علی ریحان، نیو ایج اسلام
جب جب داعش کوئی بم دھماکہ کرتا ہے جس میں لوگ مارے جاتے ہیں اور اپاہج ہوتے ہیں اور وہ قدیم انمول مجسموں کو مسمار کرتے ہیں، تب تب لوگوں کی اس رائے کا ایک ہجوم امنڈ پڑتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ اسلامی قوانین اور تعلیمات سے بالکل متضاد ہے۔ ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ اصلی یا حقیقی اسلام محبت اور رواداری کی تعلیم دیتا ہے، اور تعصب و تنگ نظری کی تعلیم نہیں دیتا جو کہ داعش جیسی جماعتوں کی ایک نمایاں علامت ہے۔ ہمیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ داعش اسلام کو بدنام کر رہا ہے اور یہ اپنے حقیر فرقہ وارانہ اور غیر اسلامی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اسلام کے نام کا استعمال کر رہا ہے۔
لیکن اس کے باوجو داعش اپنی ذاتی خواہشات کے مطابقت میں انجام دیے جانے والے تمام اعمال کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہے کہ وسیع تر مسلم کمیونٹی انہیں صحیح معنوں میں اسلامی مانے۔ 'کافروں' کے سر قلم کرنے، جنسی غلام رکھنے اور عورتوں کے ساتھ ان کے ناروا سلوک جیسے ان کے تمام اعمال اسلام کے نام پر جائز ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ اسلام کے عملی شعبے میں داعش کے لیے ایسے اعمال اور طرز عمل کا جواز موجود ہے جو اپنے اقدام اور معمولات کا جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ جیسا کہ تیزی کے ساتھ یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کے ایک طبقے میں اس اسلامی جواز کو ایک بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہے، ورنہ ان کی نام نہاد خلافت کی اس کشش کو سمجھنا بہت مشکل ہوگا، جو یورپ سے لے کر جنوبی ایشیا کے کوہ قاف تک دور دراز کے مقامات سے اپنی خلافت کی طرف مسلم نوجوانوں کو سفر کرنے پر آمادہ رہا ہے۔
لہٰذا، کوئی اس معمہ کو کس طرح سمجھے کہ حقیقی اسلام کی فطرت کیا ہے؟ کیا داعش کا اسلام حق ہے یا ان لوگوں کا اسلام حق ہے جو داعش کو غیر اسلامی قرار دیکر اس کی مذمت کرتے ہیں؟ اسلام کی ایک جامع اور مانع تعریف کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ یہ سمجھنا کہ اسلام ایسے اقدار کا ایک بنیادی مجموعہ ہے جو موروثی طور پر پرامن ہے یا موروثی طور پر پرتشدد ہے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ لہٰذا، داعش کو اسلام کا حقیقی نمائندہ کہنا یا انہیں ایسا متعصب و تنگ نظر قرار دینا جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کو مسخ کرنے پر آمادہ ہیں ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ اصولی اعتبار سے دونوں اسلام کی بعض ضروری خصوصیات سے منسوب ہونے میں مشترک ہیں۔
اسلامی معمولات کی تاریخ پر ایک گہری نظر ڈالنے سے ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اسلام کسی بھی دوسرے مذہب کی طرح، مخصوص سیاق و سباق سے مربوط ہے، اور اسلام کی ایک بنیاد کی تلاش حقیقت میں مومنوں کے ایک طبقے کے لیے ایک ثانوی تشویش رہی ہے۔ اسلام نے کبھی دیگر مذاہب کے ساتھ امن و امان قائم کرنے کا حکم دیا ہے لیکن کبھی کبھی اسلام ان کے ساتھ متصادم بھی ہوا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اسلام نے غلاموں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کے ساتھ پیش آنےکا حکم دیا ہے لیکن اس کے باوجود اسلام نے غلام بنانے کی اجازت دی ہے۔ اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ اسلام نے اس وقت خواتین کو جائیداد کے حقوق عطا کیے جب دوسرے مذاہب میں ان کی حیثیت مال و اسباب کی تھی، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسلام نے ان پر کچھ ایسی پابندیاں بھی عائد کی ہیں جس نے انہیں نسبتا غیر متحرک اور مخفی بنا دیا ہے۔ لہٰذا، اسلام کے لیے ایک بنیاد متعین کرنا خاص طور پر اس چیز کو منتخب کرنا ہے جو اس کی بنیاد کا حصہ بنے۔ لہٰذا، اسلام کے اندر بنیاد پرستوں اور اعتدال پسندوں کے لئے، اسلام کی بنیاد داخلی طور پر ایک متعینہ شعبہ ہے، جس کے اندر وہ اس بات کانتخاب کرتے ہیں کہ اسلامی بنیاد کے اپنے تصور کا جواز اور اس کی بنیاد پیش کرنے کے لیے وہ کس حصے کو اجاگر کریں۔ لہٰذا، یہ اسلامی سچ پورا اسلام نہیں بلکہ اس کا صرف ایک حصہ ہے، جو کہ سیاسی پروگراموں کی ان نظریاتی زمینوں کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے موجود ہے جس سے اعتدال پسند اور بنیاد پرست دونوں قسم کے مسلمان منسلک ہیں۔
اسلام کو تعلقات کا ایک مجموعہ سمجھنا بہتر ہے، اس لیےاسلام کے کسی بھی حصے کا استحقاق ایک مخصوص مقام پر ایک سیاسی منصوبہ بن جاتا ہے۔ یہ نقطہ نظر ہمیں اسلام کے بارے میں یک ثقافتی اور وحدانیت کے بجائے جیسا کہ ہم میں سے اکثر کرتے ہیں ، تکثیریت کے ساتھ اظہار رائے کرنے پر مجبور کرتا ہے گویا کہ متعدد اسلام ہوں۔ اس نقطہ نظر کو اپنانےکے بعد جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے اسلام کا تعین ترقی پسند یا قدامت پسند مذہب کے طور پر نہیں ہوتا ہے بلکہ اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر دیکھنا لازم آتا ہےجو مختلف شعبوں اور معاشرے کے کسی دوسرے ادارے کی طرح دباؤ کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ بلکہ اس سے ہمارے اندر یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ اسلام سمیت ان تمام مذاہب کے خلاف جن کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ہو تو اس کے لیے قابل اعتماد رہنما صرف تاریخ کو ہی بنایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، عصر حاضر کے تناظر میں اسلام کی از سر نو تعریف پیش کرنے کے بجائے کوشش اس بات کی کرنی چاہیے کہ خود عصر حاضر کو اس بات کا معیار بنایا جائے کہ کس اسلام کی ازسرنو تعریف کرنی ہے اور کس اسلام کے بارے میں فیصلہ کرنے کی ضرورت۔ اس تاریخی کام میں اہمیت کی حامل عقلیت پسندی، ترقی اور روشن خیالی کا تیقن اور اس کی ضمات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمارے پاس ایسی کوئی بنیاد ہونی چاہیے اور اسلام سمیت تمام اداروں اور معاشروں کا فیصلہ اسی بنیاد کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کسی معاشرے کی بنیاد مساوات پر ہو تو ضرورت یہ سوال پوچھنے کی ہے کہ کیا اسلام یا اس کے چند پہلو مساوات کو فروغ دیتے ہیں یا نہیں۔ اگر جواب منفی ہے تو پھر ان پہلوؤں پر یہ سوال وارد کرنے کی ضرورت ہے کہ کس بات نے مساوات کے حصول میں رکاوٹ پیدا کی۔
اسلام کو جدیدیت کے مطالبات سے ہم آہنگی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لیےکہ ہمیشہ اسلام کی ظاہری تکثیریت سے تشریحات پیش کی جائیں گی جو اس نظریہ سے متصادم ہوں گے۔ بلکہ عصر حاضر کو اس بات کا معیار بنانا چاہئے کہ کس اسلام کا فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ ایک ایسا وقت تھا کہ اسلام ایک ایسا معیار بن گیا تھا کہ جس کے خلاف دیگر تمام سماجی معمولات اور طرز عمل کا فیصلہ کیاجاتا تھا۔ تاہم، کئی سالوں سے اسلام کی یہ تحریک کھو چکی ہے اور یہ ایک مقررہ منجمد ہستی میں محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اسلام کی اس تحریک کی بازیافت آج مسلمانوں کی سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہئے اور یہ موجودہ اسلام کے ساتھ مقابلہ کیے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ صرف اس نقطہ نظر کے ذریعے ہم داعش جیسی جماعتوں کا منھ توڑ جواب دے سکتے ہیں جو نام نہاد 'حقیقی' اسلام کی نمائندگی کرنے کا دعوی کر رہی ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/isis-question-‘true’-islam/d/105865
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/isis-question-‘true’-islam-/d/105898