علی خان محمودآباد
8جون ، 2019
جب سے نئی حکومت منتخب ہو کر بر سر اقتدار آئی ہے تب سے ماہرین نے اپنی رائے پیش کی ہے ۔اقلیتوںاور خاص کر مسلمانوں کے مستقبل کو لے کر طرح طرح کے تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔ کسی نے خوف بھرا مستقبل کا منظر پیش کیا تو کسی اوروزیراعظم کی پہلی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے بیانات پر غور و فکر کرنے کےعلاوہ بھروسہ بھی کرنا چاہئے۔ اگر بعض سیاسی رہنمائوں نے تہنیت وتبریک کے خطوط اِرسال کیے تو دوسروں نے بندکمروں میں آنے والے دنوں کے سلسلے میں تشویشناک باتیں کیں ۔
ظاہر سی بات ہے کہ موجودہ حکومت کا رجحان اور ان کی پالیسیوں پر تبھی تبصرہ کیا جا سکتا ہے جب ایک مدت گزر جائے گی کہ جو جو آثار آج نظر آ رہے ہیں وہ اِس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ بی جے پی کی سیاست میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ فیضان مصطفیٰ اور صبا نقوی صاحبہ نے اپنے مضامین میں اپنانقطہ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا کہ نریندر مودی کی تقریر کو بظاہر مصیبت کے طورپرلینا چاہیے۔ صبا نقوی نے اپنے ٹائم آف انڈیاکے کالم میں لکھا ہے کہ کوئی بھی قوم ’سسٹم ‘ سے باہر نہیں رہ سکتی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ آپ سسٹم میں تھے ہی کب جو آپ باہر جانے کا خوف ظاہر کر رہے ہیں ؟ مصطفیٰ نے اپنے انڈین ایکسپریس کے مضمون میں کہا کہ تاریخ کے حوالہ سے مسلمان ایک نہیں کئی مرتبہ سخت مراحل سے گزر چکے ہیں اور ہربار وہ مصیبت سے نہ محض نکلے بلکہ ان کو’ روشن فکر ہندو‘ساتھیوں سے بھی تقویت ملی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہےکہ مستقبل کے سلسلے میں ناامیدی کفر کے مترادف ہے اور قُرآنِ پاک میں بھی ناامیدی سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں ہے کہ آج بھی ہندوستان میں ہمارے کروڑوں ہم وطن ہیں جوبی جے پی اورسنگھ پریوار کی سیاست کے سخت مخالف ہیں ،لیکن آج کا سیاق وسباق گزرے دنوں سے مختلف بھی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں اور ’اسلام ‘کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اور دہشت گردی کا عمل فقط ایک سیاسی مشکل نہیں بلکہ ایک کاروبار بن گیا ہے جس کے ذریعہ ٹیکنالوجی اور دفاع صنعت کی کمپنیاں نے اربوںروپےکی تجارت کھڑی کر دی ہے ۔ دوسری طرف حکومتوں نے ملکی تحفظ یا نیشنل سکیورٹی کے نام پر لوگوں کے بنیادی حقوق پامال کرنا شروع کر دیے ہیں اور ہندوستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے ۔ موجودہ وزیر داخلہ نے انتخابات کے دوران اور حال میں پھر واضح کردیا ہے کہ ان کا پہلا ہدف یہ ہے کہ اس خطے میں دیگرممالک کے ہندو ، بودھسٹ اور سکھ پناہ گزیں کو ہندوستانی شہریت دیں گے اور ان لوگوں کو شہریت سے محروم کریں گے جنہوں نے اس ملک میں ’ دیمک ‘ کا کام کیا ہے۔واضح رہے کہ دیمک کا اشارہ ایک ، نہیں تو زیادہ سے زیادہ دو ، قوموں کی طرف ہے ۔ بی جے پی کے نومنتخب نمائندے آج بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے ہیں اور شمال سے لے کر جنوب تک رووزانہ اشتعال انگیز باتیں ہو رہی ہیں اور کہیں لوگ گوشت کے بہانے مارے جا رہے ہیں تو کہیں اوروں سے زبردستی جئے شری رام کے نعرے لگائے جارہے ہیں ۔ آج پڑھے لکھے لوگ کہتےہیں کہ پچھلے۵؍ برسوں میں کوئی بڑے فساد نہیں ہوئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تشدد اورتعصب اس قدر عام ہو گیا ہے کہ اب ماب لنچنگ کی خبر سن کر لوگوں کےپیشانی پر شکن تک نہیں آتی۔ میں نے اس کو انگریزی میں ’نارمالائزیشن آف والینس کہا ہے۔ چنانچہ آج یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بظاہر کچھ نہیں بدلہ ہے ۔
اس میں بھی شک نہیں ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر کے بعدبی جے پی کچھ ایسے اقدامات کرےگی جن کے ذریعہ یہ تاثر دیا جائےگا کہ مسلمانوں کو وہ الگ نہیں رکھنا چاہتے ۔ ممکن کہ ۲۰۲۲ء کے انتخابات میں کچھ مسلمانوں کو ٹکٹ بھی مل جائے ، لیکن تاریخ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور بی جے پی اور آر ایس ایس کے بانیان کی کتابیں اور مسلمانوں اور اسلام سے متعلق ان کی تصنیفات کو بھول جانا عین نادانی ہوگی۔ بی جے پی نے پچھلے۵؍ برسوں میں یہ بات واضح کر دی ہےکہ وہ مسلمانوں کے مسلکی اورمکتب فکرسے متعلق اختلافات کو فروغ دینا چاہتی ہے تاکہ انگریزوں کی آزمائی ہوئی سیاست کے تحت مسلمان آپس میں مذہبی اختلافات میں الجھے رہیں۔’عالمی دہشت گردی یا گلوبل وار آن ٹیرر‘ کی منطق کے تحت یہ فلسفہ ان کے لیے اس لیے کارگر ہو سکتا ہے کیونکہ مختلف ممالک اورخاص کر بعض طاغوتی طاقتیںاس فیصلےمیں بی جے پی کی حمایت کریں گی۔ واضح رہےکہ وہی ملک بی جے پی سے تعاون کریں گے جوعالمی بازار میں اصلاحات کے خریدو فروخت میں ایک بَدی حصہ داری رکھتے ہیں ۔ اب اگر مسلمانوں کو اور بھی کنارےلگایا گیا اور نوجوانوںکی مایوسی غصے میں تبدیل ہو جاتی ہے تو پھرکل ایک ایسی چوٹی سی جماعت ’ اینٹ لے کرکھڑی ہو سکتی ہے یا کھڑی کی جا سکتی ہے جو اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے لگے۔ اگر یہ ہوا تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑےگا۔ یاد رہےکہ اگر خدا نا خواستہ یہ ہوا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ موجودہ حکومت کو ہوگا ۔
آج مسلمانوں کویہودیوںکی تاریخ پڑھنا چاہیے ۔یہودیوں کو پچھلی صدی سے نہیں بلکہ صدیوں سے تعصب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی مرتبہ تو عیسائی حکومتوں سے بچنے کےلیے مسلمانوں کی سلطنتوں میں ان کو پناہ دی گئی۔ انیسویں صدی میں ماحول اتنا خراب ہو چکا تھا کہ کئی پڑھے لکھے یہودیوں نے اپنی’ جیرمنیات‘ ثابت کرنے کے لیے اپنا مذہب ترک کیا اور یا تو الحاد کااعلان کیا یا عیسائی ہو جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے باوجود ان پرمظالم بڑھتےگئے۔ ایسےہی آج بھی مسلمانوں میں لوگ ہیں جو حکومت کو خوش کرنے کے لیے اپنی شناخت کو بدل رہے ہیں گوکہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آخر میں یہ بھی نہیں بچ پائیں گے۔ ہاں اگر اپنی مرضی سے کوئی اپنا عقیدہ بدلے تو پِھر وہ الگ بات ہے ۔
نازی جرمنی کی تاریخ اگر پڑھی جائے تو واضح یہ ہوگا کہ وہاں پہلے عوام کو یہودیوں کے خلاف ورغلایا گیا اور عام لوگوں میں نفرت کا زہر بھر دیا گیا ۔ اس کے بعدیہودیوںکو عوام سے رفتہ رفتہ الگ کیا گیا اور ان کے علاقے اور اسکول وغیرہ الگ کر دیئے گئے۔ پِھر ہٹلر یوتھ ، ایس اے اورایس ایس کے ذریعہ یہودیوں کےکاروبار اور ان کے گھروں پر حملے کروائے گئے اور آخر میں قانون کو ہی ہتھیاربنا کر یہودیوں کی املاک اور حتیٰ کہ ان کے گھروں کو ضبط کرکے ان کی شریعت کو ہی چھین لیا گیا۔ ۱۰؍ نومبر۱۹۳۸ء کو’کریسٹال ناچٹ‘یعنی’ٹوٹےہوئےشیشوںکی رات‘کے نام سے جانا گیا کیونکہ اس دن جرمنی اور آسڑیا میں۲۶۰؍ سے زیادہ یہودیوں کی عبادت گاہیں ،۷؍ہزارسے زیادہ دکانیں ، اسکول ، اسپتال ، گھر اور کارخانوں پر باقاعدہ حملہ کیا گیا ۔ ان کی تباہی کی وجہ سے مختلف شہروں کی سڑکوں پر شیشے کے ٹکڑے بھر گئے لیکن جرمنی کی پولیس خاموشی سے دیکھتی رہی اور کچھ نہیں بولی۔۳۰؍ہزاریہودیوںکو قیدی بنا کر کیمپ میں ڈالا گیا۔ ان تمام چیزوں کا سبب ؟ پیرس میں ایک۱۷؍ سالہ یہودی نوجوان کےہاتھوں ایک نازی افسر کا قتل۔ برسوں سے پھیلا ہواپروپیگنڈا ایک شب میں بارود کی طرح دوگھ گیا ۔ یہ سب اسٹرماب ٹیلنگ( ایس ایس اے ) نام کی ایک تنظیم نے کیا جو ایک پیرا ملٹری گروپ تھا جو نازیوں کی ریلیوںمیں ڈیوٹی کرتا تھا اور حزب مخالف کے لوگوں کو تنگ اور پریشان کرتے تھے ۔ یوں سمجھیے کہ ا یس اے اس زمانے کا بجرنگ دل اور ہندو یواوہنی تھا ۔ اب شاید آپ کو سمجھ میں آ رہا ہوگا کہ ہم سب کو اس زمانے کی تاریخ کیوں پڑھنا چاہئے ۔فی الحال ان مراحل کو طے کرنے کے لیے فقط ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کی مسلمان ان تمام دیگر لوگوں کے ساتھ شانہ با شانہ کھڑے ہو کر ان کی آواز بنے جن پر ان کی ذات ، مذہب ،برادری ، قوم یا ان کے قائدکی وجہ سے حملے ہورہےہیں۔
8جون ، 2019، بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/even-today-billions-indians-strongly/d/118834
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism