علامہ غلام احمد پرویز
(قائد اعظم محمد علی جناح کے ہم راز اور مذہبی محاذ کے مشیر ے خاص علامہ غلام احمد پرویز صاحب کی ایک شاہکار تحریر قارئین کی خدمت میں پیش ہے)
چارہ این است کہ از عشق کشادے طلبیم پیش اوسجدہ گذاریم و مرادے طلبیم
قرآن کریم میں بیان کردہ قصہ آدم کسی ایک فرد (یا جوڑے) کی داستان نہیں ۔ وہ درحقیقت نوع انسان کی سمٹائی ہوئی تاریخ ہے جسے نہایت و دلکش تمثیل کے پیرایہ میں ، بصیرت افروز و حقیقت کشا انداز سے بیان کیا گیاہے۔اس تمثیل میں آدم او راس کی رفیقہ ، انسان ( مرد اور عورت) کے نمائندے ہیں۔ ملائکہ فطرت کی قوتیں ہیں ۔ جنہیں مسخر کر لینے کی صلاحیت انسان کو ودیعت کردی گئی ہے اور ابلیس اس کی مفاد پرستی کے بے باک جذبات ہیں جو خود اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ شیطان اور ابلیس، ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ شیطان ، انسانی جذبات کی شعلہ مزاجی کامظہر ہے (کہ اس لفظ کے بنیادی معنی یہی ہیں) اور ابلیس، اس افسردگی اور مایوسی کا ترجمان ہے جو ہر اشتعال کا ر دِ عمل ہوتا ہے۔ (ابلیس کے بنیادی معنی مایوسی کے ہیں) ۔ منظر اس داستان کا وہ دور ہے جس میں پہلے پہل انسانی آبادی کی نمود ہوئی تھی ۔ اس دور میں سامان زیست کی عام فراوانی تھی اور تمام انسان (جتنے کچھ بھی وہ تھے) ایک برادری کی حیثیت سے رہتے تھے ۔وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً (19۔10) ۔ ان میں کوئی تفریق و تقسیم نہیں تھی ، کسی قسم کے جھگڑے اور قضیے نہیں تھے ۔ اس لئے کہ وہ لوگ ابھی ‘‘میری اور تیری’’ کی تمیز سے نا آشنا تھے۔ وہ ایک ایسی جنت کی زندگی تھی جس میں کیفیت یہ تھی کہ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا (35۔2) ۔ جس کا جہاں سےجی چاہتا ، پیٹ بھر کر کھا لیتا ۔ اس وقت، ارض ۔۔۔۔۔۔ یعنی ذریعہ پیداوار ۔۔۔۔ کی حیثیت متاع کی تھی ۔ (36۔2) یعنی استعمال کی شئے، جس سے ہر ضرورت مند فائدہ اٹھا سکے لیکن وہ کسی کی ملکیت میں نہ ہو۔ وہ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ (10۔41) یعنی تمام ضرورت مندوں کےلئے یکساں طور پر کھلی ۔ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا (20۔17) ۔ اس وقت خدا کی بے مزدو معاوضہ عطا کردہ بخششوں پرنہ بند باندھے گئے تھے ، نہ پھاٹک کھڑے کئے گئے تھے ۔ نتیجہ اس کا یہ تھا ، کہ اس میں ہر انسان کو اس کا اطمینان حاصل تھاکہ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ ۔ وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ (119۔118۔20)۔ اسے نہ بھوک کا خوف ستا سکتا تھا ،نہ پیاس کا ، نہ لباس کے متعلق کسی قسم کی پریشانی ہوسکتی تھی ، نہ سکونت کے متعلق ۔ اس زندگی میں انسان سے کہہ دیا گیا تھاکہ تم سب ایک خاندان کے افراد ہو اس لئے تم ایک برادری بن کر رہنا ۔ وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ (35۔2) آپس میں مشاجرت اختیار نہ کر لینا۔مشاجرت کے معنی ہیں ان چیزوں کاپھٹ کر الگ الگ ہوجانا جو اصل کے اعتبار سے (شجر کی طرح) ایک ہوں۔
ابلیس کا وسو سہ: آدم اس سکون و اطمینان اور اس وحدت و اشتراک کی زندگی بسر کر رہا تھا کہ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ (120۔20) ۔ اس کے دل میں انفرادی مفاد پرستی کے سرکش جذبات نے انگڑائی لی اور اس کے کان میں یہ افسوں پھونکا کہ تجھے دوسروں کی کیا پڑی ہے تو اپنی اور اپنی اولاد کی پرورش کی فکر کر۔اس وسوسہ شیطانی اور افسوں ابلیسی کا نتیجہ یہ تھا کہ آدم کی وہ وحدت اور برادرانہ اشتراک کی زندگی ختم ہوگئی او راس کی جگہ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔(123۔20) ۔ یعنی باہمی عداوت او رمعاندت کی کیفیت ۔ العدیٰ ، اس لکڑی کو کہتے ہیں جو کسی لکڑی کو پھاڑ کر اس کے دونوں حصوں کے درمیان Wedge کے طور پر دیدی جاتی ہے کہ وہ آپس میں نہ مل سکیں ۔ اس العدیٰ سے،پہلے یہ برادری ،خاندانوں میں تقسیم ہوئی ۔ اور ایک خاندان دوسرے خاندان کا رقیب و حریف بن گیا ۔ جب انفرادی طور پر خاندانوں نے اپنے مفادات کو غیر محفوظ پایا تو چند خاندانوں نے مل کر قبیلہ کی شکل اختیار کرلی ۔ اب ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کے مد مقابل کھڑا ہوگیا ۔ خود لفظ قبیلہ کے معنی ایک دوسرے کے مد مقابل کے ہیں ۔ اس طرح انسان ، اس قدیم زندگی کو چھوڑ کر ، جسے عصر حاضر ، زمانہ قبل از تمدن سے تعبیر کرتا ہے، دور تہذیب و تمدن میں داخل ہوا ۔ جوں جوں یہ اس تہذیبی دور میں آگے بڑھتا گیا ا، اس کی یہ گروہ بندیاں شدت اختیار کرتی گئیں تا کہ اس تقسیم نے قبائل کی جگہ، اقوام ( Nations) کی شکل اختیار کرلی ۔ اسے انسان کی تمدنی زندگی کی معراج قرار دیا جاتا ہے۔
فساد انگیزیاں : اس تمثیل میں، فطرت کی قوتوں (ملائکہ) نے جب انسان کے انفرادی مفاد پرستی کے جذبات اور اس سے پیدا شدہ ‘‘ میری اور تیری’’ کی تفریق پر نگاہ ڈالی تو کہا کہ اس کے ہیولیٰ میں یہ دبی ہوئی چنگاریاں اس حقیقت کی غماز ہیں کہ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (30۔20) ۔ یہ زمین میں فساد برپا کرے گا اور خون بہا ئےگا۔ چنانچہ اس اولین دور کے بعد،انسانیت کی ساری تاریخ (بجز چند لمحات) خون ریزیوں اور فساد انگیزیوں کا عبرتناک مرقع اور جگر خراش داستان ہے، جس میں ایک فرد دوسرے فرد کے ، ایک خاندان دوسرے خاندان کے ، ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ کے، اور ایک قوم دوسری قوم کے سامنے خنجر بدست ( اور اس کے ساتھ ہی کفن بدوش) کھڑی ہے اور یہ سب کا ہے کے لئے ؟ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ (30۔2) ۔ تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے زیادہ اسلب ونہب ( Exploitation) کرسکے او راس طرح پر بالادست ہوجائے۔ قوموں کی اس باہمی سابقت سے انسانیت جہنم سے گذررہی ہے،اس کےمتعلق میں ذرا آگے چل کر عرض کروں گا۔ پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ مفاد پرستیاں ابھریں کیسے؟
فتنے کی بنیاد : زمین، ذریعہ پیداوار ہے، لیکن زمین کی کیفیت یہ ہے کہ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (21۔15) ۔ اس میں زرق کے خزانے مدفون ہیں، لیکن وہ خزانے ایک خاص اندازے او رپیمانے کے مطابق ہی باہر آتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر، زمین سے رزق حاصل کرنے کےلئے محنت درکار ہوتی ہے اور یہ رزق اس محنت کے تناسب سے حاصل ہوتا ہے ۔۔۔۔۔ جنتی زیادہ محنت ، اتنا ہی زیادہ حصول رزق ۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کی مشترکہ مفاد کی زندگی کی جگہ انفرادی مفاد اندوزی نے لی تھی تو اس میں سب سے زیادہ خوشحال اسے ہونا چاہئے تھا جو سب سے زیادہ محنت کرے۔ لیکن ابلیس، یعنی انسان کی عقل فریب کار نے جو اس کے جذبات کی تسکین کے لئے اسباب ذرائع تجویز کرتی اور اس کے ہر اقدام کےلئے وجوہ جواز (Justificatory Reasons) تراشتی ہے، اس کے کان میں پھر افسوں پھونکا، او راس سے کہا کہ میں تمہیں اسی تدبیر بتاتی ہوں جس سےمحنت دوسرے کریں اور تم آرام سے بیٹھے ، سامان زیست سمیٹتے جاؤ ، او راس کے لئے اس نے ذرائع رزق پر ملکیت کا تصور دیا ۔ اس تصور سے ہوس پرست انسان کی خوشی سےباچھیں کھل گئیں ۔ اس نے مختلف حیلہ جوئیوں ، اور فریب انگیزیوں سے زمین پر لکیریں کھینچیں ، او رایک حصہ زمین کو اپنی ملکیت قرار دے کر دوسروں کو اس سے محروم کردیا ۔جب ان محرومین کی ذریعہ رزق تک رسائی نہ رہی، تو وہ مجبور ہوگئے کہ وہ مالکان اراضی کی مرضی کے مطابق محنت کریں اور ان کی دی ہوئی روٹی کھائیں ۔ اس سے دنیا میں بے گار، یعنی غلامی کی لعنت کی بنیاد پڑی ۔ اگر ہوتا کہ یہ محنت کش غلام، جس قدر کھاتے ، اس سے کم ( یا اتنا ہی) پیدا کرتے ، تو یہ نظام زندہ نہ رہ سکتا ۔ لیکن جتنا انہیں دیا جاتا تھا وہ اس سے زیادہ کما کر دیتے تھے۔ اس سے اس نظام کو استحکام حاصل ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ دن نوع انسان کی تاریخ میں سب سے زیادہ منحوس تھا جب ایک مزدور نے اپنے مالک کو اس سے زیادہ کما کر دیا جتنا وہ کھاتا تھا ۔اس سے ابلیسی نظام کو استواری نصیب ہوئی جس میں محنت کوئی کرتا ہے اور اس کا ماحصل کوئی اور لےجاتاہے۔ نوع انسان کی ، خاندانوں ، قبیلوں اور قوموں کی تقسیم تمدنی ،سیاسی نوعیت کی تھی ۔ لیکن اگر آپ بنظر تعمق دیکھیں ، تو یہ حقیقت نمایاں طور پر سامنے آجائے گی کہ بنیادی طور پر انسان ، دو ہی طبقوں میں تقسیم ہوا ہے۔ ایک طبقہ محنت کرنے والا ، اور دوسرا طبقہ ان کی محنت کی کمائی پر آسائش زندگی بسر کرنے والا ۔ اس طبقہ کو قرآن ، مترفین کہہ کر پکار تا اور نوع انسان کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے۔ (جاری ہے)
مارچ، 2016 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL: