سراج نقوی
24جنوری، 2025
جس دن ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے 47 ویں صدر کے طور پر کیپٹل بلڈنگ میں حلف لے رہے تھے اسی دن یعنی 20جنوری کوامریکہ کے سام پارکر سینیٹ نے اپنی ایک پوسٹ میں اس تبدیلی پربہت اہم اورمعنی خیز تبصرہ کیا۔ سام پارکر نے لکھا کہ ہرچار سال بعد افتتاحی تقریب کے روز ہم امریکی اسرائیل سے اسرائیل کو اقتدار کی پرامن منتقلی کا جشن مناتے ہیں۔ سام پارکر کئی اہم سفارتی عہدوں پر فائز رہے ہیں اور بین الاقوامی امور پر کافی گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کا مذکورہ تبصرہ امریکہ کی اسرائیل نوازی کی پول کھولتاہے۔ حقیقت یہی ہے کہ امریکہ میں اقتدار خواہ ریپبلکن پارٹی کے پاس ہویا ڈیموکریٹس کی حکمرانی ہو، لیکن بہر صورت اسرائیل نوازی ہر امریکی صدر کی پالیس کا اہم حصہ ہوتی ہے اور اسرائیل وحماس کے درمیان جنگ بندی کا کریڈٹ لیکر خود کو امن پسند ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں تب بھی حقیقت صرف یہی ہے کہ اسرائیل کا امریکہ کا دبدبہ کم ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔سام پارکر کے مذکورہ تبصرے کو جسے گہرا طنز کہنا زیادہ مناسب ہوگا اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے۔
دراصل حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کو ٹرمپ کی کامیابی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس لئے کہ خود ٹرمپ نے اپنی حلف برادری کے بعدکی گئی اپنی نصف گھنٹے کی تقریر میں زور دیکر یہ بات کہی کہ ’میری قابل فخر وراثت ایک امن قائم کرنے والے اور اتحاد پیدا کرنے والے کے طور پر ہوگی اور وہ یہی بننا چاہتے ہیں‘۔ اپنی تقریر میں ٹرمپ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمال کی رہائی پربھی اظہار مسرت کیا۔
ٹرمپ کی یہ مبینہ وراثت کتنی دیر پا ثابت ہوگی یہ تو وقت بتائے گا لیکن فی الحال حماس اور اسرائیل کے درمیان جو جنگ بندی ہوئی اس پر کئی سوالیہ نشان خود’دشمن امن‘ نتن یاہو نے لگا دیئے ہیں۔ دوسری طرف ایران کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اس جنگ بندی پر حماس کی مضبوط مقاومت کے نتیجے میں راضی ہوا ہے۔ واضح رہے کہ نتن یاہونے جنگ بندی شروع ہونے سے قبل اسے عارضی جنگ بندی قرار دیا تھا او رکہا تھا کہ اگر جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ بے نتیجہ رہا تو اسرائیل دوبارہ جنگ شروع کرسکتاہے۔ حالانکہ نتن یاہو نے جو کچھ کہا اس کے پیچھے کا سچ یہ ہے کہ اسرائیل میں حالات اس قدر خراب ہوچکے تھے کہ جنگ بندی پر رضا مند نہ ہونے کی صورت میں نتن یاہو کو اقتدار چھوڑنے کے لئے مجبور ہونا پڑسکتا تھا۔ یہ درست ہے کہ حماس یا فلسطینیوں کواس جنگ میں عام شہریوں کی بڑ ے پیمانے پر قربانی دینی پڑی، لیکن اگر دفاعی اعتبار سے اس جنگ میں ہونے والے نقصان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسرائیل کو اس جنگ میں بڑے پیمانے پرنقصان اٹھانا پڑا۔ اسرائیلی وزیراعظم کو شاید تاریخ میں پہلی مرتبہ بنکر میں پناہ لینی پڑی اور حماس کی مدد کر رہے حزب اللہ نے ہی اسے ناکوں چنے چبوا دیئے۔ دوسری طرف حماس کا چند ماہ میں قلع قمع کرنے کادعویٰ کرنے والے اسرائیل کو جنگ کے تقریباً پندرہ ماہ بعد بھی حماس کے سامنے جھک کر جنگ بندی کے لئے مجبو ر ہونا پڑا۔ اسرائیل کی اس جنگ میں غیر اعلانیہ شکست کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ جنگ بندی معاہدہ پر عمل درآمد سے چندرو ز قبل غالباً 15جنوری کو اسرائیل کے موقر اخبار ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ میں شائع ایک مضمون کی سرخی تھی کہ، ’پہلی مرتبہ اسرائیل ایک جنگ ہار گیا‘۔ حالانکہ یہ بات پوری طرح درست اس لیے نہیں ہے کہ 2006 میں اسرائیل اور حز ب اللہ کے درمیان ٹکراؤ کے بعد بھی اسرائیلی فوج کے اس وقت کے کمانڈر نے قبول کیا تھا کہ ہم جنگ ہار گئے۔ ایرانی میڈیا نے بھی اس جنگ بندی کو اسرائیل کی سب سے بڑی شکست قرار دیا ہے۔ اسرائیل حماس سے موجودہ جنگ ہار گیا ہے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خود اسرائیلی فوج نے حکومت سے کہا تھاکہ اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کا واحد راستہ جنگ بندی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیل کو پہلے مرحلے میں فلسطین کے 90 قیدیوں کو رہا کرنا پڑاہے، جب کہ حماس نے تین اسرائیلی خواتین کو رہا کیا ہے۔ حماس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ جنگ بندی کی شرائط پر عمل کرے گا لیکن اگر اسرائیل نے اس کی خلاف ورزی کی تو جنگ دوبارہ بھی شروع ہوسکتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ جنگ بندی کے باوجود حماس اسرائیل کے سامنے جھکا نہیں ہے۔ دوسری طرف ایران نے اس جنگ بندی پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ’ایکس آف ریزسٹینس‘ نے اسرائیل کو جھکا یا ہے۔واضح رہے کہ اس ’ریزسٹینس‘ میں حماس، لبنان کا حزب اللہ یمن کے حوثی اور عراق وشام کے مسلح گروپ شامل ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں حماس سے ہوئی جنگ بندی سے قبل اسرائیل کوحزب اللہ کے سامنے جھکتے ہوئے جنگ بندی کرنی پڑی تھی اور یمن کے حوثی آج بھی اسرائیل کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ لیکن سب سے اہم رول بہر حال حماس کا ہی ہے کہ جس نے تمام تر مشکلات اور اسرائیل مظالم کے باوجود جنگ میں خود کو کمزور نہیں پڑنے دیا اور اپنے عوام کا حوصلہ پست نہیں ہونے دیا۔ حماس نے اس جنگ میں مدد کے لیے ایران کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ ایرانی میڈیا نے اس جنگ بندی پر جس طرح کے تبصرے کیے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ایرانی قیادت اس جنگ بندی کو کس طرح دیکھتی ہے۔
جہاں تک امریکہ کے نئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اپنی حلقہ برداری تقریب میں دیئے گئے اس بیان کا تعلق ہے کہ جس میں انہوں نے خود کو امن پسند ثابت کرنے کی کوشش کی ہے تو اسے ان کے بڑبولے پن کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہ اگر وہ واقعی امن پسند ہوتے تو حماس کویہ دھمکی نہ دیتے کہ ’اگر حماس نے یرغمالوں کو رہا نہیں کیا تو اسے اس کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔‘ اب یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کے ذریعہ 90 فلسطینیوں کے رہا ئی کے بدلے میں حماس کے ذریعہ 3 اسرائیلی خواتین کی رہائی اپنے آپ میں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ٹرمپ کی دھمکی سے حماس کتنا متاثر ہوا اور اسرائیل پر ٹرمپ کے دباؤ کا کتنااثرپڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ جس جنگ بندی کو اپنی سفارت کاری کی کامیابی کے طور پر دیکھ رہے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش رخصت پذیرا مریکی صدر جوبائڈن بھی کررہے ہیں۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان یہ جنگ بندی کتنی دیر پا ثابت ہوگی اس پرابھی کچھ کہنا جلد بازی ہوگی، لیکن اس جنگ بندی نے دنیا کوبالخصوص یوروپ کو یہ احساس ضرور کرادیاہے کہ اب حماس یا فلسطینی مزاحمت اتنی کمزور نہیں کہ اسے ’امریکہ او ریوروپ طاقت کے بل پر دباسکیں۔ اس جنگ کے متعلق پالیسی پر جرمنی میں حکمراں جماعت کو چند ماہ پہلے اقتدار سے ہاتھ دھوناپڑا تھا، لیکن اب جب کہ جنگ بندی ہوچکی ہے تو یہ مان لیناغلط ہوگاکہ فلسطین کی آزادی کا سوال اس کے نتیجے میں معرض التواء میں چلا گیاہے۔ بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ فلسطینی سرزمین میں یہودیوں کو بسانے او راپنی ہی زمین سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کیلئے ذمہ دار برطانیہ میں بھی جنگ بندی کے بعد فلسطین کو تسلیم کرنے کے لئے دباؤئبڑھ گیا ہے۔ برطانوی پارلیمانی کمیٹی نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ فلسطین کو تسلیم کرنے کے لئے کسی شیڈول کا اعلان کرے۔ برطانوی پارلیمنٹ کی بین الاقوامی کمیٹی نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ مطالبہ کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ’فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا مستقل او رپائیدار امن کے لیے ضروری ہے‘۔ یہاں یہ یاد دلانابھی ضروری ہے کہ گزشتہ برس مئی میں ناروے، آئرلینڈ او راسپین نے حماس اسرائیل جنگ میں اسرائیل کے خلاف ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔یہ تمام حالات بتاتے ہیں کہ حماس کی اس جنگ میں پیش کی گئی قربانیاں رائیگا نہیں گئی ہیں۔ ان حالات میں اگر امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ بھی اپنی اسرائیل نوازی پر قائم رہتی ہے، جس کا خدشہ سام پارکرنے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں ایک طنز کی شکل میں ظاہر کیا ہے تو امریکہ کو اور خود ٹرمپ کو اس کی بڑی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔
24 جنوری،2025، بشکریہ:انقلاب،نئی دہلی
---------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/america-israel-ceasefire/d/134445
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism