علی خان
23 مارچ، 2013
ڈیرہ اسمٰعیل خاں سے دمشق تک اور کراچی سے کربلاتک بعض لوگ مسلمانو ں کو قتل کرنے پر آمادہ ہیں۔ تقریباً روز پاکستان سے خبر ملتی ہے کہ کسی شیعہ ڈاکٹر ، وکیل ، مزدور بلکہ راہ گیر تک کو شکار کی طرح کھوج کھوج کے مارا جارہا ہے ۔ حال میں پروفیسر سبط جعفر صاحب کو قتل کردیا گیا۔ اس سے پہلے لاہور کے مشہور آنکھوں کے ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے گیارہ سال کے بیٹے مرتضیٰ حیدر کو قتل کردیا گیا ۔ کوئٹہ میں آئے دن غریب ہزاروں کو بے دردی سے بسوں اور گاڑیوں سے نکال کر یا ان کے گھروں میں گھس کر ان کو قتل کیا جاتاہے، عراق میں ہر دوسرے دن بم دھماکوں کی خبر ملتی ہے۔ ذہن میں خیال آتا ہے کہ نہ جانے کتنی عورتیں بیوہ ہوگی، کتنے بچے یتیم ہوئے ہوں گے کتنے لوگوں کے خاندان اجڑ ہوں گے ۔ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک اور شر ق ایشیا کے کئی ملکوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ اب دمشق سے تازہ خبر ملی ہے کہ شیخ محمد سعید رمضان البوطی اور 42 دیگر افراد مسجد میں خود کشی حملے کے شکار ہوگئے ۔ ان لوگو میں شیخ البوطی کا پوتا بھی مارا گیا تھا۔ شیخ البوطی فقی اعتبار سے حنفی تھے اور عالمی سطح پر ایک مشہور معروف عالم دین، مصنف اور مفکر تھے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اسلام کے نام پر مسلمانوں کو کیوں اور کیسے مارا جارہا ہے ؟
پہلی اہم بات تو یہ ہے کہ اگر ان تنظیموں اور اداروں کا جائزہ لیا جائے جو اس قتل و غارت کو ہوا دیتے ہیں تو فوراً یہ واضح ہوگا کہ ان لوگوں کا ان طاغوتی طاقتوں سے تعلق ہے جو مسلمانوں کو برباد کرناچاہتے ہیں۔ یعنی لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے جب اسلام کا خدا خود حافظ ہے۔ بہر حال پچھلی صدی کی تاریخ کا مختصر مطالعہ کیا جائے تو بہت جلد واضح ہوگا کہ آج جو لگ دہشت پھیلا رہے ہیں وہ کل ان ہی طاغوتی طاقتوں کی آغوش میں پلے بڑھے تھے جن کو آج وہ برا بھلا کہتے ہیں ۔ روسیوں کے خلاف مجاہدین کو کس نے تیار کیا تھا؟ دوسری اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی حمایت ان مسلمانوں نے بھی کی ہے جو ایک طرف اپنے کو فخر سے خادم دین کہلواتے ہیں اور دوسری طرف نفع کے لالچ میں ان لوگوں کے ہاتھ بک چکے ہیں جو مسلمانوں کی عزت و آبرو لوٹنے پر آمادہ ہیں۔ یہ لوگ وہی ہیں جو ایک طرف تکفیر کے فتوے جاری کرتے ہیں اور دوسری طرف اپے ملکوں کی عزت ان طاقتوں کے سپرد کرتے ہیں جو اسی جستجو میں ہیں کہ مسلمان آپس میں لڑکر ایک دوسرے کو تباہ کر بیٹھیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ لوگ صرف اس کرۂ ارض کے ایک مخصوص حصے میں پائے جاتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری دنیا میں چھائے ہوئے ہیں حتیٰ کہ ہندوستان میں بھی موجود ہیں۔ لازم یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں اور اس بات پر غور کر یں کہ ان کی حرکتوں سے کس کے ہاتھ مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔
آج آپ انٹر نیٹ کے ذریعے گوگل پر ‘تکفیر’ اسلام اور ہندوستان دیکھیں تو بے شمار ویب سائٹ ملیں گی جس میں اوروں کے عقائد پر ایسے تبصرے کیے جاتے ہیں جیسے لوگ خود فتویٰ دینے کے لیے تیار ہیں ۔ انٹر نیٹ ایک بہت ہی عمدہ اور زبردست چیز ہے لیکن اس کی ایک خرابی یہ ہے کہ ہر شخص اپنے کو عالم دین بلکہ ہرفن مولا سمجھنے لگا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ایسی باتیں صرف لوگوں کی ذاتی ویب سائٹوں پر ملتی ہیں بلکہ کئی ادارے بھی ایسے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے اوروں کے عقائد کے متعلق یوں فتوے جاری کرتے ہیں جیسے خبریں جاری کی جاتی ہیں۔
آج مسلمان ہزارو ں اور لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پرنکل آتے ہیں اگر مغربی ممالک کے خلاف احتجاج کرنا ہو لیکن جب وہ لوگ جو اپنے کو مسلمان کہتے ہیں اسلام کے نام پر ظلم اور تباہی پھیلا تے ہیں تو ایسی خاموشی چھا جاتی ہے جیسے کہ سب کی زبانوں پر مہر لگادی گئی ہو۔ مسلمان کب بیدار ہوں گے؟
اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلام کا تنزل کیوں ہوا ہے ؟ پہلے تو میں یہ غلط فہمی دور کرتا ہوں کہ اسلام کا تنزل ہوا ہے کیونکہ اسلام کی سلامتی کادعویٰ تو ہمارے معبود نے قرآن میں کیا ہے ۔ ہاں اتنا ہے کہ اسلامی مجتمعوں میں اور مسلمانوں میں عجیب وغریب رکودو جمود نظر آتا ہے او ر پسماندگی او ر انتشار ہر طرف سے ہم کو گھیر ے ہوئے ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجوہ و اسباب پر ایک نہیں درجنوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن ایک بات تو کہنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم ایک حد تک اپنی ا س حالت کے ذمہ دار ہیں۔ یہ آپس کی جنگ و جہد ہم کو تباہ کردے گی۔
شیخ رمضان البوطی دمشق کی مسجد اموی میں ہر جمعہ کو خطبہ پڑھتےتھے ۔ مختلف مدعو ں پر وہ بات کرتے تھے لیکن ایک چیز ہمیشہ تاکید کے ساتھ کہتے تھے او روہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو دنیا کے سامنے ایسے پیش آنا چاہئے جیسے وہ اسلام کے سفیر ہو ۔ یعنی مسلمانوں کو اس بات کا احساس ہونا ضروری ہے کہ ان کی زندگی کا اسلوب اوروں کے لیے ایک قسم کا خاموش دعوہ ہے ۔ اب کوئی انصاف سے بتائے کہ اس خون خرابے کو دیکھ کر لوگ کیا سوچیں گے؟ کہ اسلام میں تعصب اور تشدد ہے؟ کہ اسلام معاذ اللہ نفرت سکھاتا ہے ؟ اتنی عجیب بات ہے کہ شیخ البوطی کو مسجد میں قتل کیا گیا جب کہ کچھ ہی دن پہلے انہوں نے بہت فخر سے کہا تھا کہ وہ اپنے کو مسجد کا نگاہ دار تصور کرتے تھے ؟
قرآن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ سارے عالم کے لیے ہدایت کا چراغ ہے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔ تو پھر مظلوم انسانوں کی جان لینے کی اجازت کس شریعت نے دی ہے؟ عہد جاہلیت کے عربی بھی اتنے ظالم اور جابر نہ تھے جتنے وہ لوگ ہیں جو پاکستان اور دیگر ملکوں میں مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کررہے ہیں ۔
23 مارچ، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/each-muslim-be-ambassador-islam/d/11003