علامہ غلام احمد پرویز
دو گروہ : آپ تاریخ انسانیت پر نگاہ ڈالئے ۔ اسلوب و انداز مختلف ہوں گے، اسباب و ذرائع متبائن ہوں گے۔ نقاب اور پیکر بھی متنوع ہوں گے۔ لیکن نوع انسان اصول او ربنیادی طور پر انہی دو گروہوں میں منقسم دکھائی دے گی۔۔۔ ۔ ایک گروہ محنت کش کا۔۔۔۔۔۔ دوسرا گروہ ان کی محنت کے ماحصل کو غصب کرنے والوں کا ۔۔۔۔۔۔اس نظام معیشت و تمدن کی رو سے ، اصول یہ طے پایا، کہ محنت کش کو صرف اتنا دیا جائے جس سے وہ محنت کرکے ، کما کر دینے کے قابل رہے۔ اس سے زائد ا س کے پاس کچھ نہ پہنچنے پائے اور غاصبین کے پاس ان کی ضروریات سے فاضل دولت ( Surplus Money) جمع ہوتی رہے۔ یہ فاضلہ دولت، تمام فسادات کی جڑ ہے۔اسی سے یہ طبقہ اقتدار حاصل کرتا ہے، او راس اقتدار کی رو سے ، محنت کشوں کو ان کی پست سطح پر رکھنے پر مجبور کئے رکھتا ہے ۔ آپ دیکھیں گے ، کےتاریخ انسانیت میں زمام اقتدار کبھی محنت کشوں کے ہاتھ میں نہیں آنے پائی ۔ یہ ہمیشہ غاصبین کے قبضہ میں رہی ہے۔ اس زمانہ میں جسے عصر حاضر، جہالت اور بربربیت کا دور کہتا ہے ، یہ اقتدار خالص قوت ( Physical Force) کے بل بوتے پر قائم رکھا جاتاتھا ۔قانون بھی انہی کا آلہ کار ہے دور تہذیب میں اس قوت کو قانون کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے لئے کسی افلاطون کی عقل کی ضرورت نہیں کہ جو قانون ، غاصبین محنت کا وضع اور نافذ کردہ ہوگا وہ کس کے مفاد کا تحفظ کرے گا ؟یہ قانون ، چوروں، قزاقوں ، رہزنوں کو مجرم قرار دے گا۔( تاکے ان غاصبین کی دولت محفوظ رہے ۔ مزدور کے پاس ہوتا ہی کیا ہےجسے کوئی چرا لے جائے گا) لیکن یہ قانون ان لوگوں کو کبھی مجرم قرار نہیں دے گا جو دوسروں کی کمائی کو دن رات لوٹتے رہتے ہیں ۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ ان بڑے لوگوں میں سے کوئی قانون کی زد میں آجائے تو ہاں بھی اس کی پوزیشن اسے ہزار مراعات کا مستحق قرار دے گا۔ مثلاً وہ ملزم چوری کے جرم میں عدالت سے یکساں سزا پاتے ہیں ۔ ایک ان میں سے غریب ہے دوسرا دولت مند ۔غریب مجرم، جیل میں اسی کلاس میں رکھا جائے گا لیکن صاحب دولت کو اے کلاس ملے گی، جس میں سزا محض نام کےلئے ہوگی ۔
بہر حال میں کہہ یہ رہا تھا کہ ان لوگوں کو وضع کردہ قانون ، جرائم کے انسداد کے لئے تدابیر اختیار کر ے گا۔ اس لئے کہ یہ محرکات و اسباب تو خود اس قانون ساز سرمایہ دار طبقہ کے پیدا کردہ ہوتے ہیں ۔۔ اس نکتہ کی وضاحت اسلامی تاریخ کے اس واقعہ سےہوسکے گی کہ ایک شخص کے ملازموں نے کسی کے کھیت سے غلہ چرا کر کھایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں سزا دینے کے بجائے، ان کے آقا کو سزا دی کیونکہ وہ انہیں پیٹ بھر کر کھانے کےلئے نہیں دیتا تھا او رانہوں نے بھوک سے مجبور ہوکر غلہ چرا کر کھایا تھا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ان کی ذاتی اجتہاد کا نتیجہ نہیں تھا ۔ یہ مبنی تھا قرآن کے اس اصول پر کہ اضطراری حالت میں بھوک مٹانے کی حد تک حرام کھانے کی بھی اجازت ہے۔ یہ تھا محرکات جرائم کے انسداد کی طرف موثر اقدام ۔ مستقل احتیاج ، پیہم احساس، عدم تحفظ (Feelings of Insecuirty) طبقاتی ، تفاوت کے پیدا کردہ امتیازات سے معاشرہ کے خلاف جذبات انتقام و نفرت ۔۔ قدم قدم پر مجروح ہونے والی انسانی خودی کا تخلیق کردہ احساس کمتری ۔ اپنی مرضی اور اختیار کے بغیر، غریبوں کے گھر میں جنم لینے کے گناہ، بلکہ یوں سمجھئے کہ دنیا میں آجانے کے جرم کی پاداش میں عمر بھر سزا بھگتنے کے احساس سے نظام عدل و انصاف کے خلاف جذبات بغاوت ۔۔ احترام آدمیت کی تمام راہیں بند ہوجانے سے ،خود زندگی سے بیزاری ۔۔۔یہ اور اسی قسم کے اور اسباب ہیں جو جرائم کے محرکات بنتےہیں ۔ دوسروں کی محنت کو غصب کرنے والا طبقہ ، ان محرکات کو روکنے کی تدبیر کس طرح او رکیوں کرے گا؟ایسا کرنے کے لئے انہیں سب سے پہلے اس نظام کو ختم کرنا ہوگا جس میں محنت کوئی کرتاہے اور اس کا حاصل کوئی او رلے جاتاہے ایسا کرنے کےلئے انہیں خود اپنے بام بلند سے نیچے اتر کر سطح آدمیت پر آناپڑے گا۔ اس کےلئے انہیں خود کما کر کھانا پڑے گا ۔ اتنا ہی نہیں ،بلکہ اپنی کمائی میں سے، انہیں بھی دینا پڑے گا جو کسی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ رہیں ، یہ لوگ ایسا کیوں کریں گے، ان کی تو انتہائی کوشش یہی رہے گی کہ اس نظام کی گرہیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائیں جس میں محنت کش کو سر اٹھا کر چلنے کی جرأت ہی نہ پڑے ۔لہٰذا ان لوگوں کے وضع کردہ قانون کی رو سے وحدت و مساوات انسانیہ کیسے پیدا ہوسکے گی؟ او راس قسم کے قانون کے مطابق فیصلوں کو میزان انسانیت میں عدل کیسے قرار دیا جا سکےگا؟
فلسفہ کے دلائل : لیکن ظاہر ہے کہ خالی دھاندلی اور دھونس سے،اپنے ہی جیسے انسانوں کے اس قدر گروہ کثیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنی گرفت میں نہیں رکھا جاسکتا ۔اس کے لئے کچھ اور حربوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کےلئے پہلے دانشوروں کا گروہ آگے بڑھتا ہے اور عقلی دلائل سے ان زیر دستوں کو مطمئن کرانے کی کوشش کرتاہے کہ ان کے لئے وہی مقام مناسب اور عین مطابق فطرت ہے جس پر انہیں رکھا جارہا ہے۔ کہتے ہیں کہ ارسطو کے ستر غلام تھے اور وہ غلامی کے جواز میں ستر دلیلیں دیا کرتا تھا ۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ٹیڑھے پاؤں کےلئے ٹیڑھا جوتا ہی مناسب ہوتا ہے ۔ اگر آپ اسے سیدھا جوتا پہنا دیں گے تو اس سے وہ دو قدم بھی نہیں چل سکے گا؟عقل فریب کا ر کی حیلہ تراشیاں جس سے وہ محض ایک غلط مثال (یا تشبیہ) سےپیدا کردہ تصور کو زندگی کی مستقل قدر بنا کر دکھا دیتی ہے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان پیدائشی طور پر مختلف صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں اس لئے معاشرہ میں ان کا مقام ، ان کی صلاحیتوں کے مطابق متعین ہونا چاہئے ۔ اگر کم صلاحیت والے کو اونچا مقام دے دیا گیا تو وہ ٹیڑھے پاؤں کو سیدھا جوتا پہنا دینے کی مترادف ہوگا۔ یعنی ان غاصبین کا معاشرہ پہلے ایسا انتظام کرتاہے جس سے زیر دست طبقہ کی صلاحیتیں ابھرنے ہی نہ پائیں ۔ اور اس کے بعد، اس اختلافی صلاحیت کو طبقاتی تقسیم کےلئے بطور دلیل پیش کر دیتا ہے ۔ علم و حکمت کے ان اجارہ داروں سےکوئی پوچھے کہ اگر پیدائشی صلاحیتیں عمر بھر اپنی سطح پر جامد رہتی ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ، تو بلال حبشی رضی اللہ عنہ ‘‘صہیب رومی’’ زید اور ان کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہ او ران جیسے صدہا اور غلام ، مزدور ، محنت کش، جنہیں اس زمانہ کے معاشرہ نے ہر قسم کی صلاحیتوں سے عاری اور ذلیل ترین مخلوق قرار دے رکھا تھا، چند دنوں کی صحیح تعلیم و تربیت سےکس طرح انسانی صلاحیتوں کے بلند ترین مظہر بن گئے تھے؟ اگر فطرت ، غلام کو پیدا ہی خدمت گذاری کےلئے کرتی ہے تو دنیا میں غلاموں نے سلطنتیں کس طرح قائم کر دکھائی تھی ۔
پھر یہی حکمت ابلیسی ایک قدم اور آگے بڑھتی ہے او رکہتی ہے کہ مختلف قسم کے کام کرنے والوں کی ضروریات بھی مختلف ہوتی ہیں اس لئے ہر ایک کو یکساں نہیں ملنا چاہئے ۔ ظاہر ہے کہ انسان کی بنیادی ضروریات اس کی طبیعی زندگی کے تقاضے پورے کرتی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک انجینئر کی طبیعی زندگی کے تقاضے ، ایک مزدور کی زندگی سے مختلف ہوتے ہیں جو ان کےلئے سامان پرورش میں تفاوت بھی ناگزیر ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ہر فرد کے ذمے جو کام لگایا جائے گا، اس کام کے سر انجام دینے کےلئے مختلف آلات و ادوات کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن اس سے یہ کیسے لازم آتا ہے کہ ان کی طبیعی ضروریات میں بھی فرق ہوگا ۔ اگر ایک مزدور کو چائے کےساتھ، انڈے او رمکھن دے دیئے جائیں تو کیا ان سے اس کےپیٹ میں درد ہونے لگ جائے گا؟ او راگر اس کے گھر میں بھی صوفہ سیٹ رکھ دیا جائے تو کیا اسے اس پر بیٹھنے سے سوئیاں چبھیں گئیں؟ قرآن کریم نے جنت کےمتعلق کہیں یہ نہیں کہا کہ اس میں کچھ لوگوں کو کھانے کوگوشت ، پھل، دودھ ، شہد ، بیٹھنے کو صوفے ، قالین او رپہننے کو حریر و اطلس ملیں گے اور دوسرے لوگوں کو دال روٹی دی جائے گی ۔ جسے وہ پھوس کی جھونپڑی میں زمین پربیٹھ کر کھائیں گے۔ وہاں اس قسم کی کوئی تفریق نہیں بتائی گئی ۔ یہ جہنمی معاشرہ کا اسلوب و انداز ہے جس میں انسان اور انسان کی طبیعی ضروریات میں اس قدر تفاوت روا رکھا جاتاہے ۔ او رکام کی اجرت اس تفاوت کے پیش نظر متعین کی جاتی ہے۔ اسے (Living Wage) کہا جاتاہے ۔
اجرتوں کا تعین : یہ اجرتوں کا تعین بھی ، عزیزان من ! عجیب گورکھ دھندا ہے۔ مزدور کی اُجرت تین روپے روز ہوگی اور انجینئر کی تیس روپئے یومیہ ۔ سوال یہ ہے کہ اس تین روپے اور تیس روپے یومیہ اجرت مقرر کرنے کا معیار اور اصول کیا ہے؟ یہ معیار طلب و رسد ( Supply and Demand) کا سوال ہے۔ او رکیا؟ کارخانہ دار کو ایک ہزار مزدور او رایک انجینئر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ طبقہ انتظام ایسا کرتاہے کہ ملک کی کثیر آبادی مزدوروں کے سوا کچھ او ربن نہ سکے ۔ لہٰذا، اس جنس کی رسد ( Supply) طلب (Demand) سے زیادہ ہوتی ہے بنا بریں مزدور کے لئے اس بات کے فیصلہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ جو اُجرت اسے پیش کی جاتی ہے وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے ۔ وہ اس قدر ضرورت مند ہوتا ہے کہ اسےجو اُجرت بھی میسر آجائے، اسے غنیمت سمجھتا اور آجر کا شکر گذار ہوتا ہے کہ اس نے اسے رزق مہیا کردیا ۔ اتنا ہی نہیں ، بلکہ یہ بڑی بڑی صنعتوں والے ، ملک کے سر احسان دھرتے ہیں کہ وہ اس قدر کثیر آبادی کےلئے رزق فراہم کرنے کا انتظام کرتےہیں ۔ یہ ہیں عقل فسوں ساز کے وہ حیلے جن سے وہ نوع انسان کی اس تقسیم و تفریق کی جڑیں مضبوط کئے رکھتی ہے۔
اسی عقل فسوں ساز نے انسان کو ایک او رمغالطہ، بھی دے رکھا ہے او ریہ وہ مغالطہ ہے جسے آغاز تاریخ سےاس وقت تک، مشرق و مغرب میں ہر جگہ ، ایک مسلمہ کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے ۔ وہ مغالطہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ ذاتی ملکیت او رزیادہ انفرادی نفع اندوزی کے علاوہ کوئی اور جذبہ محرکہ نہیں جو اسے زیادہ سے زیادہ کام پر آمادہ کرسکے ۔ میں اپنے موضوع سے دور نکل جاؤں گا اگر اس نکتہ پر تفصیلی بحث کروں کہ انسان کی سرے سےکوئی فطرت ہی نہیں ۔ فطرت تو مجبور اشیاء کی ہوتی ہے ۔ جیسے آگ کی فطرت حرارت پہنچانا ہے۔ اور انسان صاحب اختیار وارادہ ہے۔ صاحب اختیار و ارادہ کی فطرت کچھ نہیں ہوتی ۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرتا اور اپنے لئےآپ راہیں تراشتا ہے ۔ لیکن اگر اسے صحیح تصور کرلیا جائے کہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ جس کام میں اسے ذاتی نفع نہ ہو، وہ اس کےلئے کوشش نہیں کرتا ، تو آپ ایک حقیقت پر غور کیجئے ۔ ہم تاریخ انسانیت میں ان افراد کی تعریف کرتے ہیں، ان کی یاد گاریں قائم کرتے ہیں ، ان کے مجسمے نصب کرتے ہیں، انہیں نوع انسان کا محسن قرار دیتےہیں جنہوں نے اپنے نفع کی خاطر نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر عمریں صرف کردیں ! سوال یہ ہے کہ یہ لوگ، جو تاریخ انسانیت کے ممتاز ترین مقام پر فائز ہیں، کیا یہ سب خلاف فطرت زندگی بسر کرتے تھے؟ اگر انسان کی فطرت کوئی چیز ہے (جسے فطرت نہیں بلکہ شرف انسانیت کہناچاہئے) تو اس کا تقاضا یہی ہے کہ انسان اپنی ذات کےلئے نہیں ، عالمگیر انسانیت کے لئے جئے ۔ صرف اپنے اور اپنی اولاد کےلئے جینا، حیوانی سطح زندگی ہے۔ دوسروں کےلئے جینے والا، انسان کہلا نے کا مستحق ہے ۔ حیوان صرف اپنے لئے جیتا ہے ، انسان دوسروں کےلئے جیتا ہے ۔ (جاری )
اپریل، 2016 بشکریہ : صوت الحق، کراچی
URL: