ہے، نے ان کی تعلیمات کو نہ صرف مذہبی قوانین، بلکہ سیاسی استحکام کے لیے بھی خطرہ سمجھا۔ اس وقت، حنبلی علماء بغداد میں سیاسی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور منصور الحلاج کے نظریات ان کے نظریات سے براہ راست متصادم تھے۔ ان کی بے باکی اور روایتی اسلامی قوانین کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے، ان پر ارتداد کا الزام لگا۔
بغداد چھوڑنے پر مجبور ہو کر منصور الحلاج نے اپنے صوفیانہ نظریات کو دوسری جگہوں پر پھیلانا جاری رکھا، لیکن آخرکار انہیں گرفتار کر لیا گیا اور نو سال تک جیل میں ڈال کر رکھا گیا۔ ان پر دو بڑے جرائم کا الزام تھا: ایک "انا الحق" کا اعلان، جس کی تشریح خود شناسی سے کی جاتی ہے، اور دوسرا حلول کے تصور کی حمایت - یعنی یہ عقیدہ کہ خدا جسمانی طور پر انسانوں کے اندر رہتا ہے۔
922 عیسوی میں، برسوں کی قید کے بعد، الحلاج کو سزائے موت سنائی گئی۔ انہیں سخت سزا دی گئی: ہزار کوڑے مارے گئے، ان کے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے اور آخرکار انہیں پھانسی دے دی گئی۔ موت کے بعد بھی ان کی لاش کو نہ بخشا گیا۔ اسے جلایا گیا، اور راکھ کو دریائے فرات میں ڈال دیا گیا۔
منصور الحلاج کی میراث
ان کے المناک انجام کے باوجود، الحلاج کی تعلیمات نے تصوف پر دیرپا اثر چھوڑے۔ ان کی زندگی اور موت *فنا* کے صوفی تصور کو مضبوط کرتی ہے، یا خدا کی بارگاہ میں نفس کی فنا کا نظریہ پیش کرتی ہے۔ صوفیاء کے لیے، الحلاج کی شہادت شکست نہیں، بلکہ وصال الٰہی کی صوفیانہ جستجو کا ایک مضبوط ثبوت ہے۔
ان کا اعلان، "انا الحق" پوری دنیا کے تصوف و روحانیت کے متلاشیوں کے لیے مشعل راہ ہے، جو وصال الہی کی ابدی جستجو اور اس یقین کی علامت ہے، کہ الہی چنگاری ہر انسانی روح کے اندر موجود ہے۔ الحلاج کی میراث مذہبی قدامت پسندی اور صوفیانہ تجربے کے درمیان تناؤ کی ایک گہری علامت بنی ہوئی ہے، جو کہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس سے تصوف کی تاریخ اور وسیع تر اسلامی روایت میں اس کے کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔
----
English Article: The Meaning of An-Al-Haq (I Am the Truth): The Story of Mansur Al-Hallaj and His Persecution by Islamic Orthodoxy
URL: https://newageislam.com/urdu-section/an-al-haq-truth-mansur-al-hallaj-islamic-orthodoxy/d/134488
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism