الحاج انصاری محمد پرویز
12 اپریل، 2014
اسلام سے قبل عورتوں کا وقار مجروح تھا ۔ عورت جب بیوی کا روپ لیتی تھی تو اسکی حیثیت لونڈی اور غلام سے زیادہ نہ تھی ۔ یہودیت عیسائیت او رہندو مذہب میں عورتوں کا استحصال کیا جاتا رہا ہے ۔ اہل عرب صنف نازک کی مظلومیت اور بیچار گی کا پورا فائدہ اٹھاتے تھے ۔ ان کی پیدائش کو ذلت و عار سمجھتے تھے ۔ معصوم و نوازائیدہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا ان میں رواج تھا ۔ عورت کو منحوس سمجھا جاتا اس سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا جاتا ۔ اس کو اپنی ملکیت اور خرید وفروخت کی شئے مانا جاتا ۔ لیکن اسلام نے عورت کو با وقار کیا انہیں عزت و اعزاز بخشا ۔
یہودیوں اور ان کے عہد نامہ قدیم کے مطابق آدمی کے فنا ہونے اور تکلیف دینے والی دنیا میں آنے کا سبب صرف اور صرف عورت ہے اور قابل صد ہزار مذمت ۔ انہیں وراثت کا حق نہیں ، یہودیوں میں عورتوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی ۔
عیسائیوں میں مظلوم صنف کو جس قدر پستی میں پھینکا جا سکتا تھا پھینک دیا ۔ چنانچہ طر طولین ( مذہبی کلمات) کے مطابق عورتیں مجرم ہوتی ہیں ۔ وہ شیطان کا دروازہ ہیں ۔ عورتوں نے ہی خدا کے حسین تصویر یعنی مرد کو ضائع کیا ۔ سینٹ پال ( مذہبی رہنما ، پادری) کے مطابق عورت کو چپ چاپ مردو ں کی تابعداری کرنا چاہئے اور عورت معلم نہیں ہوسکتی اور مرد پر حکم نہیں چلا سکتی ۔ ایک دوسری جگہ ہی پادری فرماتے ہیں کہ عورت مر د کیلئے پیدا کی گئی ہے ناکہ مرد عورت کیلئے ۔ اس لئے عورت ہر حال میں محکوم ہے اور اسے محکوم ہی رہنا ہوگا ۔
ہندو دھرم نے تو عورت کو ذلیل و خوار کرنے کی انتہا کردی ۔ چنانچہ ہندوؤں کی مقدس کتاب منو سمرتی کے باب 5 اور سطر 147 پر درج ہے کہ عورت لڑکپن میں اپنے ماں باپ جوانی میں اپنے شوہر اور بیوہ ہونے پر اپنے بیٹے ، رشتہ داروں کے اختیار میں رہے خود مختار ہوکر کبھی نہ رہے ۔ آگے مزید درج ہے کہ عورت خواہ نا بالغ ہو خواہ جوان ہو خواہ بوڑھی ہو، گھر میں کوئی کام مختاری سے نہ کرے۔ سطور 155 اور 157 پر درج ہے کہ عورت کیلئے قربانی اور برت کرنا گناہ ہے ۔ صرف شوہر کی خدمت کرنا چاہئے ۔ عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے مرنے کے بعد دوسرے شوہر کانام بھی نہ لے ۔ کم خوراکی او رنہایت سادگی سے بنا ء سنگار کے اپنی زندگی کے دن پورے کرلے ۔ منوسمرتی کے باب 9 کے سطر نمبر 17 پر درج ہے کہ جھوٹ بولنا عورتوں کا ذاتی خاصہ ہے ۔ چانکیہ ہندوؤں کا بڑا مذہبی سدھارک گزرا ہے ۔ چانکیہ نیتی کےباب اول سطر 15 پر درج کرتا ہے کہ دریا، مسلح سپاہی پنجے اور سنگھ رکھنے والے جانور، بادشاہ اور عورت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے ۔ باب دو میں لکھتا ہے کہ جھوٹ بولنا ، بغیر سوچے کام کرنا، فریب، حماقت ، طمع ناپاکی، بے رحمی یہ عورت کے جبلی عیب ہیں، باب 12 کے سطر 8 پر بیان کرتے ہیں کہ شہزادوں سے تہذیب ، اخلاق ، عالموں سے شیریں کلامی ، قمار بازوں سے دروغ گوئی اور عورتوں سے مکاری سیکھنی چاہئے ۔
باب 14 کے سطر 12 میں درج ہے کہ آگ پانی جاہل مطلق، سانپ ، خاندان شاہی اور عورت یہ سب موجب ہلاکت ہوتے ہیں ان سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے ۔ باب 15 ، سطر 5 پر درج ہے کہ دوست، خدمت گار اور عورت مفلس آدمی کو چھوڑ دیتےہیں اور جب وہ دولتمند ہوجاتے ہیں تو یہ واپس آجاتے ہیں ۔
اسلام نے عورتوں کے معاشرتی و سماجی اور تہذیبی و تمدنی حقوق کو مقرر کیا تاکہ اسے با وقار زندگی گزارنے کاموقع ملے ۔ پیدائش سے موت تک ہر معاملے اور ہر زاویہ سے اسلام نے عورت کی رہنمائی کی ہے ۔ انسان محترم ہے اور عورت بھی انسان ہے اسلئے ہر فرد کو اس کا احترام لازم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے انسان کو فضیلت دی ہے اور انسان میں عورت بھی شامل ہے ۔ معیاری زندگی کو ایمان و عمل کی پرکھ پر بتایا ۔ چنانچہ النحل کی رکوع 13 میں درج ہے جس مرد اور عورت نے بھی اچھا کام کیا اگر وہ مومن ہے تو ہم اس کو ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے بہتر اعمال کا جنہیں وہ کرتے ہیں اجر دیں گے۔
یوسف الفر ضاوی آج دنیا کے بڑے عالم اور مفتی ہیں مصر اور دبئی میں ان کے فتاوؤں کو قانونی حیثیت ہے اور عورتوں سے متعلق فتوے میں درج کرتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ کوئی ایسا دین، مذہب یا فلسفہ حیات نہیں ہے جس نے عورت کو اس کا مکمل جائز حق اور عدل و انصاف عطا کیا ہو اور اس کی نسوانیت کی حفاظت کی ہو۔ انسانیت حیثیت سے ذمہ داریوں اور فرائض کے معاملے میں عورت مرد کے برابر ہے ۔ ماں کی حیثیت یہ بتائی کہ اس کے پیروں تلے جنت ہے۔
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتو ں کی زندگی پر قسم کے افراط و تفریط سے پاک تھی ۔ سارے معاملات کی طرح اس معاملے کے عورتیں پردہ میں رہیں ان کے یہاں اعتدال تھا نہ وہ گھروں میں اس طرح قید تھیں جس طرح بعض نادان قسم کے دیندار لوگ اپنی عورتوں کو رکھتے ہیں نہ مغرب کی عورتوں کی طرح سار اوقت گھر سے باہر نکلنے کی آزادی تھی لیکن اخلاقی پابندیوں کے ساتھ چنانچہ عورتیں مسجدوں میں نماز پنجگانہ اور جمعہ ادا کرتی تھیں ۔ علم حاصل کرنے کے لئے درس تدریس کی مجلسوں میں شریک ہوتیں ۔ جہاد و جنگ کے موقع پر میدان جنگ میں بھی کئی ذمہ داریاں اٹھاتیں ۔ سماج میں پھیلی برائیوں کو دور کرنے کی سعی کرتیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دوڑ خلافت میں حضرت شفا بنت عبداللہ کو بازار کانگراں مقرر کیا تھا کہ بازار میں لوٹ مار نہ ہو ۔چیزوں کا ذخیرہ کر کے زیادہ داموں میں نہ بیچا جائے ، کم تول کر یا مال کو اعلیٰ بتا کر فروخت نہ کیا جائے ۔
الغرض مرد اور عورتیں دونوں معاشرے کا حصہ ہیں اور دونوں کو مل کر معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنا ہے اس لئے مطمئن ہوکر کسی جگہ ساتھ اٹھنا بیٹھنا بھی ضروری ہو ۔ جب کوئی عظیم مقصد کا حصول مقصد ہو یا کسی بھلائی اور نیک کام کی انجام دہی میں عورت مرد دونوں کی مشترکہ جد وجہد اور باہمی تعاون کی ضرورت ہو ۔ لیکن اس اختلاط کی بھی اسلام ( شریعت) نے ایک حد بتائی ہے ۔
اسلام نے عورتوں کو بہت سے حقوق دیئے ہیں ۔ جن میں اہم ہیں، پیدائش سے جوانی تک اچھی پرورش کا حق، تعلیم و تربیت کا حق، شادی نکاح اپنی ذاتی رضا مندی سے کرنے کا حق و شوہر کے ساتھ شراکت داری میں یا ذاتی کاروبار کرنے کا حق، حق ملازمت، بچے جب تک جوان نہیں ہوجاتے ( خاص طور سے لڑکیاں ) اور کسی وجہ سے شوہر اور صاحبزادہ کی ملکیت میں وارث ہونے کا حق، چنانچہ وہ کاشتکاری ، تجارت، صنعت و حرفت یا ملازت اختیار کرکے آمدنی کر سکتی ہیں اور اس طرح ہونے والی آمدنی پر صرف اور صرف اس عورت ہی کا اختیار ہوگا ۔ عورت کو بھی حق ہے ۔ ( شوہر سے علیحدگی کا حق)
12 اپریل، 2014 بشکریہ : اردو ٹائمس ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/women-rights-islam-other-religions/d/66550