اکبر احمد
18 اکتوبر 2013
واشنگٹن، ڈی سی ۔ نیروبی، کینیا میں ویسٹ گیٹ شاپنگ مال اور پشاور، پاکستان میں آل سینٹس چرچ میں گذشتہ ماہ غم و غصے کا موجب بننے والی ہلاکتوں نے ایک بار پھر ان جائز سوالات کو جنم دیا کہ دہشت گردانہ تشدد کو روکنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ گرچہ اکثر مبصرین جبلی طور پر ان حملوں کے پیچھے کسی اسلامی جواز کا عندیہ دیتے ہیں لیکن حملہ آور خود ایسا کوئی ثبوت نہیں دیتے کہ ان حملوں کی بنیاد اسلام تھا۔
تشدد کی وجہ کے طور پر غلطی سے مذہب پر توجہ مرکوز کرنے سے اندیشہ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم حقیقی بنیادی وجوہات پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ضائع کر دیں جو مستقبل میں دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات میں کمی لانے میں ممد ہو سکتا ہے۔
پاکستانی حملوں کے ضمن میں طالبان کے ایک گروپ نے بیان دیا کہ ان کے اقدامات امریکی ڈرون حملوں کا ردعمل تھے۔ اور صومالیہ کی خونی خانہ جنگی کے نتیجے میں جنوبی صومالیہ میں وجود میں آنے والے عسکری گروپ الشباب نے یہ بیان دیا کہ نیروبی میں ان کا حملہ صومالیہ پر کینیائی حملے کا جواب تھا۔
بالخصوص معصوم لوگوں کے خلاف اس طرح کا تشدد کبھی جائز نہیں ہوتا۔ لیکن مستقبل کے حملوں کو روکنے کی خاطر کام کرنے کے لئے ان حملوں کی تحریک کو سمجھنا اہم ہے۔
صرف تشدد کے پیچھے وجوہات اور اس معاشرے (جس معاشرے سے تشدد پھوٹتا ہے) کی نوعیت کے فہم کے ذریعے ہی دنیا ان تنازعات کے خاتمے کے لئے کام کر سکتی ہے۔ اصلی بنیادوں کو سمجھنے میں غلطی سے بجائے تشدد کے خاتمے کے حکومتیں معاملات کو مزید بگاڑ سکتی ہیں۔
اپنی تازہ ترین کتاب The Thistle and the Drone: How America’s War on Terror Became a Global War on Tribal Islam میں میں نے مراکش سے جنوبی فلپائن تک مسلمان دنیا کے چالیس قبائلی معاشروں کا مطالعہ کیا۔ مجھے پتہ چلا کہ ہر ملک میں فیصلہ ساز مراکز اور پسماندہ طبقات کے درمیان ساختیاتی شکست و ریخت اور قبائلی انتقام کی روایات تشدد کی جلتی پر تیل چھڑکتی ہیں۔ اگرچہ پرجوش مذہبی تقاریر حمایت مجتمع اور متحرک کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں لیکن اسلام کا اس سے بہت کم یا بالکل بھی کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔
بیسویں صدی کے وسط میں پاکستان، کینیا اور افریقہ اور ایشیا میں دیگر سابق نوآبادیوں سے یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی واپسی کے بعد ان نو تشکیل شدہ جدید ریاستوں میں اکثر قبائلی کمیونٹیوں نے خود کو حاشیہ نشین اور حتٰی کہ برے سلوک کا نشانہ بنتا محسوس کیا۔ انہوں نے دہائیوں تک اپنی شناخت، ثقافت اور آزادی کی حفاظت کے لئے جدوجہد کی۔
پاکستان اور باقی جگہوں پر قبائلی معاشرہ امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے قبائلی حیثیت اور مذہبی قیادت کی جانب سے تعین کردہ اختیار کے روایتی ستونوں پر انحصار کرتا ہے۔ مرکز اور حاشیئے کی قوتوں کے درمیان تاریخی تنازعہ اس وقت قابو سے باہر ہو گیا جب بڑی حد تک خود مختار وزیرستان پاکستانی فوج کی مداخلت اور 2004 میں امریکی ڈرون حملوں کے آغاز کے بعد جنگ کا تھیٹر بن گیا۔ فوجی حملوں، ڈرون حملوں، خود کش بمباروں اور قبائلی آویزشوں کے مجموعی اثر نے معاشرے کے روایتی ستونوں کو چیلنج کیا اور بعض صورتوں میں تباہ بھی کر دیا۔
مارکیٹوں اور چرچوں میں معصوم لوگوں پر حملوں سے ان گروپوں نے اسلام کے ایک بنیادی اصول کی خلاف ورزی کی ہے جو قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات دونوں میں ملتا ہے۔ معصوم لوگوں بالخصوص خواتین اور بچوں کا قتل اسلام میں واضح طور پر ممنوع ہے۔
ڈرون حملے تقریباً صرف ایسے مسلمان قبیلوں کو متاثر کرتے ہیں جن کے غیرت اور انتقام کے بڑے مضبوط اصول ہیں۔ یہ قبائل افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر اور یمن، صومالیہ اور جنوبی فلپائن میں رہائش پذیر ہیں۔ ان قبائل کے لئے اس طرح کی جنگ ان کی غیرت پر حملہ ہے بالخصوص جب ان حملوں میں خواتین اور بچے مارے جاتے ہیں۔ ڈرون کے خلاف جوابی حملہ کرنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی میں ہمیں بازاروں، چرچوں اور مسجدوں میں زیادہ سے زیادہ حملے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کے بارے میں دعوٰی کیا جاتا ہے کہ یہ ردعمل میں کئے گئے ہیں۔ اس غصے کا ہدف صرف امریکہ نہیں ہوتا بلکہ وہ مقامی حکومتیں بھی ہوتی ہیں جن کو وہ ان حملوں کی اجازت دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں اور جو بڑی حد تک ان حملوں سے محفوظ ہوتی ہیں۔
تشدد کے جواب میں تشدد جنم لیتا ہے۔
اگر اسلام کی بجائے قبائلی انتقام ان گروپوں کی کارروائیوں کی بنیاد ہے تب ہم ان کے حل کے ایک جزو کے طور پر حقیقی وجوہات پر توجہ دینے کا موقع ضائع کر رہے ہیں۔ ان جنگ ذدہ علاقوں میں پائیدار امن کی خاطر کام کرنے کے لئے ہمیں لازماً اس تشدد کے سبب کی درست تفہیم حاصل کرنی چاہئے جس کا نتیجہ المناک نتائج کی صورت میں نکلتا ہے۔ اور اس تفہیم جتنی اہم ہی وہ ہمدردی اور غمگساری ہے جو ان تنازعات میں شامل تمام کمیونٹیوں کے لوگوں کے لئے ہونی چاہئے۔
جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس کو اور نیروبی اور پشاور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں لازماً عظیم یہودی کہاوت "تیکونولام" پر عمل پیرا ہونے کے لئے کوشاں ہونا چاہئے جس کا مطلب ہے اس زخمی دنیا کو تندرست کرنا۔
اکبر احمد واشنگٹن، ڈی سی میں جامعہ امریکی میں ابن خلدون چیئر برائے مطالعہ اسلام کے صدر نشین اور بروکنگز پریس سے 2013 میں شائع ہونے والی کتاب The Thistle and the Drone: How America’s War on Terror Became a Global War on Tribal Islam کے مصنف ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس Common Ground News Service (CGNews). کے لئے لکھا گیا۔
By Arrangements with CGNews
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-west/what’s-behind-nairobi-peshawar-attacks/d/14022
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/what’s-behind-nairobi-peshawar-attacks/d/14173