امیر افضل اعوان
19 نومبر، 2015
دین اسلام میں ہر طبقہ اور رشتہ کی اہمیت و ضرورت کے پیش نظر اس کے جامع حقوق کا مفصل بیان و حکم موجودہ ہے، اسلامی نقطہ نظر سے کائنات انسانی کی عملی زندگی کی دو محور ہیں اول حقوق اللہ کہ جسے عبادات کہتے ہیں اور دوسرے حقوق العباد جسے باہمی معاملات کہا جاتاہے یہی دو اصطلاحیں ہیں جو انسانی نظام حیات کے تمام اصول و قواعد اور قوانین کی بنیاد ہیں ، قرآن کریم میں اس حوالہ سے ارشاد ربانی ہے کہ ‘‘اور جن ( رشتہ ہائے قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدانے حکم دیا ہے ان کو جوڑے رکھتے اور پروردگار سے ڈرتے رہتے اور برے حساب سے خوف رکھتے ہیں’’ سورۃ الرعہ ، آیت 21، اسلام میں راہبانہ انداز سے ترک تعلقات کی بجائے ضروری تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے ماں باپ کے حقوق، اولاد ، بیوی، بہن بھائیوں کے حقوق ، دوسرے رشتہ داروں او ر پڑوسیوں کے حقوق اللہ تعالیٰ نےہر انسان پر لازم کئے ہیں ان کو نظر انداز کر کے نفی عبادت میں یا کسی دینی خدمت میں لگ جانا بھی جائز نہیں دوسرے کاموں میں لگ کر ان کو بھلا دینا تو کیسے جائز ہوتا۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان تمام تعلقات اور روابطے کا خیال رکھے جن کی دوستی پر انسان کی اجتماعی زندگی کی صلاح و فلاح کا انحصار ہے، خواہ یہ تعلقات اور روابطہ معاشرت سے تعلق رکھتے ہوں یا تمدن سے اور اس حوالہ سے والدین ،قریبی رشتہ داروں ، یتیموں مسکینوں اور ہمسایوں سب کے حقوق آجاتے ہیں، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ‘‘ جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور وطن سےہجرت کر گئے اور تمہارے ساتھ ہوکر جہاد کرتے رہے۔ وہ بھی تم ہی میں سے ہیں ۔ اور رشتہ دار خدا کے حکم کے رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔’’سورۃ الانقال ، آیت 75،
گرچہ کہ یہ آیت مبارکہ غزوہ بدر اور مسلمانوں کی ہجرت کے تناظر میں نازل ہوئی مگر جیسے قرآن پاک رہتی دنیا تک ذریعہ شد و ہدایت ہے اسی طرح یہ آیت بھی قیامت تک اہل ایمان کے مثل اور مشعل راہ ہے، قرآن کریم میں ایک اور مقام پر فرمایا گیا کہ ‘‘خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے او ربے حیائی اور نا معقول کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔’’سورۃ النحل ، آیت 90، اس مختصر آیت میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جب پورے انسانی معاشرے کی درستی کا انحصار ہے، پہلی چیز عدل ہے جس کا تصور دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو، دوسری چیز احسان ہے جس سے مراد نیک برتاؤ ، فیاضانہ معاملہ، ہمدردانہ رویہ، رواداری، خوش خلقی، درگزر ، باہمی مراعات ،ایک دوسرے کا پاس و لحاظ ، دوسرے کو اس کے حق سے کچھ زیادہ دینا، اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہوجاتا یہ عدل سےبھی زیادہ ہے، تیسری چیز نصیحت ہے کہ اپنی حد سےتجاوز اور دوسرے کےحقوق پر دست رازی نہ کرنا، خواہ وہ حقوق خالق کےہوں یا مخلوق کے دونوں حوالہ سے احکامات الہٰی کو مقدم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دین اسلام سے زیادہ کوئی مذہب بھی انسانی حقوق کی بجا آوری کو اہمیت نہیں دیتا، اسلام وہ واحد مذہب ہے جو مسلمانوں کو آپس میں ایک جسم کی ماند رہنے کی تعلیم دیتا ہے کہ جس طرح کوئی انسان اپنے آپ کو سنبھال اور سدھار کر رکھتا ہے اسی طرح وہ معاشی اور سماجی حیثیت میں دوسرے لوگوں کے ساتھ ہمدردی ، نیکی ، احسان، خدا ترسی او رمحبت کا سلوک روا رکھے ، اسی حکمت کے تحت اسلام میں انسانیت کے ہر طبقہ کے حقوق اور فرائض کا تعین اسلام میں انسانیت کے ہر طبقہ کے حقوق اور فرائض کا تعین کیا ہے اور حقوق العباد میں صلہ رحمی بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اس حوالہ سےایک حدیث مبارکہ میں بیان ہے کہ ‘‘ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کردے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کو کیا ہوگیا ، اس کو کیا ہوگیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صاحب ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اور اس کا کسی کو شریک نہ بنا، نماز قائم کر اور زکوٰۃ دے اور صلہ رحمی کر۔’’ صحیح بخاری ، جلد اول ، حدیث 1336، اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں آتا کہے ‘‘ انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کو پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہویا اس کی عمر دراز ہوتو صلہ رحمی کرے ( قریبی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے)’’ صحیح بخاری ، جلد اول ، حدیث 1987 ،
غور فرمائیے کہ یہاں رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی کتنی تاکید کی گئی ہے۔ حقوق العباد کے حوالہ سے مشرک والدین اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا حکم دیا گیا اور قطع رحمی یا ان کے حقوق غصب کرنے سے منع کیا گیا ہے، ایک حدیث مبارکہ میں بیان ہے ‘‘اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آئی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں، ابن عیینہ کا بیان ہے کہ اللہ نے انہی کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ، ‘‘ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے جنگ نہیں کی او رنہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔’’ ( الممتحنہ :8) صحیح بخاری ، جلد سوم ، حدیث 938، قرآن و سنت کی رو سے دیکھا جائے تو بخوبی احساس ہوتا ہے کہ عمر اور رزق کی فراوانی و وسعت بارے میں بھی حقوق العباد ، صلہ رحمی کہ اہمیت مسلمہ ہے اس حوالہ سے فرمایا گیا ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں وسعت ہو اور اس کی عمر دراز ہوتو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔’’ صحیح بخاری ، جلد سوم ، حدیث 943،‘‘ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں ا س حال میں کہ میں صبر کرنے والا اور ثواب کا خواہشمند ہوں ( یعنی میں دکھانے سنانے کے غرض سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اور ثواب کی طلب میں جہاد کروں) اور اس طرح جہاد کروں کہ میدان جنگ میں دشمن کو پیٹھ نہ دکھاؤں بلکہ ان کے سامنے سینہ سپرد رہوں (یہاں تک کہ میں لڑتے لڑتے مارا جاؤں ) تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو معاف کردے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں! پھر جب وہ شخص اپنے سوال کا جواب پا کر واپس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آواز دی اور فرمایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ یقیناً معاف کردے گا مگر قرض کو معاف نہیں کرے گا مجھ سےجبرائیل نے یہی کہا ہے ( مسلم) مشکوۃ شریف ، جلد سوم ، حدیث 132،
اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حقوق العباد کامعاملہ بڑا سخت او رکٹھن ہے اللہ تعالیٰ اپنے حقوق یعنی عبادات و طاعات میں کوتاہی او رگناہ و معصیت کو معاف کردیتا ہے مگر بندوں کے حقوق یعنی قرض وغیرہ کو معاف نہیں کرتا نیز اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ تعالیٰ کا صرف وہی پیغام نہیں پہنچاتے تھے جو قرآن کریم کی شکل میں ہمارے سامنے ہے بلکہ اس کےعلاوہ بھی دیگر ہدایات و احکام پہنچاتے رہتے تھے ۔ حقوق العباد بارے ایک اور حدیث میں مرقوم ہے کہ ‘‘ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہید کے تمام (صغیرہ او رکبیرہ) گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں مگر دین یعنی حقوق کی معافی نہیں ہوتی (مسلم)’’ یہاں دین سے مراد حقوق العباد ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ کسی شخص پر بندہ کا کوئی حق ہو یعنی خواہ اس کے ذمہ کسی کا مال ہو یا اس نے کسی کا ناحق خون کیا ہو یا کسی کی آبروریزی کی ہو یا کسی کا برا کیا ہو یا کسی کی غیبت کی ہو تو اگر وہ شخص شہید بھی ہوجائے تب بھی یہ چیز یں معاف نہیں کی جاتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے حقوق کسی حال میں معاف نہیں کرتا، کسی کے حقوق غصب کرنے کے بارے میں ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا ‘‘ سعید ابن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی از راہ ظلم لےگا قیامت میں بطور طوق ڈالی جائے گی (بخاری و مسلم)’’ مشکوۃ شریف، جلد سوم ، حدیث 162، یعنی کسی کی کوئی بھی چیز خواہ دہ زیادہ ہو یا کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، زبردستی ، چھین لینا یا ہڑپ کر لینا نہ صرف سماجی طور پر ایک ظلم اور اخلاقی طور پر ایک بھیانک برائی ہے بلکہ شرعی طور پر بھی انتہائی سخت جرم اور گناہ ہے، اسلام نے انسانی حقوق کے تحفظ کا جو اعلیٰ تصور پیش کیا ہے اور اسلامی شریعت نے حقوق العباد پر ڈاکہ ڈالنے کو جن سخت سزاؤں اور عقوبتوں کا مستو جب گردانا ہے۔
یہ حدیث گرامی اس کا ایک نمونہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کی زمین کا ایک بالشت بھر حصہ بھی زبردستی ہتھیا ئے گا اسے اس کے ظلم و جور کی یہ سزا دی جائے گی کہ قیامت کے دن زمین کا صرف وہی حصہ نہیں جو وہ غصب کرے گا بلکہ ساتو ں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین لے کر اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گا۔ اسی طرح حقوق العباد کی نفی کرتے ہوئے کسی کا حق یا مال غصب کرنے کے بارے میں ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ‘‘ عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےنقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے (بخاری) مشکوۃ شریف، جلد سوم، حدیث 164، یعنی کسی مسلمان کامال لوٹنا حرام ہے لیکن اس کا یہ مطلب قطعاؑ نہیں ہے کہ غیر مسلم کامال لوٹنا حرام نہیں ہے بلکہ مقصد تو صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حال میں اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ مسلمان بھائیوں کے مال کو ناحق طور پر اور زبردستی لوٹ لیں کیونکہ اس کا تعلق صرف حقوق العباد کی پامالی ہی سے نہیں ہے بلکہ معاشرہ اور سوسائٹی کے امن و سکون کی مکمل تباہی سے بھی ہے لہٰذا امن و سلامتی کے سر چشمہ اسلام کا تابعدار ہونے کے ناطے ایک مسلمان پر یہ ذمہ داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاشرہ اپنی قوم او راپنے ملک کے نظام امن و امان کو درہم برہم ہونے اور لاقانونیت پھیلنے سےبچائے جس کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ دوسرے کے مال و جائیداد ، حقوق کی پامالی اور لوٹ مار کو اسی طرح ناقابل برداشت سمجھا جائے جس طرح اپنے مال اپنی جائیداد او راپنے حقوق پر کسی دست درازی قطعاً برداشت نہیں کرسکتا ۔ او رمثلہ جسم کے کسی عضو مثلاً ناک او رکان وغیرہ کاٹ ڈالنے کو کہتے ہیں اسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح اللہ کی تخلیق میں بگاڑ اور بد نمائی پیداکرنا لازم آتا ہے ۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےنقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مرد اور عورت 60 برس تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں مگر جب ان کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وصیت کے ذریعہ وارثو ں کو نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذا ان کے لئے دوزخ ضروری ہوجاتی ہے ’’ مشکوۃ شریف ، جلد سوم ، حدیث 298،
حدیث حقوق العباد کی اہمیت کو اور زیادہ ظاہر کرتی ہے کہ جو لوگ اپنی ساری زندگی عبادت الہی میں گزار دیتے ہیں مگر حقوق العباد کو نقصان پہنچانے سے اجتناب نہیں کرتے وہ اپنی تمام عبادتوں کے باوجود اللہ کی ناراضگی کامورد بن جاتے ہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ خواہ وہ مرد ہوں یا عورت 60 سال تک عبادت کرتےہیں مگر اپنی زندگی کے آخری لمحات میں یہ وبال اپنے سر لے لیتے ہیں کہ وہ اپنے مال میں تہائی سے زیادہ کی وصیت کسی غیر شخص میں کرجاتے ہیں یا اپنا سارا مال کسی ایک وارث کو ہبہ کردیتے تاکہ دوسرے وارثوں کو کچھ نہ ملے اور اس طرح وہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں تو وہ اتنے طویل عرصہ کی اپنی عبادتوں کے باوجود اپنے آپ کو دوزخ کے عذاب کا سزا وار بنا لیتے ہیں کیونکہ اپنے وارثوں کو نقصان پہنچانا حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کی وجہ سے مناسب وناجائز ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رو گردانی اور اس کی مقررہ ہدایات سےتجاوز بھی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بیان کرنے کے بعد بطور تائید مذکورہ بالا آیت کریمہ پڑھی کیونکہ اس آیت سےبھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مورث کو چاہئے کہ وہ اپنے مال کے تہائی حصہ سےزائد کے بارے میں وصیت کر کے اپنے وارثوں کونقصان نہ پہنچائے ۔’’ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور ( اس خطبہ میں ان کو آگاہ کیاکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے بہتر اعمال ہیں ۔’’( یہ سن کر) ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیاکہ ‘‘یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بتائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ہاں ‘‘بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں اس حال میں مارے گئے کہ تم (سختیوں پر) صبر کرنے والے ہو، ثواب کے طالب ہو او رپیٹھ دکھاکر بھاگنے والے نہیں ہو بلکہ دشمن کے مقابلے پر جمے رہنے والے ہو ۔’’ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ ‘‘تم نے کیا کہا تھا ؟ اس نے عرض کیا کہ ‘‘مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کردیئے جائیں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ ہاں! بشرطیکہ تم صبر کرنے والے ہو ، ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہ ہو بلکہ دشمن کےمقابلے میں جمنے والے ہو مگر دین ( یعنی وہ قرض معاف نہیں ہوگا جس کی ادائیگی کی نیت ہی نہ ہو’) او رمجھ سےجبرائیل علیہ السلام نے یہی فرمایا ہے۔ (مسلم ) ‘‘ مشکوۃ شریف ، جلد سوم ، حدیث 926،
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے ‘‘عبداللہ بن عمر ابن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ‘‘ اللہ کی راہ ( یعنی جہاد میں) مارا جانا دین ( حقوق العباد) کے علاوہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے ’’ (مسلم ) بلاشبہ اسلامی معاشرہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں نہ صرف والدین اور اولاد ، میاں بیوی و دیگر عزیز و اقارب کے حقوق، ہمسائیوں، مہمانوں ، میزبانوں ، یتیموں اور بیواؤں ، مسکینوں محتاجوں ، بڑوں ، چھوٹوں ، مسافر مقیم ، آجر ، اجیر ، تاجر ، صارف مالک، نوکر ، زمیندار ، مزارع ، اولی الا مر اور رعایا کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے بلکہ غیر مسلموں اور ذمیوں کے حقوق کا تحفظ بھی یقینی بنانے کی ہدایت کرتا ہے ، شرعی اصطلاح میں انہیں حقوق العباد کہا جاتا ہے ۔ اسلام ان حقوق پر عمل کرنے کی محض ترغیب ہی نہیں دیتا بلکہ اس لافانی فلسفہ حیات نے ہر مسلمان کو اسلامی احکام پر عمل کرنے کا پابند بھی بنا یا ہے،جو شخص یہ حقوق ادا کرتا ہے وہ ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کے زینوں پرچلنے کی سعادت حاصل کرتا ہے ، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘‘ جس نے قسم کھا کر کسی مسلمان آدمی کا حق مارلیا اللہ تعالیٰ اس پر جہنم واجب کردیتے ہیں ’’ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘خواہ معمولی سا ہی ہو’’ آپ نے ارشاد فرمایا ‘‘خواہ پلیوں کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو ’’ ایک بارآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے پوچھا ‘‘ جانتے ہو مفلس کون ہے’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا مفلس تو وہی ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہو، دنیا کا مال متاع نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز ، روزہ اور زکوٰۃ جیسے اعمال تو لے کر آئے گا مگر لیکن کسی کو گالی دی ہوگی ، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کو مارا ہوگا ، چنانچہ اس کی نیکیاں حقداروں میں تقسیم کردی جائیں گی اور اگر حقدار پھر بھی باقی رہ گئے تو حقداروں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے ، آخر کار وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا ’’ ( مسلم) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)
19 نومبر، 2015 بشکریہ : اخبار مشرق ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-teachings-human-rights-current/d/105336