New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 12:57 PM

Urdu Section ( 19 Jan 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Divine Connection تعلق باللہ

 

 

 

امین ولینی

15جنوری 2016

پانی کے ایک چھوٹے سے قطرے میں ایک سمندر کے تمام راز مضمر ہوتے ہیں۔ چاول کا ایک چھوٹا سا دانا ہمیں پورے برتن کے کھانے کا ذائقہ دیتا ہے، اور گندم کے چند دانوں سے ایک بڑے بوریے میں موجود گندم کے معیار کی طرف اشارہ ملتا ہے۔

اسی طرح ایک ہی جان سے پیدا کیے گئے تمام انسان زمین پر اللہ کے جا نشین اور تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ لیس ہیں۔ انسانی سطح پر تمام الہی صفات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اپنی شخصیت کو اللہ عز و جل کی صفات سے مزین کرو" لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ اس حقیقت سے غافل ہیں۔

ایک استاد نے ایک بار اپنے طالب علموں سے پوچھا کہ تم میں سے کس نے خدا کو دیکھا ہے۔ اس سوال پر تمام طلباء دنگ رہ گئے؛ پوری درسگاہ میں خاموشی چھا گئی اور طلباء ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ رہے تھے اور کسی سے بھی کوئی جواب نہ بن سکا۔ آخر میں، ایک طالب علم نے سوال کا جواب دینے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھایا۔ اس نے کہا کہ "میں نے خدا کو دیکھا ہے۔" اس پر استاد نے پوچھا کہاں، تو اس نے جوب دیا کہ ‘‘ہر جگہ’’ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے "تم جہاں کہیں بھی رہو وہ تمہارے کے ساتھ ہے............."۔(57:4)۔

فطرت اور تمام زندہ مخلوقات ہماری ہمدردی کے طالب ہیں۔

ہم خدا کے ساتھ ہیں۔ وہ خود کو صاحب بصیرت آنکھوں اور متفکر ذہنوں میں ظاہر کرتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی پیدائش، انسانی جنین کا ارتقاء، انسانی خون کی سرگرمیاں، دل کی طرح اندرونی اعضاء کااز خود کام کرنا اور اندرونی اور بیرونی زخموں کی مرمت کرنے کی صلاحیت وغیرہ جیسی ہمارے ارد گرد کی متعدد نشانیاں اس کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ پورا نظام قدرت اس کی عظمت کی گواہی دیتا ہے۔

اللہ عز و جل کے ساتھ ہمارے تعلق کا موازنہ پاور ہاؤس کے ساتھ منسلک ایک برقی روشنی کے بلب سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ بلب جو ہر رات ہمارے گھروں کو روشن کرتا ہے تاروں کے ذریعہ بجلی کے کھمبے اور پھر پاور ہاؤس کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر بلب میں 100 واٹ کی صلاحیت ہے تو وہ زیادہ روشنی کرے گا جبکہ کم واٹ والے بلب میں روشنی دھیمی ہوگی۔

وہ شفاف یا نیم شفاف کانچ کا بنا ہوا ہوتا ہے جس میں باریک تار ہوتے ہیں اور جب اسے جوڑا جاتا ہے تو روشنی ہوتی ہے۔ بلب کی کانچ پر دھول ہو تو وہ اس کی چمک پر اثر انداز ہوگا ایک صاف بلب کی روشنی زیادہ چمک دار ہوگی۔ خراب یا ٹوٹے ہوے بلب سے روشنی کا اخراج نہیں ہوتا ہے؛ بلب خراب اس وقت ہوتا ہے جب اس کا اندرونی تار ٹوٹ جائے یا جب اس کی سطح پر ایک چھوٹا سا سوراخ ہو جائے۔ بلب کے ارد گرد رکھی گئی چمکداراور دیگر آرائشی اشیاء اس کی چمک کو بڑھا دیتی ہیں۔ اسی طرح جس ساکٹ سے بلب لگا ہوا ہے اگر خراب ہو جائے تو اس سے بلب کی روشنی بھی ختم ہو جاتی ہے۔

اس مثال کا انطباق انسان کی شخصیت پر کیا جا سکتا ہے جن کا جسم تو گوشت سے بنا ہے لیکن وہ روحانی طور پر اللہ کے ساتھ منسلک ہے۔ جو شخص تعلق باللہ کی طاقت کا ادراک کر لے وہ دوسروں کے لئے بھی اس راستے کو روشن کر سکتا ہے۔ تعلق باللہ کو مضبوط کرنے کے لیے انسانوں کو اندر سے باہر تک سراپا خلوص بننے کی ضرورت ہے۔

تمام مذاہب انسانوں کو اپنے وجود کی روحانی بنیاد اور اپنے اندر مضمر خالق کے ساتھ روحانی تعلق کی معرفت حاصل کرنے پر قائل کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کا فرمان ہے۔ "..........اور ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں" (50:16)۔

حضرت آدم علیہ السلام کی کہانی بیان کرتے ہوئے، قرآن مجید کا بیان ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان خدا کی دوسری مخلوقات کا محافظ و نگران ہے، جس کے کندھوں پر زمینی وسائل کی حفاظت کی ذمہ داری ہے۔ اس میں معدنیات، پودھے جانور اور زندگی کے لیے معاون دیگر ماحولیاتی عوامل بھی شامل ہیں۔

لہٰذا ہر انسان کے اوپر سہ جہتی ذمہ داری ہے: یعنی روحانی طور پر خدا کے ساتھ قریبی تعلق استوار کرنا، معاشرے کے ساتھ اور دنیا کے مادی ماحول کے ساتھ ایک تعلق استوار کرنا۔ اسے خدا کے تئیں اور دیگر مخلوقات کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر کے اور اس مادی دنیا کی دیکھ بھال کر کے ان تمام روابط کو مضبوط کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا اسے محافظ و نگہبان بنایا گیا ہے۔

پوری تاریخ انسانیت میں، عرفاء اور دانشوروں نے انسانوں کو اس سہ رخی ذمہ داری کا احساس کرنے پر اس حد تک زور دیا ہے کہ انہوں نے اسے مذہب کی بنیاد شمار کیا ہے۔ اپنی ان ذمہ داریوں کا احساس کر کے انسان نہ صرف یہ کہ اپنی اصل سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ اپنی جسمانی اور روحانی صلاحیتوں کو مسخر کر کے حیران کن کارنامے بھی انجام دیتا ہے۔

ایسا کرنے سے انسانوں کے اندر دوسری مخلوقات کے تئیں ہمدردی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ کسی بھی حادثات کی صورت میں وہ خود کو ذمہ دار محسوس کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی وجہ سے انسان کے دل میں معاشرے کے تئیں ہمدردی، مہربانی اور نرم گوشہ تیار ہوتا ہے اور وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنے علم اور دیگر مادی وسائل کے ذریعہ اپنا تعاون پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے اقدار کو عملی سانچے میں ڈھالتا ہے اور اقدار کی خلاف ورزی کی صورت میں اپنی آواز بلند کرتا ہے۔

اس وقت ہم متعدد چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روز بروز ہمارے ارد گرد ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ خطرے سے دوچار جانوروں کو پکڑا جا رہا ہے ان کی تسکری کی جا رہی ہے یا انہیں ہلاک کیا رہا ہے۔ اسلام بے یار و مددگار مخلوقات کا شکار کرنے کی سختی کے ساتھ مذمت کرتا ہے۔ در اصل اسلام ہمیں اس روئے زمین پر جاندار مخلوقات کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔

ہمیں ‘مخلوقات کا تاج’ بنیا گیا ہے؛ ایک انسان کی حیثیت سے ہمارا کردار اور ہماری ذمہ داریاں پوری دنیا اور اس کی خوبصورتی کی حفاظت کرنے اور اسے تحفظ فراہم کرنے پر مشتمل ہے۔ تمام جاندار مخلوقات اور نظام قدرت کو ہماری ہمدردی کی ضرورت ہے۔ اس پیغام کو ہمارے اسکول کے نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے، اور میڈیا کو ہمیں یہ یاد دلانا چاہئے۔

امین ولینی مذہب میں دلچسپی رکھنے والے ایک ماہر تعلیمات ہیں۔

ماخذ:

The Dawn, Karachi

URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/divine-connection/d/106003

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/divine-connection-/d/106050

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..