عمار احمد
21 مارچ 2014
مسلم دنیا میں اسلام کے نام پر جو افراتفری اور تشدد کے واقعات رو نماں ہو رہے ہیں ان کے پیش نظر تھوڑی دیر کے لیے رک کر ہمیں ان مسائل کی اصل بنیاد کا اندازہ لگانا چاہئے۔ (I)کیا یہ سچ نہیں ہے کہ کچھ مسلمان غیر مسلموں کے خلاف پرتشدد جہاد پر یقین رکھتے ہیں، (II) ان مسلمانوں پر کفر کا اطلاق کرنے میں یقین رکھتے ہیں جو ان کی مذہبی تشریح سے اختلاف کرتے ہیں (iii)اور یہ مانتے ہیں کہ ارتداد یا توہین رسالت کی سزا موت ہے؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا ضروری کہ اس قسم کے عقائد بہت سے تنازعات کی جڑ ہیں۔ ہمیں اس بات سے انکار نہیں کرنا چاہئے کہ یہ نام نہاد "اسلامی" عقائد آج تشدد اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ ضرور قبول کرنا چاہیے کہ پوری تاریخ میں متعدد دینی علماء کا اس قسم کے پرتشدد نظریات پر ایمان رہا ہے۔
بہت سارے حمایتی یہ کہتے ہیں کہ "جہاد" کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے اس کا حق کسی فرد کو حاصل نہیں ہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ توہین رسالت کے قوانین بھی حق بجانب ہیں بشرطیکہ اس کا نفاذ "صحیح طریقے" سے کیا جا ئے۔ اور وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ علماء یا پارلیمانوں کی کونسلوں کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ فلاں شخص"حقیقی" مسلمان ہے یا نہیں۔ کیا انہیں اس بات کا احساس ہے کہ اس کی اسلام میں کوئی بنیاد نہیں ہے اور اس قسم کے معتقدات اور تصورات معاشرے میں تباہی کے اسباب پیدا کرتے ہیں؟ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ریاست سے حمایت یافتہ ‘‘جہاد’’، توہین رسالت کے قوانین کا ‘‘صحیح’’ طریقے سے انطباق اور "پارلیمنٹ سے تصدیق یافتہ" مسلمانوں نے پاکستان کا کیا حال کر دیا ہے؟
اس سے ان علماء کو کوئی فرق نہیں پڑتا جن کے بیکار نظریات بنیادی طور پر اس قرآنی پیغام کے خلاف ہیں: "دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے" (2:256)۔ اس کے علاوہ، اگر چہ یہ تمام علماء خود کبھی بھی پر تشدد سرگرمیوں میں ملوث نہ رہے ہوں لیکن ان کے صرف یہی اصول و معتقدات قابل نفرت اور نظریاتی دہشت گردی ہیں۔ شام، افغانستان، پاکستان، یمن اور سب صحارا افریقہ (بوکو حرام) جیسے تمام مسلم ممالک کے موجودہ سیاسی اتھل پتھل میں اس قسم کے نام نہاد علماء سے متأثر پاگل لوگوں کی وجہ سے پڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
اگر مسلمانوں کو کبھی بھی کوئی الجھن پیش آئی ہوتی تو وہ ضرور اس بات کا اندازہ لگا لیتے کہ پرتشدد جہاد کا نظریہ آج اسلامی تعلیمات کی ایک سنگین خلاف ورزی ہے اور یہ کہ ارتداد یا توہین رسالت کی سزا دینا صرف خدا کا کام ہے اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ مذہبی اختلافات کی وجہ سے وہ کسی مسلمان کو کافر کہے۔ انہیں یہ ماننا ہوگا کہ اپنا دفاع اور مذہب کا تحفظ ہی اسلام کی ابتدائی جنگوں کی ایک واحد دلیل تھی۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آج کی صورت حال مکمل طور پر مختلف ہے اس لیے کہ غیر مسلموں کی اکثریت والے ممالک مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتے ہیں۔
آج مسلمانوں کے تمام فرقے ہندوستان، امریکہ اور یہاں تک کہ اسرائیل جیسی ریاستوں میں عبادت کر سکتے ہیں اپنے مذہب کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں۔ کیا کسی کو اس المیہ کا احساس ہے کہ سعودی عرب، ایران اور پاکستان جیسے نام نہاد اسلامی ممالک ان برائیوں سے آزاد نہیں ہیں جہاں ایک فرقے کے متشدد لوگ دوسرے فرقے کو مات دینا چاہتے ہیں؟ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی اصلاح اور سب کے لیے بہتر کرنا چاہتے ہیں اکثر وہی لوگ مذہبی تشدد کا ہدف سب سے پہلے بنتے ہیں۔ 19ویں صدی کے وسط میں جدید تعلیم کو فروغ دینے کے لئے سر سید خان کو انہیں حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جناح کو حزب اختلاف کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لئے آئین اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ احمدیہ کمیونٹی کے بانی مرزا غلام احمد کو ایسے ہی معتقدات کی اصلاح کرنے کی کوشش کے لئے خطرناک فتووں کا سامنا کرنا پڑا۔
جب تک مسلمان خطرناک عقائد کے حامل علماء کے خلاف سختی کے ساتھ آواز نہیں اٹھاتے اس وقت تک اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت امن پسند ہے۔ یہ قبول کئے بغیر کہ اسلام میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جو لوگ دین کے معاملے میں جبر و اکراہ کا سہارا لیتے ہیں ان کی مذمت کے بغیر اسلامی دنیا کی کوئی امید نہیں ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
http://pakteahouse۔net/2014/03/21/muslims-need-to-re-evaluate-their-interpretations-and-ulema/comment-page-2/
URL for ENGLISH article:
https://newageislam.com/islamic-society/muslims-need-re-evaluate-their/d/66563
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-need-re-evaluate-their/d/66606