علامہ رحمت اللہ طارق
قرآن حکیم اور فقہا کی سوچ میں حریفانہ چپقلش دیرنہ ہے۔ قرآن اپنے کہے کو تضاد سےبالا تر ٹھہراتا ہے ۔ جب کہ فقہا اس معاملہ میں اپنی حکمرانی جتلانے کےلئے پہلوانی کے گر آزماتے رہے ہیں مثلاً ۔
(1) قرآن فرماتا ہے کہ أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ( 17:47۔25:8) کافر کہتے ہیں کہ اے مسلمانو! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ‘‘ جادو کے مارے ایک انسان کے پیچھے چل پڑے ہو؟ ۔ حالانکہ جادو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا اثر انداز ہوتا، وہ تو عام انسان پر بھی اثر انداز نہیں ہوسکتا ۔ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ ( 20:69) جادو والا جتنابھی زور لگائے کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ لیکن فقیہان شہر کہتے ہیں کہ لبید بن اعصم یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرجادوکیا اس کی تاثیر اتنی طاقتور تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دماغ مختل ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھ ماہ لگ بھگ دماغ رفتہ ہے ، حتیٰ کہ بیویوں سے مقاربت کرتے تو بھول جاتے کہ مقاربت ہوئی بھی ہے یا نہیں ( بخاری)
(2) فرمایا تم میں جو مالدار ہیں وہ والدین اور دوسرے نادار وارثوں کے لئے وصیت کو فرض سمجھ کر کریں ( البقرہ : 180) یعنی کمزور ورثا کے لئے وصیت کرنا فرض ہے۔ مگر حریفان قرآن کہتےہیں لا وصیۃ لوارث ۔ وارث کے حق میں وصیت جائز ہی نہیں ۔
(3) قرآن کریم فرماتا ہے وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ یہ لوگ تمہارے قبلہ (مکہ) کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا تم بھی ان کے قبلہ ( بیت المقدس) کو مرکز سجدہ نہ بنا ؤ ( البقرہ :145) لیکن فقہا کہتے ہیں کہ آپ یہودیوں کی خوشنودی اور دلجوئی کے لئے غالباً چھ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرتے رہے ۔ وہی قبلہ اول ہے۔
(4) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کی دلجوئی کے لئے ان کے بڑے بتوں کی تعریف بھی کی تھی جب کہ فرمان الہٰی ہے کہ وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ( 2:120)یہ یہود اور نصاریٰ جب تک آپ ان کے ملت کے پیرکار نہیں بنیں گے تم سے ہر گز راضی نہ ہوں گے ۔ لیکن ہمارے اکابر کہتےہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لئے لات و عزیٰ اور مناۃ کا نام لے کر فرمایا ۔ تلک الغرانیق العلے و ان شفا عتھن لتر تجی ۔ بلا شبہ یہ قد آوربت جولات و مناۃ و عزیٰ کے نام سے شہر ت رکھتے ہیں ، صاحب شفاعت ہیں ۔ اللہ ان کے کہے کہ رد نہیں کرتا ۔ ( ابن حجر)
(5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صاحبِ قرآن تھے جس میں ہے کہ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ ( 4:3) شادی اس سے کرو جو تمہاری جنسی تسکین کے لئے موزوں ہو۔ طالب کے معنےٰ خوشگوار ، اچھی لگنے والی اور موزوں کے ہیں ۔
جب کہ کم سن بچی جنس کا شعور نہیں رکھتی لہٰذا جنسی تسکین کے لئے موزوں نہیں ہوسکتی ۔ طالب کا قرینہ اس کی نفی کرتا ہے ۔ یعنی کہ نابالغ بچی سے شادی نہیں ہوسکتی ۔ لیکن حلالہ اور متع کرنے والے کہتےہیں کہ چھ سال اور نوسال کی عمر میں بچی بیاہی جاسکتی ہے۔
(6) اسی طرح ایک بھاری بھر کم چپقلش یہ بھی ہے کہ اللہ سبحانہ نے زنا کا ر مرد اور زنا کار عورت کی سزا سو درّے مقرر کی ہے اور یہ فرق نہیں رکھاکہ ان میں جو شادی شدہ ہے اس کی سزا موت ہے، جب کہ حیاتیاتی نقطہ نظر سے زنا کسی بھی فرد سے ہو نوعیت میں فرق نہیں ہوتا ۔ لیکن حریفان قرآن کہتے ہیں الشیخ و الشیخۃ اذازنیا فار جموھما ۔ عمر رسیدہ مرد او رعمر رسیدہ عورت سے زنا سر زد ہوتو دونوں کی سزا سنگساری ہے۔ جب کہ اتنے سے الفاظ سے نہ سنگساری کشید ہو سکتی ہے او رنہ ثابت ! کیونکہ تمام ادبیات عرب میں الشیخ کے معنی کے معنی شادی شدہ مرد اور الشیخہ کے معنی شادی شدہ عورت کے کہیں بھی نہیں لکھے ۔ نہ محاورات میں نہ ضرب الامثال میں ، نہ اشعار میں نہ ادبیات میں ۔ ایسے میں قرآن کا راستہ روکنے کے لئے من گھڑت لغت او رمن گھڑت معانی تراشنا ڈھٹائی تو ہوسکتی ہے ، کسی ہوشمند کے فکر کا حصہ نہیں ہوسکتی ، نہ یہ کہ اس دھاند لی کو زمانہ سابق میں محسوس کیا گیا ہے ۔ ز مانہ حال کے طالبان قرآن نے اس کے بوگس ہونے کو نیز عقل و شعور کے خلاف قرار دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ جناب چو ہدری محمد اقبال صاحب کی غیرت ایمانی جوش میں آئی انہوں نے اس وحشیانہ سزا کے خلاف ( 1979ء) لاہور شریعت بنچ میں درخواست پیش کی جو تین سال کے عرصہ میں مختلف عدالتوں سے ہوتے ہوئے ( 1981ء)میں حسر تناک انجام کو پہنچی چوہدری محمد اقبال صاحب کے طویل سفر کا جو انجام ہو ا وہ صوت الحق میں ان کی زبانی معلوم ہو چکا اور حقیقت ہے کہ موصوف جس بسالت اور جرأت سے حریفان قرآن کے سامنے سینہ سپر ہوئے وہ اپنی مثال ہے ۔ جزاہ اللہ خیر الجز ء اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خس کے متعفن تالاب میں سب سے پہلے راقم ہی نہ پتھر پھینکا جس سے تالاب میں ارتعاش پیدا ہوا، جس سے سطح آب پر بدبو دار خس و خاشاک میں بے چینی پیدا ہوئی مگروہ بےسکت تھی کہ سطحی چیزوں میں سکت ہوتی ہی نہیں غرضے کہ اس قرآن شکن واردات کی مخالفت کا محرک میں ہی تھا ( 59۔57 م) میں نے مکہ مکرمہ میں منسوخ القرآن کے عنوان سے ایک تفسیر لکھی جو آج بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے ۔ اس ضخیم تحقیق کا بروقت تو کسی کو احساس نہیں ہوا لیکن چند سال بعد جماعت اسلامی نے ایک سیاسی وجہ کو سامنے رکھ کر ملک بھر میں شور مچانا شروع کردیا، انہی دنوں کوئٹہ سے مرحوم غلام کبریا ترگانی (عرائض نویس) جو ایک زبردست سکالر تھے مجھے بلوالیا ۔ او رپہلے سے جسٹس ذکااللہ لودھی سے رجم کے بارے میں بات کرچکے تھے ۔ چنانچہ لودھی صاحب نے پہلے ہی پر تکلف ملاقات میں کبریا صاحب کو اشارہ دیا جس پرمرحوم نے شریعت بنچ کو متوجہ کیا 1977 کی کسی تاریخ کو عدالت نے احقر کو یاد فرمایا ۔ ادھر ان ہی دنوں امیر المومنین ضیا الحق نے ، ادیبوں ، شاعروں ، صحافیوں اور طلباء اور سیاسی لیڈروں کو ٹارچر سیلوں میں بند کروایا اور ناچیز راقم الحروف کو بھی اپنی نظر کرم کا مستحق جانا ۔ میرے وکلاء نے عدالت کو مطلع فرمایا کہ وہ تو پس دیوار زنداں محبوس ہے لہٰذا حاضرہونے سے قاصر ہے۔
اس کےبعد ( 1981ء) تک مجھے کچھ معلوم نہ ہوسکا میری جب ضمانت ہوئی تو وکلاء نےکہا آپ نکل جائیں ورنہ تو یہ جو چار وزارتیں لئےبیٹھے ہیں ان کے کارکن بار بار تمہیں کچہری کی ہوا کھلاتے رہیں گے ۔ چنانچہ میں مدینہ منورہ چلا گیا ۔ وہاں تفسیر برہان القرآن لکھی جب امیر المومنین کی آسمانی موت ہوئی تو میں واپس گھر پہنچا ۔ یہ یاد ہے کہ دوستوں نے قرضہ کی سہولت فراہم کی میں نے برہان القرآن جو کہ 1019 صفحات پر مشتمل ہے شائع کردی اس میں بھی حریفان قرآن کےجوابات فراہم کئے اپنے دفاع قرآن کا مشن جاری کیا ۔ مدینہ منورہ میں رہائش کے دوران محترم قاضی کفایت اللہ نے بتایا کہ ۔ جماعت کی واویلا پر امیر المومنین نے کیس کی سماعت کے جسٹس آفتا ب کو مامور کیا، جسٹس موصوف نے میرے مأخذ کو درست قرار دیتے ہوئے رجم کو قرآنی حکم تسلیم تو نہیں کیا البتہ اسے تعزیری سزا بنانے کی تجویز دی لیکن اس پر بھی مخالفت کا طوفان نہیں تھما اور امیر المومنین نے فیصلہ اٹھا کر سپریم کورٹ کو بھجوا دیا ۔ سپریم کورٹ نے تمام مواد مطالعہ کر کے امیر المومنین کو اشارہ دیا کہ اسے جسٹس آفتا ب کو نظرثانی کے لئے کہا جائے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا جس پر جسٹس موصوف و مرحوم نے نظر ثانی کے بجائے استعفیٰ بھجوادیا ۔ ا س کے بعد دو چار مولوی ٹائپ کے اشخاص پر مشتمل وفاقی شرعی عدالت کے نام نیا بنچ تشکیل دیا جس کے سربراہ تقی عثمانی صاحب بنا دیئے گئے ۔ یعنی قرآن کے حریفوں کے ہاتھوں قرآن مظلوم کی کھال ادھیڑ ڈالی گئی ۔اب اگر چہ مولانوں اور سرکاری ایجنسیوں کو جناب محمد اقبال صاحب نے گھر پہنچا دیا ہے تاہم ان پر واضح ہوکہ میں نے دفاع قرآن میں اپنا ‘‘مچان’’ بہت اونچا تعمیر کیا تھا اور قرآنی حریفوں کو بڑی آسانی سے ٹارگٹ بنا سکتا تھا یہ خود ستائی نہیں تائید ا یزدی کا تذکرہ ہے اور اس طرح 1974ء سے لے کر 1981 تک سنگساری کی دیواریں گرانے میں میرا ہی کردار تھا او ربحمد اللہ کہ انہی دنو ں مولانا امین احن اصلاحی او رعلامہ عمر احمد عثمانی نے بھی کھل کر رجم کی نفی کی ثم الحمدللہ۔
سنگساری حیوانی کلچر : یہاں احباب پر روشن ہو کہ میرے نزدیک سنگساری ایک وحشیانہ سزا ہے۔ حافظ ابن حجر 1449ء م نے فتح الباری کی 12 ویں جلد میں ایک اصحابی کے حوالے سے لکھا ہے وہ کہتےہیں ۔ میں بکریاں چراتے کسی ٹیلے پر کھڑا نگرانی کررہا تھا کہ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ‘‘ بندریا’’ کولے کرجھاڑی کی اوٹ میں سوگیا ، بندریا نے اپنی ران سرہانے کے طور پر اس کے سر تلے دے دی اور خراٹے بھرنے لگا۔ اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک اور ‘‘ جواں سال ’’ بندر آیا اور عمزھا بندریا کو آنکھ ماری ، یعنی آنکھ کے اشارے سے اسے اپنی طرف بلالیا بندریا نے اپنی ‘‘ ران’’ کھسکا نے کے ساتھ ہی بڑے پتھر کو اس کا سرہانہ بنا دیا ۔ اب بندر اور بندریا جب اپنے جنسی شوق کی تکمیل کے بعد فارغ ہوگئے اور بندریا پتھر ہٹا کر پہلے کی طرح اپنے شوہر کا سرہانہ اپنی ران کو بنانے لگی تو بندری کی آنکھ کھل گئی اور اس نے اٹھتے ہی بندریاں کے مقام کو سونگھا اور پھر زور زور سے چیخنے لگا جس پر ڈھیر سارے بندر اکٹھے ہوگئے اور اس کا ماجرا سن کردائیں بائیں بکھر گئے ۔ اور تھوڑی سی دیر کے بعد زانی بندر کو پکڑ کر لائے اور دونوں ہی کو سنگسار کردیا۔ اس کے بعد صحابی کہتا ہے کہ : یہ اصلی بندر نہیں تھے سبت اور دیگر احکامات کی خلاف ورزی کرکے جو بندر مسخ ہوگئے تھے ان ہی کی نسل میں سے تھے ۔ کہ تو رات میں رجم کی سزا دی جاتی تھی ۔ ( فتح الباری)
اس طرح اس واقعہ سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ رجم انسانی سزانہیں حیوانی سزا ہے ، لیکن اب مشکل یہ ہے کہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ مسخ شدہ نسل نہیں چلتی ۔ مسخ ہوتے ہی کالعدم ہوجاتی ہے۔
اگر یہ بات ہے تو کیا اس صحابی سے پندرہ سو سال پہلے مسخ شدہ نسل کی اتنی طویل عمر زندہ رہنے کا کوئی مضبوط قانون ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے تخلیق قوانین مستقل اور غیر متبدل ہیں اور دانشور قرآن کو کونوا قردۃ خاسئین میں خاسئین کے قرینے سے مفہوم لیتے تھے کہ ان کے عادات و خصائل گھٹیا بن چکے تھے ۔ لہٰذا انہیں گھٹیا پن اور گراوٹ کا سمبل کہہ کر شرفا کی سوسائٹی سے الگ کردیا گیا تھا امام رازی ، دانشوران محمد عبدہ اور سرسید علیہ رحمت نےیہی توجیہ بیان کی ہے۔
ناظرین محترم ۔ رجم کے اس واقعہ کو میں نے اصل کتاب میں ذکر نہیں کیا کہ اس سے ایک فرضی یا حقیقی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عقل و شعور کے بارے میں نا گوار تصور ابھر تا تھا جو میری ناقص رائے میں حد ادب سے ماورا تھا ، دیومالا ئی تھا ۔ آخیر میں جناب چوہدری محمد اقبال صاحب کے لئے ڈھیر دعائیں جنہوں نے حریفان قرآ ن کو گھر پہنچا کرد م لیا ۔
جون، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/central-idea-stoning-/d/98269