نازش احتشام اعظمی
9نومبر،2024
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سپریم کورٹ کاحالیہ فیصلہ ہندوستان کے تعلیمی منظر نامے او راقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے ایک نہایت اہم موڑ ہے جو سرسید احمد خان کے خواب کی تکمیل اور ان کے نظریے کی بحالی کی علامت ہے۔ سرسید، جو تعلیم وتدبر کی علامت اور ہندوستانی مسلمانوں کے حقیقی محسن تھے،نے جس خواب کی بنیاد رکھی تھی، آج اس کی سرسبز اور شاداب شاخیں تاریخ کے ایک طوفان سے محفوظ کرلی گئی ہیں۔یہ فیصلہ ایک ایسی قانونی جنگ کا اختتام ہے جس نے کئی دہائیوں تک اس ادارے کی بنیاد کو ہلانے کی کوشش کی۔سرسید احمد خان کا خواب،جو 1877 میں محمڈن اینگلو اور نیشنل (ایم اے او) کالج کے قیام سے شروع ہوا تھا، درحقیقت ہندوستانی مسلمانوں کی فکری اور تعلیمی خود مختاری کی بنیاد تھا۔برطانوی استعماری نظام کے شکنجوں میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے لئے جدید تعلیم کے ذریعے ایک نیا افق پیش کرنا اس وقت کے لئے ایک ناقابل یقین قدم تھا۔
سرسید نے ایک ایسا خواب دیکھا تھا جس میں ہندوستان کے مسلمان جدید علوم سے آراستہ ہوکر، ترقی کی راہوں پر قدم رکھیں اور مغربی علوم کو اپنی تہذیب وتمدن کے دائرے میں لاکر دنیا کا سامنا کریں۔ اس مقصد کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے انہوں نے ایم اے اوکالج قیام کیا، جو بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بن گیا، اور جس کاہر کمرہ ہر دروازہ اور ہر پتھر سرسید کے عزم اور حوصلے کا آئینہ دار ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام محض ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ مسلمانوں کے تعلیمی اور ثقافتی اثاثے کے بحالی اور فروغ کی ایک جدوجہد تھی۔ یہ ادارہ اس خواب کا عکاس ہے جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آشنا کیا اور انہیں اس بات پر قائل کیا کہ تعلیم نہ صرف ان کی ترقی بلکہ ان کے فکری اور تہذیبی استحکام کی ضامن ہے۔سرسید نے اس مقصد کے لئے جس مضبوط بنیاد کی شروعات کی تھی، وہ آج بھی اے ایم یو کے ہر کونے میں محسوس کی جاسکتی ہے، اور اسی وجہ سے یہ ادارہ مسلمانوں کے لئے ایک میراث کی حیثیت رکھتاہے۔لیکن جیسے ہر عظیم خواب کو مکمل ہونے میں مشکلات کا سامنا ہوتاہے، اے ایم یو کو بھی اپنے اقلیتی کردار کے حصول اور تسلیم کیلئے ایک طویل اور دشوار قانونی سفر طے کرنا پڑا۔ اس سفر کا آغاز 1967 میں اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ نے ایس عزیز باشا بنام یونین آف انڈیا کیس میں فیصلہ دیا کہ اے ایم یو کو آئین کی آرٹیکل 30 / کے تحت اقلیتی ادارے کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے مسلمانوں کی تعلیمی خود مختاری کے تصور کو چیلنج کیا۔لیکن سرسید کا خواب اس قدر مضبوط تھا کہ یہ فیصلہ اس خواب کی روشنی کو ماند نہ کرسکا۔
1981 میں پارلیمنٹ نے اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کرکے اس ادارے کے اقلیتی کردار کو تسلیم کرنے کی کوشش کی، مگر مخالف عناصر نے اس کو پھر چیلنج کیا اور الہٰ آباد آئی کورٹ نے 2005 میں اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ یہ قانونی جنگ سپریم کورٹ تک پہنچی اور آج کے فیصلے نے ایک مرتبہ پھر سرسید احمد خان کے نظریے اور خواب کو زند ہ کردیا ہے۔آج کے اس فیصلے کا اعلان ایک تاریخی لمحات میں سے ہے جو نہ صرف علی گڑ ھ مسلم یونیورسٹی بلکہ پورے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اہم ہے۔
عدالت نے اے ایم یو کے اقلیتی کردار کو تسلیم کرکے ہندوستان میں اقلیتی برادریوں کو یہ پیغام دیا کہ ان کی تعلیمی خود مختاری کا احترام کیا جائے گا او انہیں اپنے تعلیمی اداروں میں مخصوص نشستیں مختص کرنے اور اپنے اصولوں کے مطابق انتظام چلانے کی اجازت ہوگی۔ یہ فیصلہ ان تعلیمی اداروں کے لئے ایک نوید ہے جو اقلیتو ں کی ثقافتی، تعلیمی اور تہذیبی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لئے کوشاں ہیں۔اے ایم یو کے اس فیصلے کا اثر صرف ایک تعلیمی ادارے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کے لئے سنگ میل ثابت ہوگا۔ عدالت کا یہ اعتراف، اقلیتوں کے اس بنیادی حق کی توثیق کرتاہے کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کو اپنے تہذیبی اور ثقافتی شناخت کے مطابق چلائیں۔ یہ فیصلے ہندوستان کی تکثیریت اور مختلف ثقافتی برادریوں کے باہمی احترام کا ایک آئینہ دار ہے جو ایک ایسی فضا پیدا کرتا ہے کہ جہاں ہر ایک کو اپنی شناخت، اپنی تہذیب،اور اپنے حقو ق کا تحفظ حاصل ہو۔ یہ فیصلہ اے ایم یو کے لئے نئے امکانات کے دروازے کھولتاہے اور اس کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنے مقصد کو پورا کرنے کیلئے آزادی فراہم کرتا ہے۔
بلا شبہ اس فیصلے کی روشنی میں اے ایم یو مستقبل میں ایک ایسی تعلیمی فضا قائم کرسکے گا جہاں مسلمانوں کو اپنے تعلیمی مسائل کے حل کے لئے ایک با اختیار ماحول فراہم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ ہندوستان کے دیگر اقلیتی اداروں کیلئے بھی امید کی کرن ہے کہ وہ اپنے مخصوص تعلیمی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مزید قدم اٹھا سکیں گے۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ،ایک تاریخی علامت کی حیثیت رکھتاہے جو ہندوستانی قانون، اقلیتوں کے حقوق، اور تعلیم کی خود مختاری کے بارے میں ایک اہم پیغام دیتاہے۔یہ پیغام کہ تعلیمی اداروں کی خود مختاری کا احترام کیا جانا چاہئے اور اقلیتوں کو اپنی شناخت کے تحفظ کے لئے آزاد چھوڑ دینا چاہئے۔آج کا فیصلہ اس بات کی تصدیق کرتاہے کہ ہندوستانی معاشرے کی تکثیریت میں اقلیتوں کے حقوق کا احترام ایک لازمی عنصر ہے۔یہ فیصلہ اس بات کی ضمانت فراہم کرتاہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو نہ صرف ان کی تعلیم کے حق میں بلکہ ان کی تہذیبی شناخت کے احترام میں بھی آزادی حاصل ہوگی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار تسلیم کرنا ایک ایسا قدم ہے جو ہندوستان میں تعلیمی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے لئے مشعل راہ بنے گا۔ یہ فیصلہ سرسیداحمد خان کے اس خواب کی تعبیر ہے جو انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے دیکھا تھا۔ آج جب اے ایم یو کو اس کا اقلیتی کردار دوبارہ حاصل ہوچکا ہے یہ سرسید کے خواب کی تکمیل ہے اور ان کے وژن کی توثیق ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کااقلیتی کردار صرف اس کی قانونی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ اس کے تعلیمی،سماجی اور ثقافتی کردار سے بھی جڑا ہوا ہے۔ سرسید احمد خان کا خواب تھا کہ علی گڑھ کا ادارہ ایک ایسی جگہ بنے جہاں مسلمان اپنی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنی مذہبی وثقافتی اقدار کو نہیں چھوڑیں گے۔یونیورسٹی نے ہمیشہ اپنے اقلیتی کردار کو برقرر رکھا ہے، جس کے ذریعے مسلمانوں کے معاشی وسماجی ترقی کی راہیں ہموار کی گئی ہیں۔
9 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/aligarh-university-judgment-supreme-court/d/133687
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism