علامہ ابتسام الہٰی ظہیر
11اگست،2021
متوازن اور صحت مند
معاشرے کے قیام کے لیے دوسروں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
عورت کا ہر روپ ہی قابل تکریم اور لائق محبت ہے۔ عورت ماں کے روپ میں اتنی بلند ہے
کہ باپ بھی اس کی عظمت کا مقابلہ نہیں کرسکتا، عورت بیٹی کی حیثیت سے آنکھوں کی
ٹھنڈک،بہن کی حیثیت سے غیرت کی علامت اور بیوی کی حیثیت سے وہ انسان کے گھر کو
سکون اور زندگی کے سفر میں حوصلہ دینے والی مو نس اور غمخوار ہوتی ہے۔عصری معاشروں
میں عورت کے بہت سے حقوق کا سلب کیا جاتاہے۔ جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں
تو یہاں مختلف اعتبار سے عورت کا استحصال ہوتاہوا دیکھتے ہیں۔ اس استحصال کی چند
صورتیں درج ذیل ہیں:
1۔ بیٹیوں کی ولادت پر افسردگی:
ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ بیٹیوں کی ولادت پر غمزدہ ہوجاتاہے اور بیٹیوں کی
ولادت پر ہی ان کو اپنے لیے بوجھ سمجھنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ رویہ جاہلیت پر مبنی
رویہ ہے اور اس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام
حمید میں کفار کے اس چلن کا ذکر کیا ہے جب انہیں بیٹی کی خبر دی جاتی تھی تو ان کا
چہرہ غم کے ساتھ تاریک ہوجایا کرتاتھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ
نحل کی آیات 58تا 59 میں کچھ یوں فرماتے ہیں۔ ”اور جب خوشخبری دی جائے ان میں سے
کسی ایک کو بیٹی کی (تو) ہوجاتا ہے اس کا چہرہ سیاہ، اس حال میں کہ وہ غم سے بھرا
ہوتا ہے۔ وہ چھپاتا پھرتا ہے قوم سے اس برائی (کی وجہ) سے جس کی اس کو خوشخبری دی
گئی کیا وہ روک رکھے اسے ذلت پر یا گاڑ دے اسے مٹی میں‘ آگاہ رہو بُرا ہے جو وہ
فیصلہ کرتے ہیں“۔
2۔ گھروں میں عدم مساوات: بہت سے گھروں میں بیٹوں کے ساتھ
اچھا سلوک کیا جاتا ہے جب کہ بیٹیوں کو نظر انداز کردیا جاتاہے۔ بیٹوں کے لئے اچھی
خوراک او راچھی تعلیم کا بندوبست کیا جب کہ بیٹیوں کی خوراک اور تعلیم پر سمجھوتا
کرلیا جاتاہے۔والدین کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بیٹوں اور بیٹیوں کے
درمیان مساوات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ بیٹیوں کی اچھی خوراک اور صحت فقط ایک بیٹی
کی صحت نہیں بلکہ مستقبل کی ماں کی صحت بھی ہے۔ بیٹوں کی اعلیٰ تعلیم جہاں پر پیشہ
ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کردار ادا کرتی ہے وہیں پر بیٹیوں کی اچھی
تعلیم ایک پورے گھرانے کی نشو ونما میں کلیدی کردار اداکرتی ہے۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کی بہت زیادہ ترغیب دی ہے۔ اس حوالے سے
دو اہم حدیث درج ذیل ہیں:
(i)۔ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے: انہوں نے
کہا: میرے پاس ایک مسکین عورت آئی جس نے اپنی دو بیٹیاں اٹھائی ہوئی تھیں، میں نے
اس کو تین کھجور یں دیں، اس نے اپنی بچیوں کو ایک ایک کھجور دی، ایک (تیسری بچی
ہوئی) کھجور کھانے کے لئے اپنے منہ کی طرف لے گئی تو وہ بھی اس کی دو بیٹیوں نے
کھانے کے لئے مانگ لی، اس نے وہ کھجور بھی، جو وہ خود کھانا چاہتی تھی، دو حصے
کرکے دونوں بیٹیوں کو دے دی۔ مجھے اس کا یہ کام بہت اچھا لگا۔ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس
(عمل) کی وجہ سے اس کے لیے جنت پکی کردی ہے یا (فرمایا:) اس وجہ سے اسے آگ سے آزاد
کردیا۔
(ii)۔ سلسلہ احادیت صحیح میں حضرت انس ؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی دو بہنیں یا بیٹیاں ہوں، جب تک اس
کے پاس رہیں وہ ان سے اچھا سلوک کرتا رہے، تو وہ اور میں جنت میں اس طرح ساتھ ہوں
گے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا۔
3۔وراثت میں حق تلفی: اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں
بیٹے کے ساتھ ساتھ بیٹی کا بھی وراثت میں حق مقرر کیا ہے لیکن بعض نادان لوگ بیٹی
کے حق کو غصب کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی و صیت کی
مخالفت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وراثت کے اصول و ضوابط کے بیان کے بعد
دوطبقات کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک کامیاب اور دوسرا ناکام ہے۔ اللہ تبارک و
تعالیٰ سورہ نسا کی آیات 13تا 14 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر
کی ہوئی حدیں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ داخل کرے گا اسے
(ایسے) باغات میں (کہ) بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں اور وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ان
میں اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو نافرمانی کرے گا اللہ اور اس کے رسول کی اور
تجاوز کرے گا اس کی حدود سے (تو) وہ داخل کرے گا اسے آگ میں (اور وہ) ہمیشہ رہے گا
اس (آگ) میں اور اس کے لئے رسوا کن عذاب ہے“۔
4۔عورت کی مرضی کے خلاف شادی: اسلام میں جہاں عورت کے ولی
کی رضا مندی کو شادی کے لئے ضروری قرار
دیا ہے، وہیں عورت کی مرضی کے خلاف ا س کی شادی کرنے کی بھی کوئی گنجائش موجود
نہیں ہے۔ ایک درست شادی کے انعقاد کے لئے ولی کی رضا مندی کے ساتھ ساتھ عورت کا
رضا مند ہونا بھی ضروری ہے۔بصورت دیگر عورت کو اس کا نکاح فسخ کروانے کی اجازت بھی
دی گئی ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ حضرت خنساء بنت خذام رضی اللہ
عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی نا پسندیدگی کے باوجود کردیا تھا تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکا ح کو رد (منسوخ) کردیا تھا۔
5۔عورتو ں کے ساتھ گھر یلوں تشدد: بہت سے گھروں میں عورت پر
تشدد کیا جاتا ہے جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام
حمید میں عورت کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ نسا کی
آیت نمبر 19 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور زندگی بسر کرو ان کے ساتھ اچھے طریقے سے
پھر اگر تم ناپسند کرو ان کو تو ہو سکتا ہے کہ تم ناپسندکرو کسی (ایک) چیز کو اور
رکھ دی ہو اللہ نے اس میں (اور) بہت (سی) بھلائی“۔
6۔ ماں کی بے ادبی: بہت سے گھروں میں بڑھاپے کے عالم میں
ماں باپ کی بے ادبی کی جاتی ہے، جو کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ بیوی او ربچوں
کے حقوق کی پاسداری کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ والدین کے ساتھ بے ادبی کی جائے۔
والدین کو اُف تک کہنا بھی درست نہیں ہے۔ والدین کے ساتھ ہر حالت میں حسنِ سلوک
کرنا چاہئے او ران کے ساتھ عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہئے او ران کے لیے دعائے
رحمتکرنی چاہئے۔
7۔ جنسی استحصال: ہمارے معاشرے میں عورت کا جنسی استحصال
بھی کیا جاتارہا ہے جو ہر اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ
نور میں زنا کاروں کے لیے سو کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا۔ جب کہ حدیث طیبہ میں شادی
شدہ زنا کار مرد اور عورت کے لئے سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے۔
8۔پاکدامن عورتوں کی کردا ر کشی: بعض اوقات ہمارے معاشرے
میں پاکدامن عورتوں کی کردار کشی کی جاتی ہے اور ان پر گناہ کے جھوٹے الزامات
لگائے جاتے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے
پاکدامن عورتوں پر تہمت لگانے والوں کے لے اَسی(80) کوڑو ں کی سزا کو مقرر کیا ہے۔
سورہ نور کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوا: ”اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاکدامن عورتوں
پر پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو کوڑے مارو انہیں اَسّی(80) کوڑے او رنہ قبول کرو
ان کی گواہی کو کبھی بھی او روہی لوگ نافرمان ہیں“۔
9۔غیرت کے نام پر قتل: بعض عاقبت نا اندیش لوگ فقط شک کی
بنیاد پر اپنی بہن، بیٹی او ربیوی کو غیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں، یہ لوگ
درحقیقت دین اسلام کی تعلیمات سے ناآشنا ہیں۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو خود اپنی
آنکھوں سے بدکرداری کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ لے، تب بھی اس کو اپنی بیوی کو قتل
کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ ایسی صورت میں لعان کا عمل مکمل کیا جائے گا جس کی
تفصیل سورہ نور کی آیات 6تا 9 میں بیان کی گئی ہے: ”اور وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں
اپنی بیویوں پر او رنہ ہوں ان کے لیے(اس پر) گواہ مگر ان کے نفس (یعنی وہ خود ہی)
تو گواہی ان میں سے (ہر) ایک اللہ کی قسم کے ساتھ چار گواہیاں ہیں کہ بلاشبہ وہ
یقینا سچوں میں سے ہے۔ او رپانچویں (بار یہ کہے) کہ بے شک اللہ کی لعنت ہوں اس پر
اگر وہ جھوٹوں میں سے۔ او رٹال دے گی اس (عورت) سے سزا کو(یہ بات) کہ وہ وگواہی دے
چار گواہیاں اللہ کی قسم کے ساتھ(کہ) بلاشبہ وہ یقینا جھوٹوں میں سے ہے۔ اور
پانچویں بار (عورت یوں کہے) کہ بے شک اللہ کا غضب(نازل) ہو اس (عورت) پر اگر ہو
(مرد) سچوں میں سے“۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غیرت کے نام پر
قتل کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔
کتاب و سنت کے مطالعے کے
بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام نے عورت کو وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں
جو اچھی زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں۔ بعض عناصر کتاب وسنت کے بجائے مغربی طرز
زندگی سے اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کتاب و سنت کی تعلیمات کو
نظر انداز کر دیتی ہیں ایسے طبقات اندھیرے، راستوں کی راہی ہوتے ہیں او رہمیشہ
اپنی منزل سے محروم رہتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو کتاب و سنت کو سمجھنے
او ران میں بیان کردہ نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے، آمین!
11 اگست،2021، بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism