الدکتور فرقان مہربان المدنی
20اپریل، 2017
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام دین فطرت ہے۔ ہر طرح سے وہ کامل و مکمل ہے۔ اس میں کسی طرح کی بھی افراط و تفریط نہیں ہے۔ اسلام کا مقصد انسانی، دینی و دنیوی زندگی کی ہر طرح سے خوش گوار بنانا ہے، تاکہ اس کا رب تعالیٰ اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے راضی ہوجائیں اور دنیا والے ا س کے تمام متعلقین بھی خوش رہیں ۔ وہ حقوق اللہ اور حقو العباد دونوں کا ادا کرنے والا بن جائے ۔ اس سے پتہ چلا کہ اسلام ایسی شاہراہ ہے جس پر انسان چل کر اپنی زندگی کے دامن کو بہت سی ناخوشگوار یوں، تکلیفوں ، مصیبتوں اور اذیتوں سے ہر طرح محفو ظ رکھ سکتا ہے ۔ قرآن و حدیث کے مطابق ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی واقع ہوتی ہے۔ اور ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی نافذ کرنے کے فتوے کے نتیجہ میں مروّجہ حلالہ حرام ہے، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ تین طلاق کے مسئلے میں قرآن وحدیث کا اتباع کرنے والے مسلمانوں کی حق اور سچ آواز کو دبایا جارہا ہے۔ او رمحققین متبعین قرآن و حدیث کے اس فتوے کو رد کرنے کے لئے مفلدین حضرات کے مقلد علمائے کرام اور مفتیان عظام ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کرنے کے اپنے غلط فتوے کو جو قرآن و حدیث سے قابل اعتماد دلائل سے جب خالی پاتے ہیں تو اپنے بچاؤ کے لئے اپنے فقہی تقلیدی مسلک کی آڑ لیتے ہیں۔ اپنے غیر معصوم اماموں کی، اپنے باپ دادا کی، اپنے مشائخ او رعلماء کی اندھی تقلید کا سہارا لیتے ہیں ۔ او راپنی اکثریت کا دباؤ بنا کر قرآن و حدیث کا اتباع کرنے والے علمائے اسلام کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں ۔ جیسا کہ ماہنامہ ’’ترجمان دیوبند‘‘ کے ایڈیٹر صاحب نے فرمایا کہ جہاں تک تین طلاق کا تعلق ہے وہ تمام فقہی مکاتب میں نافذ ہوجاتی ہے، اس لئے اس مسئلے پر ہمیں مزید رائے زنی سے اجتناب کرناچاہئے ۔ انتہیٰ قولہ (ہمارا سماج 18-4-17)بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس طریقے پر ترجمان کے ایڈیٹر صاحب نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے او ران سے ثابت شدہ احکامات اور فتوؤں کو پس پشت ڈال دیا ہے اسی طرح وہ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا کے مسلمانوں نے بھلا دیا ہے۔ جس طرح قرآن و حدیث کے دلائل سے انہوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں، یا تجاہل عارفانہ برتا ہے، اسی طرح دنیا کے سارے مسلمانوں نے آنکھیں بند کرلی ہیں اورانہیں نظر انداز کردیا ہے، جیسے انہوں نے مسلمان عورتوں پر ہونے والے مظالم سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے اسی طرح دنیاکے دوسرے مسلمانوں کوبھی چشم پوشی اختیار کرلینی چاہئے ۔ ایک مجلس کے تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کرکے ان کو مطلقہ نائنہ مغلظہ بناکر مروّجہ حلالے پر مجبور کرکے ان کو کیسے تڑپایا جارہا ہے۔ عزت دار عورتوں کی عزت کو مروّجہ حلالہ یعنی ایک یاد و رات کیلئے طے کر کے طلاق کی شرط کے ساتھ یا دل میں اس کی نیت پر ان سے نکاح کرکے لوٹا جارہا ہے او رمانگے ہوئے سانڈ خوب مزے اُڑا رہے ہیں۔تین طلاق نافذ کر کے کس طرح خاندانوں کوتباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ کتنے ہی معصوم بچوں کو ان کی ماں کی گود سے چھین کر انہیں ماں کی محبت و شفقت سے محروم کیا جارہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فتوے پر غیر معصوم علماء ائمہ فقہاء کے فتوؤں کو ترجیح دی جارہی ہے۔ قرآن و حدیث کی بنیاد پرایک مجلس کی تین طلاق کے ایک طلاقِ رجعی واقع ہونے کا فتویٰ ہم تقریباً بیس سال سے ہندوستان میں بجنور سے دے رہے ہیں ۔ سیکڑوں پریشان حال مرد و عورت ہم سے یہ فتویٰ لے جاچکے ہیں ۔ اپنے اجڑے ہوئے گھروں کو آباد کرکے ہمیں دعائے خیر دے چکے ہیں ۔
اور اس میں کوئی شک نہیں کی ایک مجلس کی تین طلاقو ں کے تین ہی نافذ کرنے سے میاں بیوی کے درمیان صلح و مفاہمت کے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں جس سے خاندان کے خاندان اُجڑ جاتے ہیں او رمعصوم بچے بے گھر او ربے سہارا ہوجاتے ہیں ۔ مطلقہ عورت کے سامنے مصائب کے پہاڑ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وہ روتے روتے اپنی آنکھوں کے آنسوں خشک کر لیتی ہے او راس کی آنکھوں کے سامنے ہر وقت اندھیرا چھا جاتاہے۔ اسے اپنی اگلی منزل نظر نہیں آتی۔ وہ بے یار و مددگار ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ دورانِ عدت وہ شوہر کی جانب سے خرچے سے بھی محروم ہوجاتی ہے اورتین طلاق نافذ ہونے کا فتویٰ دینے والے ہمارے مقلد علمائے کرام اسے اپنے پہلے شوہر کی جانب لوٹ جانے کے لئے حلالے کی ترغیب دلاتے ہیں ، اور اس سے کہتے ہیں کہ ایک دو رات کے لئے کسی سے نکاح کرلے، یہی حلالہ ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ، دوسرا شوہر تجھے جلد ہی طلاق دے دے گا، لیکن اس کی غیرت ایمانی اس کو حلالہ کرانے سے مانع بنتی ہے ، وہ سو چتی ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو مرتے دم تک میری پیشانی پر یہ بے شرمی اور ناجائز کا م کا داغ لگا رہے گا۔ اس کے علاوہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کرنے کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ جب اس کا پہلا شوہر یا اس کے خاندان والے کسی اور شخص سے اس کا نکاح پہلے شوہر کے حلال ہونے کیلئے کرا دیتے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ وہ ایک دو رات کے بعد اسے طلاق دے دے گا اور پھر کسی وجہ سے وہ طلاق نہ دے، میاں بیوی میں ساتھ رہنے کا اتفاق ہوجائے تو پھر پہلے شوہر اور اس کے گھر والے اس دوسرے شوہر کے خلاف لاٹھی ڈنڈا اور پستول اٹھائے پھرتے ہیں کہ تونے وعدہ کیا تھا کہ میں ایک دو رات کے بعد اسے طلاق دے دوں گا، اس لئے طلاق دے، ورنہ ہم تجھے قتل کریں گے۔ جب کہ صحیح قول کے مطابق اسلام میں طلاق مکرہ جبریہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اب اندازہ لگائیے کہ اس ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی نافذ کرنے اور مروّجہ حلالہ جو ناجائزہے کرانے کے کتنے خطرناک نقصانات ہیں۔ اللہ کیلئے ایسا فتویٰ نہ دیا جائے جس سے اس مظلوم عورت کو لا متناہی پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے اور اس کے بچے اس سے چھن جائیں اور وہ اپنے ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوجائیں۔
ہٹ دھر می کرنے والے مقلدین علمائے کرام کی اندھی تقلید اور اپنی غلط بات پر ہٹ دھرمی کرنے کی وجہ سے مجھے یہ فتویٰ تفصیل سے لکھنا پڑا او راسی مفصل اور قرآن و حدیث کے دلائل سے مدلل فتوے کو ہم ہر سائل کو دے رہے ہیں۔ جس کو وہ فتویٰ چاہئے وہ ہم سے لے جائے۔ اور جس کو اس مسئلے پر مزید اطمینان کے لئے تبادلہ خیال کرنا ہو وہ ہمارے پاس آجائے یا ہم سے رابطہ کرے۔ ہم نے قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پورے دور خلافت میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں ایک ہی شمار ہوتی تھی، اسی پر اجماع قدیم تھا۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو تین طلاق زیادہ دیتے ہوئے دیکھا تو انہیں وقتی سزا کے طور پر اپنے اجتہاد سے تین کی تین نافذ کرنے کا فیصلہ فرما دیا اور اسی کے ساتھ اس طرح مجلس میں تین طلاق دینے والے مجرم مردوں کو ان کے کمر پر کوڑے مار کر سزا بھی دی ۔( مسلم شریف ، کتاب الطلاق ،رقم الحدیث :3673، 1472، و3674،1472،و 3675،و فتح الباری، شرح البخاری للحافظ ابن حجر العسقلانیی ج :9، ص :275،وسنن سعید بن منصور ، کتاب الطلاق ، باب التعدیی فی الطلاق ، رقم الحدیث 1073،وشرح معانیی الاثار اللامام الطحاوی ،ج:3،ص:59)۔
لیکن اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب اس فیصلے او راس سزا کا کوئی فائدہ نہ دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اس اجتہادی وقتی فیصلے پر ندامت کا اظہار فرمایا اور اس سے رجوع فرمالیا۔ او ریہ بھی فرمایا کہ اگر طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرکے حلالہ کرنے والے او رجس کیلئے حلالہ کیا جائے ان کو میرے پاس لایا جائے تو میں اُن کو پتھر سے مار مار کر رجم کردوں، یعنی ہلاک کردوں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کی شرط کے ساتھ نکاح کرنے والے مُحلل اور محلل لہ پر لعنت فرمائی ہے۔ اور حلالہ کے لئے نکاح کرنے والے کو مانگا ہوا سانڈ بتایا ۔ دیکھئے : (اغاثۃ اللھفان منصاید الشیطان، للا مام محمد بن أبی بکر الشھیر بابن القیم الجوزیۃ، (ت 751)، ج: 1، ص: 338-335،و حسن ، ابن ماجۃ ،الطلاق ، بات المحلل و المحلل لہ، رقم الحدیث : 1936، ومصنف عبدالرزاق بن ھمامالصنعانیی (ت:211ھ ) ج:6، ص:265، رقم :10775، ومسندسعید بن منصور، رقم :1977و 1979، والسنن الکبریٰ للبیھقیی :208-7)
اس لئے ایک مجلس کی تین طلاق آج بھی ایک ہی شمار ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دورِ خلافت میں ایک شمار ہوتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ہی سے یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا ہے۔ مقلدین علمائے اسلام کے تین کے تین نافذ کرنے کے فتووں کومصر کے اکثر مسلمانوں نے شام کے اکثر مسلمانوں نے سوڈان کے اکثر مسلمانوں نے عراق کے اکثر مسلمانوں نے اور بہت سے ملکوں کے مسلمانوں نے برسوں پہلے دیوار پر دے مارا ہے اوراپنی حکومت سے ایک مجلس کی تین طلاق کوایک شمار کرنے کے قانون کو پاس کراکر اپنی مظلوم عورتوں کے ساتھ بڑا احسان کیا ہے۔ او راب ہندوستان میں بھی ہماری یہ تمنا کوشش او ردعا ہے کہ یہ قانون یہا ں بھی پاس ہوجائے تاکہ مسلمان مظلوم عورتوں کو نا سمجھ ظالم مردو ں کے ظلم سے بچایا جاسکے اور غصہ اور طیش کی ایسی غلطی کا تدارک ہوسکے جس کا تدارک شرعی بنیاد وں پر ممکن ہے۔ اس سلسلے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی اپنا موقف حقیقت پسندانہ اور منصفانہ رکھناچاہئے ۔ بورڈ کو ایک طرفہ پالیسی نہیں رکھنی چاہئے ، اس لئے کہ بورڈ صرف فقہی تقلیدی مسلک رکھنے والے مقلدین متعصبین علماء اور مقلدین عوام ہی کا ترجمان نہیں ہے بلکہ وہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کا ترجمان ہے اور اسے صرف تقلیدی فقہی مسلک والوں کو راضی کرنے والے کتاب وسنت کے خلاف فیصلے نہیں کرنے چاہئیں ،بلکہ بورڈ کو چاہئے کہ قرآن و حدیث کے دلائل کی بنیاد پر فیصلے کرے چاہے وہ کسی کے موافق ہوں یا مخالف۔ اس لئے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اس شریعت اسلام کا ترجمان ہے جس کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہے غیر معصوم علماء کی رائے اور قیاس پر نہیں ۔اور دین اسلام جو ہر طرح سے سب کے ساتھ عدل و انصاف کا پیغام ہے۔ اس کے احکام سب کیلئے عادلانہ منصفانہ ہیں ۔ اس میں کسی پر کسی طرح کا بھی ظلم و زیادتی کی کوئی گنجائش نہیں ۔ مرد ہو یا عورت سب کے حقوق کی اس میں پوری طرح رعایت ہے۔ اور جب تک مسلمان قرآن و حدیث کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہیں گے اس وقت تک صراطِ مستقیم سے گمراہ نہ ہوں گے۔یہی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کو دی ہے۔ اور بورڈکو چاہئے کہ طلاق ثلاثہ کے مسئلے میں ہندوستان کے تمام علمائے کرام کے نمائندوں کو آمنے سامنے بٹھائے اور دونوں فریق کے دلائل کو سنے اور جو نتیجہ قرآن و حدیث کے دلائل اور تاریخی حقائق کی رو شنی میں سامنے آئے اس کے نافذ کرنے کا حکومت سے مطالبہ کرے۔ اس لئے کہ مسلم پرسنل لا ء بورڈ تمام مسلمانوں مردوں اور عورتوں کا ترجمان ہے کسی خاص فرقے یا کسی خاص تقلیدی فقہی مذہب والوں کا نہیں ۔ اب بورڈ کو اپنا یہ موقف اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا اور بلا تفریق تمام مسلمانوں کا ترجمان بننا ہوگا۔ ورنہ ایک مجلس کی تین طلاق کو قرآن و حدیث کی بنیاد پر ایک شمار کرنے کا فتویٰ دینے والے علمائے اسلام اور ان کے اس فتوے پر عمل کرنے والے مسلمانوں کا اعتماد بورڈ سے اٹھ جائے گا۔جس کی ذمہ داری بورڈ کے ذمہ داروں اور ترجمانوں پر ہوگی۔ میں یہ بات براہِ راست مسلم پرسنل لاء بورڈ کے محترم صدر صاحب سے کہنا چاہتا ہوں اور بڑے احترام کے ساتھ میری ان سے یہ بھی درخواست ہے کہ بورڈ کی ترجمانی کا فریضہ وہی محققین مبتعین قرآن و حدیث علمائے کرام انجام دیں جو قرآن و حدیث کے علم میں راسخ ہوں، پختہ ہوں، اس کے ماہر ہوں۔
20اپریل، 2017 بشکریہ : روز نامہ ہمارا سماج، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/triple-talaq-revocable-divorce-quran/d/110890
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism