علاء الاسواني
(عربی سے ترجمہ: نیو ایج اسلام)
17 اپریل، 2013
1492 ء میں سقوطِ غرناطہ ہوا جو سپین میں مسلمانوں کا آخری قلعہ تھا، ہسپانوی کیتھولک بادشاہ فرڈینینڈ اور ایزابیلا کی تیار کردہ فوج کے سامنے عربوں کے آخری بادشاہ ابو عبد اللہ کی شکست ہوئی، اگرچہ دونوں ہسپانوی بادشاہوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کے عقائد کے احترام کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے تاہم انہوں نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا اور فیصلہ کیا کہ یہودیوں کو سپین سے نکال دیا جائے (چار صدیوں بعد شاہ خوان کالورس نے اس پر معذرت کی تھی) رہے مسلمان تو انہیں عیسائیت یا قتل کے درمیان انتخاب کا موقع دیا گیا چنانچہ ایسے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا جنہوں نے عیسائیت قبول کرنے سے انکار کیا، مردوں، عورتوں اور بچوں سمیت سب کے سر تن سے جدا کردیے گئے جبکہ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد نے قتل کے خوف سے عیسائیت قبول کر لی، ان نئے عیسائیوں کو ہسپانوی زبان میں ایک تحقیر آمیز نام LOS MORISCOS سے پکارا گیا۔
تاہم مسلمانوں کو زبردستی عیسائیت قبول کروانا تو محض آغاز تھا، انتظامیہ نے ان پر عرصہء حیات تنگ کرنے کے لیے کئی متواتر اقدامات کیے تاکہ اسلامی ثقافت اور روایات کا پوری طرح سے خاتمہ کیا جاسکے جس کی وجہ سے نئے عیسائیوں نے کئی دفعہ بغاوت کی، پھر انتظامیہ نے نوٹ کیا کہ نئے عیسائیوں میں بہت سے لوگ خفیہ طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل کر رہے تھے، یہاں آکر معاملہ اور پیچیدہ ہوگیا کیونکہ قانونی طور پر نئے عیسائی باقی ہسپانویوں کی طرح کیتھولک عیسائی تھے مگر عملی طور پر وہ اندر سے مسلمان تھے جس سے یہ امکان پیدا ہوگیا کہ وہ اپنی اولاد کی پرورش اسلامی عقائد پر کریں گے اور نتیجے کے طور پر مسلمانوں کی ایک ایسی نئی نسل پیدا ہوگی جس کا وجود انتظامیہ کو قبول نہیں تھا،
مزید برآں کلیسا میں نئے عیسائیوں کے عقیدے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔۔ کیا حضرت مسیح ان کا ایمان قبول کریں گے یا وہ دائرہ ایمان سے باہر ہی رہیں گے؟ تب ایک عجیب وغریب وپُر اسرار شخصیت سامنے آئی جس نے بعد کے واقعات کی پیش رفت میں اہم کردار ادا کیا، یہ ڈومینکن گروہ کا ایک پادری ‘‘بلیڈا’’ تھا جو اپنے تقوے اور کیتھولک عقیدے کی پاکیزگی کے لیے بڑی شہرت رکھتا تھا، کافی سوچ بچار کے بعد پادری بلیڈا اس نتیجے پر پہنچا کہ کلیسا کے لیے قطعی طور پر یہ جاننا نا ممکن ہے کہ نئے عیسائی واقعی حضرتِ مسیح پر ایمان رکھتے ہیں یا وہ محض موت کے خوف سے عیسائیت کا ڈھونگ کر رہے ہیں، چنانچہ اس کا واحد حل یہی ہے کہ ان نئے عیسائیوں کو حضرتِ مسیح کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ وہ خود فیصلہ کریں کہ کیا وہ مخلص ہیں یا منافق،
چونکہ حضرتِ مسیح کے سامنے انہیں پیش کرنا صرف دوسری زندگی میں ہی ہوسکتا تھا لہذا پادری بلیڈا نے تجویز کیا کہ ان تمام نئے عیسائیوں کو فوراً قتل کردیا جائے، اس طرح موت کے بعد ان کی روحیں حضرتِ مسیح کے پاس پہنچ جائیں گی اور وہ ان کے ایمان پر فیصلہ کر سکیں گے، عجیب بات یہ ہے کہ کیتھولک کلیسا نے پادری بلیڈا کی تجویز مان لی اور اس کے لیے سرگرم بھی ہوگئی، پادری رب سے قربت اور کیتھولک عقیدے کی پاکیزگی کے لیے لاکھوں انسانوں کے قتل پر آمادہ ہوگئے تاہم ہسپانوی حکومت نے نئے عیسائیوں کی اتنی بڑی تعداد کو قتل کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ ان کی مزاحمت سے انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔۔ چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ نئے عیسائیوں کو سپین سے نکال دیا جائے، پادری بلیڈا نے یہ حل قبول کر لیا اگرچہ وہ ان کے فوری قتل کو ترجیح دیتا تھا۔۔ فرانسیسی مؤرخ جوستاف لابون (1841 - 1931) اپنی کتاب عرب کی تہذیب میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘1610ء میں ہسپانوی حکومت نے عربوں کو سپین سے نکل جانے کا حکم دیا، بیشتر عرب مہاجرین راستے میں ہی قتل کردیے گئے، پادری بلیڈا نے دورانِ ہجرت تین چوتھائی مہاجرین کے قتل پر خوشی کا اظہار کیا، خود اس نے ایک لاکھ چالیس ہزار افراد پر مشتمل قافلے کے ایک لاکھ مسلمان مہاجرین کو قتل کروایا جب وہ قافلہ افریقہ جا رہا تھا’’
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مذہبی رہنما ضمیر کی ادنی تر خلش کے بغیر اتنے سارے بے قصور انسانوں کو محض اس لیے مروانے پر کیونکر راضی ہوجاتا ہے کہ وہ اس سے مختلف عقیدہ رکھتے ہیں، حضرتِ مسیح پر ایمان جنہوں نے انسانیت کو امن ومحبت کا پیغام دیا اور پادری بلیڈا کا خونین مزاج کو آپس میں کس طرح ملایا جائے۔۔ جواب یہ ہے کہ کسی مذہب پر ایمان ہمیں لازمی طور پر زیادہ انسانیت آمیز نہیں بناتا، مذہب کو سمجھنے کا ہمارا انداز ہی ہمارے کردار کا تعین کرتا ہے، مذہب کی تعلیم ہی ہمیں رواداری، انصاف اور رحم کرنا سکھاتی ہے اور وہی ہمیں تعصب، نفرت اور تشدد پر اکساتی ہے، اگر ہم تمام مذاہب کو اللہ کی معرفت کے مختلف راستے سمجھیں اور یہ یاد رکھیں کہ مسلمان، عیسائی یا یہودی ہونے میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ عام طور پر ہم اپنے مذاہب اپنے والدین سے ورثہ میں لیتے ہیں، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ اللہ لوگوں کے مذہبی عقائد سے پہلے ان کے اعمال کا حساب لیں گے۔۔
اگر ہمارا مذہب کا مفہوم یہ ہو تو ہم یقینا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ رواداری روا رکھیں گے اور لوگوں کے مذاہب سے قطع نظر تمام انسانوں کے مساوی حقوق کا دفاع کریں گے۔۔ لیکن اگر ہمارا ایمان یہ ہو کہ ہمارا مذہب ہی وہ اکلوتی مطلق حقیقت ہے جو تمام مذاہب سے بالا تر ہے، اگر ہم یہ سمجھیں کہ فقط ہم ہی پاک مؤمن ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے غلط راستے پر چلنے والے ناپاک کفار ہیں، تب، منطقی طور پر ہم دوسروں کے مساوی حقوق کا کبھی اعتراف نہیں کریں گے اور ہمارا تعصب ہمیں یہ احساس دلائے گا کہ صرف ہم ہی اللہ کے نام کی سر بُلندی اور اس کے ارادے کی تکمیل کے لیے اللہ کی طرف سے مُجاز کیے گئے ہیں، یہ جھوٹا خدائی مُجاز نامہ ہمیں دوسروں پر تکبر اور ان کے حقوق سلب کرنے پر اکسائے گا اور شاید ضمیر کی ادنی تر خلش کے بغیر ہمیں بد ترین جرائم کرنے پر اکسائے کیونکہ ہمیں لگ رہا ہوگا کہ ہم لوگوں پر اللہ کی مرضی نافذ کر رہے ہیں۔۔ بے گناہوں کے قتل پر رضا مندی ظاہر کرتے وقت پادری بلیڈا کا ضمیر مطمئن تھا کیونکہ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ اللہ کی رضا پر عمل درآمد کر رہا ہے جو چاہتی ہے کہ سپین ایک کیتھولک ملک بنے جس میں کافر مسلمانوں اور یہودیوں کی کوئی جگہ نہ ہو۔۔
خدائی جواز دہی کا یہ احساس انسانی تاریخ میں کئی بار دہرایا گیا جس کا زیادہ تر نتیجہ بد ترین جرائم کی صورت میں سامنے آیا جو مذہب کے نام پر کیے گئے تھے۔ یہاں آپ کو پادری بلیڈا اور دہشت گرد اسامہ بن لادن میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا، اگرچہ زمانہ اور ماحول کا فرق ہے تاہم ان دونوں کی سوچ اور دنیا کو دیکھنے کا نظریہ ایک ہی ہے۔۔ دونوں کو لگتا ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے نفاذ اور دین کے دفاع کے لیے اللہ کی طرف سے مُجاز ہیں، دونوں کو ہی دوسرے مذاہب کے لوگ انسانی قدر میں خود سے کم تر نظر آتے ہیں، اور دونوں کو ہی گروہی ذمہ داری پر یقین ہے۔۔ پادری بلیڈا کی نظر میں سارے عرب کسی بھی عربی کے قول وفعل کے ذمہ دار ہیں، اور اسامہ بن لادن کی نظر میں سارا مغرب ان جرائم کا ذمہ دار ہے جو امریکیوں اور اسرائیلیوں نے عرب اور مسلمانوں پر کیے۔ خدائی جواز دہی کے تصور میں انفرادی ذمہ داری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، بن لادن کو اس بات پر کبھی قائل نہیں کیا جاسکتا کہ مغرب میں کروڑوں لوگ امریکی فوج کے جرائم کی مذمت کرتے ہیں، پادری بلیڈا کو بھی اس بات پر قائل کرنا نا ممکن ہے کہ اس کے متاثرین مسلمانوں میں ایسے کئی لوگ ہوتے جو اچھے شہری بن سکتے تھے۔۔
اللہ کی طرف سے مجاز شخص کے ذہن میں دوسروں کی زندگی کی قیمت اور حقوق مکمل طور پر معدوم ہوتے ہیں۔ غیر مسلمانوں کی زندگی کی بن لادن کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے، بالکل جس طرح پادری بلیڈا نے عربوں کی زندگیوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، دونوں نے ہزاروں بے گناہوں کو یہ سمجھتے ہوئے مار ڈالا کہ وہ ایک اچھا کام کر رہے ہیں جس سے ان کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا اور ان کے جنت میں جانے کا باعث بنے گا۔۔ جب آپ خود کو اللہ کی طرف سے مجاز سمجھنا شروع کردیتے ہیں تو آپ دوسروں کی تنقید اور محاسبہ کبھی برداشت نہیں کرتے۔
چاہے آپ کی باتیں کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں آپ خود سے مختلف لوگوں کا نہ تو احترام کریں گے اور نہ ہی ان کے حقوق کا اعتراف کریں گے۔ آپ کو لگے گا کہ آپ ہمیشہ حق پر ہیں کیونکہ آپ اللہ کا حکم بجا لا رہے ہیں، آپ حقیقتِ حال کو کبھی درست طریقے سے نہیں دیکھ پائیں گے، آپ ہمیشہ ایک بند، ساکن اور خیالی دنیا میں جیتے رہیں گے جو نہ تو کبھی ترقی کرے گی اور نہ ہی کبھی اس میں کسی طرح کا تغیر واقع ہوگا، حقیقت چاہے کتنی ہی اجلی کیوں نہ ہو آپ اس کا انکار کردیں گے اور جو بھی آپ کی خیالی دنیا پر شک کرے گا آپ اس کے خلاف جارحیت پر آمادہ ہوجائیں گے کیونکہ آپ اس خیالی دنیا کے اندر رہتے ہیں اور اگر وہ آپ سے چھین لی گئی تو آپ کی زندگی زمیں بوس ہوجائے گی، اس سے شاید ہمیں ‘‘ اخوان المسلمین’’ اور سیاسی اسلام کے دیگر وابستگان کے طرزِ عمل کو سمجھنے میں مدد ملے، ان کے برسرِ اقتدار آنے کے مہینوں بعد مصری سوچتے ہیں کہ: اخوان کیونکر دین کی نمائندگی کا دعوی کرتے ہیں جبکہ وہ مسلسل جھوٹ بولتے اور قوم سے کیے تمام وعدوں کو توڑتے آرہے ہیں اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے کمربستہ ہیں چاہے اس کی قیمت شہداء کا خون اور بذاتِ خود ملک کا خاتمہ ہی کیوں نہ ہو؟
مخالفین پر تشدد اور ان کا خون بہاتے وقت ‘‘اخوان’’ کو احساسِ جرم کیوں نہیں ہوتا؟ جواب یہ ہے کہ ‘‘اخوان’’ خود کو سیاستدان نہیں سمجھتے جو صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی، بلکہ ان کا ایمان ہے کہ اللہ نے انہیں مصر کو کفر سے بچانے کے لیے بھیجا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی مرضی کا نفاذ کر رہے ہیں چنانچہ ان عام لوگوں کی طرح جو اپنے ذہن سے سوچ کر عمل کرتے ہیں ان کا محاسبہ نہیں ہوسکتا۔۔ ‘‘ اخوان’’ کا خیال ہے کہ اللہ نے اپنے نام کی سر بُلندی اور احکام کی تعمیل کے لیے انہیں مُجاز بنایا ہے، چنانچہ جو بھی سیاسی طور پر ان پر تنقید کرے گا ان کی نظر میں وہ اسلام کا دشمن ہوگا کیونکہ وہی اسلام ہیں اور ان کے سوا کوئی اس کی نمائندگی نہیں کرتا۔
آج کے ہر واقعے کو ‘‘ اخوان’’ اسلامی تاریخ پر ڈال کر خود مسلمان اور مخالفین کو اللہ کا دشمن بنا دیتے ہیں۔ کچھ دنوں قبل ایک ‘‘اخوان’’ نے اپنے ایک کالم میں مقطم کی جھڑپوں کو غزوہ احد سے تشبیہ دی، یقیناً اخوان رسول کے صحابہ کی نمائندگی کر رہے تھے جبکہ ان کے مخالفین کفار کی، ‘‘ اخوان’’ کے نزدیک سیاسی اختلاف کی یہی ذہنی تصویر ہے، صرف وہی وہ مؤمنین ہیں جو اسلام کے احکامات لاگو کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان کے سارے مخالفین مبارک کے چمچے یا مغرب اور یہودیوں کے ایجنٹ ہیں اور یا پھر دین سے نفرت کرنے والے بے غیرت لوگ ہیں۔۔
مصر کا منظر نامہ انتہائی واضح ہے، ایک منتخب صدر اپنی پارٹی کے مفادات کے لیے ایک ڈکٹیٹر میں تبدیل ہوگیا ہے، اس نے قانون کو روند ڈالا اور ‘‘ اخوان’’ کے مرشد کے فیصلے ساری قوم پر تھوپ دیے، وہ اپنے تمام مخالفین کو کچلنے کے لیے غیر قانونی نائب کا استعمال کر رہا ہے، اس کی سیکورٹی فورسز نے سو شہری قتل کیے اور ہزاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔۔ اس کے باوجود ‘‘اخوان’’ اپنے خدائی جواز دہی کے احساس کی وجہ سے حقیقت کو دیکھنے سے قاصر ہیں، وہ ہمیشہ انکار، بحث اور مغالطوں کے لیے تیار رہتے ہیں، ‘‘اخوان’’ کو حقیقت کا قائل کرنے کا قطعی کوئی فائدہ نہیں، چاہے ‘‘ اخوان’’ کا مرشد ہزاروں مصریوں کو ہی کیوں نہ مروا دے اور چاہے اس کی سیاسی پالیسیوں سے کتنی ہی ہلاکت خیزی کیوں نہ ہو اس کے حامی اس کے ہر عمل کا دفاع کرتے رہیں گے کیونکہ ان کی نظر میں وہ اللہ کی مرضی پر عمل کر رہا ہے۔۔ ‘‘ اخوان’’ کا مرشد اسامہ بن لادن اور پادری بلیڈا کی طرح ہے، ایک ایسا شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ خدائی ارادے کا نمائندہ ہے لہذا وہ دوسروں کے حقوق پامال کرنے کے لیے ہمہ وقت کمربستہ رہتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اللہ نے ہی اس کی جماعت کے لیے اقتدار پسند کیا لہذا یہاں انسانوں کے ارادے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔
تو پھر کیا کیا جائے؟
تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ مذہبی بنیاد پرستوں کے ساتھ مفاہمت کا کوئی فائدہ نہیں ہے جو خود کو اللہ کے ارادے کی بجا آوری کا اوزار سمجھتے ہیں، باتوں اور مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، اس فاشسٹ نظام کو گرانے کے لیے دباؤ ہی حل ہے، انقلاب کو سیاست کی گلیوں اور بانجھ مذاکرات کی راہ داریوں میں گم نہیں ہونا چاہیے، ہم قبل از وقت صدارتی انتخابات اور غیر قانونی نائب کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ اس باطل آئین کو ختم کیا جائے اور قتل وغارت گری کے ذمہ داروں پر مقدمات قائم کیے جائیں جن میں سرِ فہرست محمد مرسی اور اس کا جلاد وزیرِ داخلہ محمد ابراہیم ہے، یہ منصفانہ انقلاب کے مطالبات ہیں جن سے ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا ہے اور نا ہی کسی قسم کے درمیانے حل کو قبول کرنا ہے۔۔ انقلاب فاشٹ ازم پر فتح اور اپنے تمام مقاصد کی تکمیل تک جاری رہے گا۔
ڈیموکریسی ہی حل ہے۔
URL for Arabic article:
https://newageislam.com/arabic-section/to-be-authorized-god!-/d/11113
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/to-be-authorized-god!-/d/11177