اخلاق احمد عثمانی
5 اگست، 2014
اسرائیل کے غزہ پر وحشیانہ حملوں میں بری طرح زخمی ہونے والی تئیس سال کی صائمہ حاملہ تھیں۔
خان یونس ہسپتال میں پانچ دنوں کے بعد جب صائمہ زندگی کی جنگ ہار گئی تو ڈاکٹروں نے فوراً آپریشن کر اس کے اس کے بچے کو موت کے منھ سے نکال لیا۔ لیکن غزہ میں زندگی اتنی آسان نہیں ہے۔ اسرائیلی فوج کے حملے میں بجلی گھر کے تباہ ہونے سے غزہ میں بجلی کا بحران پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے نوزائیدہ بچی کا اكيوبیٹر بھی بند ہو گیا۔ اس دنیا کو الوداع کہہ چکی صائمہ کے بطن سے زندہ نکالی گئی اس 'کراماتی بچی' کو اسرائیلی فوج کے قاتلوں نے مار ڈالا اور اس بچی کو صائمہ کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ صائمہ کی محض دو دن کی گمنام بچی بھی ان گنہگاروں میں شامل ہے جنہیں اسرائیل اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
غزہ کے جبليہ میں اقوام متحدہ کے امدادی محکمہ کے ایک اسکول پر تیس جولائی کو اسرائیل نے وحشیانہ حملہ کیا جس میں انیس افراد ہلاک ہو گئے جن میں زیادہ تر معصوم بچے ہی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے امداد رسانی کے ترجمان کرس گنس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ 'فلسطينیوں کا حق یہاں تک کہ ان کے بچوں کا بھی حق پوری طرح سےصلب کر لیا گیا ہے۔' اس کے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتے الجزيرہ ٹی وی پر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ نیوز بلیٹن کو درمیان میں ہی روکنا پڑا۔ دراصل، گنس بچوں کی دردناک موت اور زخمیوں کے دکھ درد سے دم بخود ہو گئے تھے۔ گنس کے لئے یہ نئی بات ہو سکتی ہے لیکن غزہ کے باشندوں کے لیے اسرائیل کی وحشيت و درندگی کی یہ تصویر کوئی نئی نہیں ہے۔
امریکہ سے 70.5 ارب ڈالر کے مفت ہتھیار لے چکے اسرائیل نے اگلے ہی دن ایک اور اسکول پر میزائل داغ دی۔ گنس نے رشیہ ٹوڈے (Russia Today) کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور اسرائیل انہیں وہاں بھی موت کی نیند سلا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج کو سترہ مرتبہ اس بات سے آگاہ کیا گیا تھا کہ یہاں بچے ہیں اس کے باوجود انہوں نے اسکول پر ہوائی حملہ کیا۔ غزہ میں کل ستر ہزار بچے ہیں جن کے جسموں پر لگے زخموں کو اگر بھر بھی دیا گیا تو ان کے دل پر لگی خوف و دہشت کی مار کو کیسے ٹھیک کیا جا سکے گا؟ فلسطين پر اسرائیل کے حالیہ قہر میں تقریبا ایک ماہ کے اندر (یہ مضمون سپرد قرطاس کئے جانے تک) تقریبا اٹھارہ سو فلسطين ی مارے گئے ہیں۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد غزہ پر یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے۔
اسرائیلی فوج نے ہزاروں گھروں کو خاکستر کر دیا ہے۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر بےسرو سامانی کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اسکول، کالج، یونیورسٹی، بیکری، ڈیری اور عام ضروریات کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کو منہدم کر دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں غزہ کے تین سو بچے مارے گئے ہیں جن میں دو سو بچوں کی عمر بارہ سال یا اس سے کم ہے۔ اسرائیل نے اس کے جواب میں کہا کہ ان کے حملوں میں مارے گئے لوگوں میں سینتالس فیصد لوگ دہشت گرد ہیں۔ اور اگر باقی ترپن فیصد بزرگ، خواتین اور معصوم بچھے ہیں تو اس گناہ کا جرمانہ کیا ہے؟
غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف تل ابیب میں یہودیوں کے زبردست مظاہرے سے بنیامن نتن ياهو کی حکومت ہل گئی ہے۔ پورے یورپ میں روزانہ بے شمار مظاہرے ہو رہے ہیں۔ انگلینڈ میں حکمراں پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ نے ڈیوڈ كیمرن کی سرزنش شروع کر دی ہے۔ فرانس اور جرمنی میں لوگ اپنے گھروں میں جانے کو راضی نہیں ہیں۔ امریکی عوام میں اسرائیل کے خلاف زبردست ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ اسلامی ممالک میں فطری طور پر اسرائیل کی مخالفت ہو جاری ہے۔ ہندوستان میں کمیونسٹ اور طالب علموں کی تنظیمیں تقریبا ہر روز اسرائیلی سفارت خانے کے آگے مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر وہابی جماعتیں خاموش ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
سعودی عرب کو چھوڑ کر پورے عرب میں اسرائیل کی مذمت اور مخالفت کی جا رہی ہے۔ وسیع انسانی وسائل، جوہری سلامتی اور تجارتی مفادات میں دخل رکھنے والے اسرائیل کے پاس طاقت اور توازن کا بے مثال فارمولہ ہے لیکن سیاسی ناعابت اندیشی، عدم رواداری اور امریکہ کی نقل کے چکر میں اس پر ایک غیر انسانیت نواز قوم کا لیبل لگ گیا ہے۔
جنگی اصول آداب اور شہریوں کے تحفظ سارے معیار کو بالائے طاق رکھ کر بھی کیا اسرائیل اپنا مقصد حاصل کر پائے گا؟ سوال تو یہ بھی ہے اسرائیل کا مقصد ہے کیا؟ کیا حماس کو تباہ کرکے اسے سکون حاصل ہو پائے گا؟ اگر حماس ہی اس کے مسائل کی جڑ ہے تو کیا عظیم مجاہد آزادی یاسر عرفات کی پارٹی پیلسٹائن لبرل آرگنائزیشن (PLO) اور فتح پارٹی کے زیر اثر مغربی ساحل (ویسٹ بینک) سے اسرائیل مطمئن ہے؟ حماس کے قیام کی منصوبہ بندی میں اگر کہیں اسرائیل بھی شامل تھا تو حماس اپنے ہی آقائوں کو کیوں ڈسنے لگا؟ کون ہیں جو حماس سے اپنے سیاسی مقاصد وابستہ رکھتے ہیں؟ شام سے شکست خوردہ عراق میں داخل ہونے الے دہشت زدہ وہابی دہشت گردوں کے مبینہ نسلی جہاد کا حماس اور اسرائیل کے تصادم سے کیا رشتہ ہے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پس پردہ ملنے والے سعودی عرب اور اسرائیل کے غیر قانونی رشتے میں خلل ڈالنے والوں کی طاقت زیادہ ہو گئی ہے؟
اسرائیل کا کہنا ہے اور بڑی حد تک سچ سے اس کا رشتہ بھی ہے کہ اسلامی مزاحم تحریک یعنی حماس کے جنگجو اس کی سرحد پر غیر فوجی میزائل داگتے ہیں جس سے اس کی سلامتی خطرے کی زد میں آجاتی ہے۔ اس بار کی جنگ تو تین اسرائیلیوں کے اغوا اور قتل کے بعد شروع ہوئی۔ یہ حماس ہے کیا؟ مسلم سیاسی اتحاد کے نام پر وہابی شیخوں کی دولت سے معرض وجود میں آئی اخوان المسلمین کی فلسطينی شاخ کا نام ہی حماس ہے۔ حماس کے جس بھگوڑے آقا خالد مشال کو شام نے اسرائیل کی مخالفت کے نام پر پناہ دی اسی خالد نے شام میں سپانسر شدہ خانہ جنگی اور دہشت گردی شروع ہوتے ہی مخالف دہشت گرد تنظیموں کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔
اردن سمیت کئی ممالک نے حماس کا کھیل سمجھ لینے کے بعد جب اس پر پابندی لگادی تو حماس اپنے آقا قطر کی پناہ میں آ گیا۔ دراصل، یاسر عرفات کی گاندھی وادی، سیکولر، عدم تشدد اور بین الاقوامی حمایت سے تیار کی گئی فلسطين کی آزادی کی تحریک کو تشدد کے راستے آزادی کا خواب دکھانے والا حماس ہی گمراہ کر سکتا تھا۔
جب سے حماس کی تشکیل ہوئی ہے فلسطين بھی نظریاتی اختلافات میں بٹ گیا۔ حماس کے انتہاءپسند عناصر کو غزہ اور عرفات کے حامیوں کو مغربی کنارے میں جگہ ملی۔ یہ تقسیم بڑی وسیع ہے۔ مشہور کتاب " Devil's Game: How the United States Helped English Fundamentalist Islam " کے مصنف اور امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کی 'Conspiracy Theory' کے ماہر رابرٹ ڈرائفس نے اےكيورےسي ڈاٹ آرگ سے کہا کہ حماس کی تشکیل کے ساتھ ہی غزہ پٹی میں مساجد کی تعداد دو سو سے چھ سو تک بڑھ گئی۔
ظاہر ہے کہ اس کی فنڈنگ باہر سے ہی کی گئی تھی۔ اگر حماس اسرائیل کے خلاف سازش کر رہا تھا تو غزہ میں اسے مضبوط ہونے کا موقع کیوں دیا گیا؟ ان بیس سالوں میں حماس نے ہمیشہ یاسر عرفات کی تحریک کی تنقید کی۔ حماس کی شکل میں اخوان المسلمین نے یاسر کے علاوہ پیلسٹائن لبرل آرگنائزیشن (PLO) کا ساتھ دے رہے ناصرواديو، کمیونسٹوں اور باتھ پارٹیوں کی بھرپور مخالفت کی۔ حماس کے یہ سارے راستے اسرائیل کو فائدہ پہنچانے والے تھے۔ بلکہ حماس نے اپنے پر تشدد وارداتوں سے مخالف قوموں اور میڈیا کے ایک طبقے کو فلسطين تحریک کو بدنام کرنے کا موقع دیا اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔
آج حماس کی کمان ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے جن کے ہاتھوں میں اس کی کمان 1967 میں تھی۔ اب اخوان المسلمین نام کی تنظیم قطر کے ڈکٹیٹر تمیم بن حماد اسلانی کے پیسوں سے چلتی ہے۔ وہی اخوان المسلمین جس نے مصر میں انتخابات جیت کر محمد مرسی کی حکومت بنائی تھی لیکن ایک ہی سال میں اپنے سخت وہابی اور سلفی ایجنڈے کی وجہ سے زمین بوس بھی ہو گئی۔ مصر کی لبرل سنی عوام کے غصے کی وجہ سے پیدا سیاسی بحران کا سعودی عرب نے فائدہ اٹھایا اور مصری فوج کا ساتھ دے کر اخوان المسلمین کا تختہ پلٹ دیا۔ مگر وہابی سعودی عرب نے لبرل سنی سیاسی قوتوں کی مدد کیوں کی؟
وہابی حکمت عملی پر سعودی عرب اپنی اجارہ داری چاہتا ہے یعنی قطر اگر اپنی متوازی سلطنت قائم کرے گا تو سعودی عرب اسے تباہ کرے گا۔ دوسرا بات یہ ہے کہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت بنی رہتی تو اس کی سرحد سے متصل غزہ میں حماس بھی تو اخوان المسلمین ہی ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت تباہ کر کے سعودی عرب نے غزہ میں حماس کا راستہ بند کر کے اسرائیل کو محفوظ کر دیا۔ جو اسرائیل حماس کے قیام کے دوران اسے اسلامی اتحاد میں دراڑ کی ایک سازش سمجھ کر چپ بیٹھا تھا کیا اس کی سیاسی سمجھ اتنی ہی تھی کہ وہی حماس اس کے لیے ناسور بن گیا؟
آپ شاید محسوس کر رہے ہوں گے کہ جب سے حماس اور اسرائیل کا تنازعہ شروع ہوا ہے عراق میں آئی ایس آئی ایس کے دہشت گردوں کا وحشیانہ ناچ تھم سا گیا ہے۔ عراق کے وزیر اعظم نور المالكي کے مطابق سعودی عرب کے پالے ہوئے آئی ایس آئی ایس کی دہشت گردی سے مسلم دنیا بھر میں عدم استحکام پھیل گئی تھی اور قطر کی گیس پائپ لائن منصوبہ کو بھاری نقصان پہنچا تھا۔ جب سے قطر کے حامی حماس اور اسرائیل کی جنگ شروع ہوئی ہے اسرائیل اور سعودی عرب دونو حواس باختہ ہو گئے ہیں ہے۔ چونکہ حماس کو سعودی عرب کی اب کوئی حمایت حاصل نہیں ہے تو سعودی عرب کے پیسوں پر پلنے والے مسلم رہنما اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کیوں کریں گے؟
ہندوستان میں سعودی عرب کی وکالت کرنے والے علماء نے اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرنے کے بجائے اخبارات میں یہ اپیل شائع کی کہ وہ اسرائیل کے ظلم کے خاتمے کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ دراصل، مدعیٰ یہ ہے کہ مسلمانوں کی رہنمائی کا ڈھونگ رچانے والے یہ مولانا اگر اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں تو وہابی ممالک میں یہ پیغام چلا جائے گا کہ جو مسلم تنظیم اسرائیل کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہے وہ قطر کے خیمے میں ہے۔ سعودی عرب کی تجوری سے پیسہ بھی جائے، سیاسی نقصان بھی ہو اور نام قطر کا ہو اتنے خسارے ریاض برداشت نہیں کر سکتا۔
آج حماس کی شناخت فلسطين کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک تحریک کے بجائے دہشت گرد تنظیم میں بدل چکی ہے۔ اسرائیل ساٹھ سالوں سے حملہ آور طریقے سے نمٹنے میں ساڑھے اکیس ہزار جانوں کا گنہگار بن چکا ہے۔ فلسطين اور اسرائیل کی آزادی کا منصوبہ یاسر عرفات کے پاس تھا۔ وہی یاسر جو بہت بڑے گاندھی وادی لیڈر تھے۔ گاندھی سے ہٹ کر آج پاکستان جس دہانے پر پہنچ گیا ہے یاسر کے منصوبے سے ہٹ کر اسرائیل اور حماس بھی وہیں پہنچ جائیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
(ہندی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
ماخذ:
http://www.jansatta.com/index.php?option=com_content&view=article&id=75138:2014-08-05-07-30-21&catid=20:2009-09-11-07-46-16?utm_source=vuukle&
URL for Hindi article:
https://newageislam.com/hindi-section/gaza-culprits-/d/98469
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/gaza-culprits-/d/98491