افغانستان کے لبرل، مغربی
حمایت یافتہ صدر حامد کرزئی نے گزشتہ ہفتے ایک "ضابطہ اخلاق" کی توثیق کی
جو علماء کے ایک بااثر کونسل کی جانب سے جاری
کی گئی تھی اور جو شوہر کو کچھ خاص حالات کے تحت بیویوں کی پٹائی کرنے کی اجازت دیتا
ہے۔ اس نے نہ ختم ہونے والi بحث کے سلسلے
کو شروع کر دیا ہے۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ ان کا مذہب اسلام انسانیت، شفقت اور حقوق نسواں کا علمبردار مذہب
ہے تو کیا وہ مذہب ممکنہ طور پر بیوی کی پٹائی کرنے کی اجازت
دیتا ہے؟
ایمن ریاض ، نیو ایج اسلام
6 مئی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحٰن، نیو ایج اسلام)
"مجھے اس شوہر کی ضرورت
نہیں ہے ... وہ مجھ پر تسلط نہیں رکھتا ہے"؟ اسلام کے اپنے ورژن کے ایک عجیب مبلغ
کے مطابق، ایک عورت نے یہ کہا۔
کیا بیویوں کو حقیقت میں " ملامت"،
"انکار کرنے" اور "پٹائی" کی ضرورت ہے؟ بیوی کی پٹائی کے موضوع
پر اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ کیا قرآن واقعی اس کی اجازت دیتا ہے، جیسا کہ بہت سے
مسلمانوں کا دعوی ہے؟
اسلام میں زیادہ متنازعہ مسائل
میں سے ایک نافرمان بیویوں کی پٹائی کرنے کے لئے شوہر کو قرآن مجید کی اجازت ہے۔ اس
کا ذکر باب نمبر 4 اور آیت 34 میں پایا جاتا ہے۔ بیوی کی پٹائی پر اضافی
حوالے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات (احادیث) اور سیرت میں پایا جاتا ہے۔ بہت
سے لوگ اسلام کی مذمت اسی سخت "اجازت"
کے سبب کرتے ہیں، بہت سے مسلمان اس کی شدت
کو کم کرنا یا اس کی دفاع کرنا چاہتے ہیں اور بہت سے مسلمان اپنے فائدے کے لئے اس کا
استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی بیویوں پر "حکمرانی" کر سکیں۔
کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے
قبل، آیت کے سیاق و سباق کو سمجھنا سب سے اچھی بات ہو گی۔ سورۃ النساء کی آیت میں کہا
گیا ہے:
"مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے
بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں،
پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ
(اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی
کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود
سے) علیحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (تادیباً ہلکا سا)
مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر (ظلم کا) کوئی راستہ تلاش نہ
کرو، بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے "
آیت4:34 پر تاریخی پس منظر
وحی کے نزول کے پیچھے کی وجہ
کے بارے میں مختلف مسلم علماء نے تفصیلات بیان کی ہیں۔ آیت 4:34 پر درج ذیل اقتباس
رازی کی تفسیر سے ہے، "التفسیر الکبیر،
ایک عورت نے پیغمبر محمد صلی
اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس کے شوہر
نے اس کے چہرے پر تماچا مارا (جس کا نشان اب بھی تھا)۔ سب سے پہلے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "اس کے ساتھ ہی جاؤ"، لیکن اس کے ساتھ
ہی مزید فرمایا: "تب تک انتظار کرو جب تک میں اس کے بارے میں غور کر لوں۔"
اس کے بعد اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر
آیت 4:34 نازل کی، جس کے بعد نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم ایک بات چاہتے تھے لیکن اللہ دوسری چاہتا تھا،
اور جو اللہ چاہتا ہے وہ سب سے بہتر ہے۔"
کچھ لوگوں کے مطابق، تاریخی
پس منظر تھوڑا سا مختلف ہے: جب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم علیہ نے مکہ سے مدینہ ہجرت
کرنے کے بعد آپ نے یہ فیصلہ دیا کہ، سماجی زندگی کے مسائل اور خدشات پر مسلم کمیونٹی
میں تبادلہ خیال ہونا شروع ہو گیا، اور مسلمان اکثر اپنے سوالات اور مسائل کے حل کے
لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ کرنے لگے تاکہ وہ خود یا اللہ کی وحی کے
ذریعہ ان کے مسائل کا حل پیش کریں۔
ایک بار ہمارے نبی (صلی اللہ
علیہ وسلم) کے سامنے ان سوالات کو لایا گیا
"اگر بیوی جان بوجھ اپنے شوہر کی نافرمانی ان معاملات میں کرے جن میں اللہ تعالی نے اس کی بیوی کو اس کے لیے جائز کیا
ہے؟ اور اگر دوسرے مردوں کے ساتھ بیوی عشق بازی کرے، یا اپنے شوہر کی عزت کا احترام
کرنے میں قابل اعتماد نہ ہو؟ ان سے کیسے نمٹا جائے؟ " ان دو سوالات کا جواب آیات - 354:34 تھیں۔
آیت35 میں ہے:
"اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم
ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ
دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا
فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے" ۔
حکم دینا، منع کرنا، کنٹرول
اور حکمرانی کرنا
www.arab-jarab.com کے ایک نام نہاد شیخ کا کہنا ہے کہ:
"ایک عورت کو تب تک سکون محسوس نہیں ہوتا ہے اور وہ خوشی نہیں ہوتی ہے جب تک وہ ایک شخص کے ماتحت
نہ ہو جو اسے حکم دیتا ہے، منع فرماتا ہے، کنٹرول اور ان کی قیادت کرتا ہے۔"
انہوں نے لفظ بہ لفظ اپنی
لاجواب یاد داشت سے یہ بھی حوالہ دیا:
"میں اس شوہر کو نہیں چاہتی ہوں، یہ مجھ پر حکم نہیں چلاتا ہے، یا حکم یا قیادت یا حکمرانی نہیں کرتا ہے۔ وہ اونچی
آواز میں بول کر مجھ پر قابو نہیں کرتا ہے۔"
میں یہ سمجھنے میں ناکام رہتا
ہوں کہ اس طرح کے خیالات کس طرح کسی کے ذہن
میں پیدا ہوتے ہیں۔ جب ایک شوہر ہر وقت اپنی بیوی کو
"حکم دیتا ہے، منع کرتا ہے، کنٹرول کرتا اور اس
کی قیادت کرتا ہے" تو اس کا دبے ہوئے اور مظلوم ہونے کا احساس کرنا لازمی ہے۔ ایک عورت کو بھی برابر کا حق ہے اور جو اس کے اور
اس کے خاندان کے لئے اسے صحیح لگے اسے وہ کرنے کا حق ہے۔ صرف اپنے شہور کے احکام کی تابعداری اسے غلام کے برابر ٹہراتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ قرآن پورے بنی نوع انسان کے لئے ایک رہنما اصول ہے اور
قرآن میں خود اللہ نے اپنی بیویوں کی پٹائی کی اجازت دی ہے، اس لئے "چھڑی کا استعمال"
کرنا ہماری ذمہ داری ہے"۔
کس کی پٹائی ہونی چاہیئے؟
اپنے پیغام کے اختتام پر نام نہاد شیخ،
مبلغ نے اپنے سامعین کو خواتین کی تین اقسام بتائی جن کی پٹائی ہونی چاہیئے:
[قرآن کہتا ہے کہ:] 'اور ان
کی پٹائی کرو' ۔ یہ آیت نہایت عمدہ نوعیت کی
ہے۔ تین قسم کی عورتیں ہوتی ہیں جن کے ساتھ ایک آدمی نہیں رہ سکتا ہے جب تک کہ وہ اپنے ہاتھ میں چھڑی نہ اٹھائے رکھے۔ پہلی قسم
وہ ہے جس میں ایک لڑکی جس کی پرورش
اس طرح کی گئی ہو۔ اس کے والدین اس کو اسکول
جانے کے لئے کہتے ہوں اور وہ نہ جاتی ہو، اور وہ اس کی پٹائی کرتے ہیں۔ جب اسے کھانے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتی ہے
کہ ، میں نہیں کھانا چاہتی ہوں۔ وہ اس کی پٹائی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ پٹائی کی عادی
ہو جاتی ہے۔ اس کی پرورش ہی اسی طرح ہوئی ہوتی ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ بعد میں
اس کے شوہر کی مدد کرے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ
تبھی رہ سکتی ہے جب تک کہ وہ پٹائی پر عمل
کرتا ہے۔
"دوسری قسم کی وہ عورتیں ہیں جو اپنے شوہر کے تئیں منکسر ہیں اور
اسے نظر انداز کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ بھی صرف چھڑی ہی مددگار ہوگی۔ تیسری قسم کی وہ
عورتیں ہیں جو گمراہ ہوتی ہیں، جو تب تک اپنے شوہر کی اطاعت نہیں کرتی ہیں جب تک کہ
وہ اس کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہیں کرتا، پٹائی کرتا، طاقت کا استعمال کرتا اور اپنی
آواز کے ذریعہ اس پر قابو نہیں کرتا ہے۔"
حل
"تینوں قسم" کی تمام خواتین کے لئے، محبت اور رحم مسئلہ کو
حل کرنے کے لئے کافی ہے۔ پٹائی کے بجائے، ان
کے ساتھ اداب و احترام کے ساتھ حسن سلوک کے
ساتھ پیش آ سکتے ہیں۔ قرآن دیگر آیات میں
بھی اس مسئلہ کا جواب دیتا ہے۔
باب 2 آیت 231
" اور انہیں محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی
کرتے رہو"
باب 4 آیت 128
" اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی جانب سے زیادتی یا بے رغبتی
کا خوف رکھتی ہو تو دونوں (میاں بیوی) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں کسی مناسب بات
پر صلح کر لیں"۔
باب 4 آیت 19 میں اللہ فرماتا
ہے کہ:
"اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں
کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس
میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ
اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز
کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے۔"
کئی احادیث میں نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے بیوی کی پٹائی سے منع فرمايا ہے۔
حضرت معاویہ القشیری سے روایت
ہے: "میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ
وسلم) کے حضور میں حاضر ہوا اور آپ سے دریافت
کیا:" آپ ہماری بیویوں کے بارے میں کیا کہتے (حکم دیتے ) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں وہی
کھانا کھلائو جو تم خود کھاتے ہو، انہیں
وہی کپڑے پہنائو جیسا تم خود پہنتے ہو اور
انہیں مت مارو، اور نہ ہی ان کو برا بھلا کہو
(سنن ابو داؤد، بک 11، میرج (کتاب النکاح) نمبر 2139) "
ایک اور حدیث میں نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جب کبھی آپ جھکائو کی طرف پہنچو گے، اسے بھی (اپنی بیوی کو) کھانا
کھلائو جب خود کھانا کھائو، جب لباس پہنو تو اسے بھی کپڑے پہنائو، اسے برا بھلا مت
کہو اور نہ ہی اس کی پٹائی کرو (سنن ابو داؤد، بک 11، میرج (کتاب النکاح) ، نمبر
2138)"
اسلام ہمیں مختلف ذرائع سے
مسئلے کا حل فراہم کرتا ہے، سب سے بہتر طریقے کے انتخاب کا انحصار ہم پر ہے۔ مثال کے
طور پر: توہین رسالت کے لئے بعض علماء کا کہنا ہے کہ سزائے موت دی جانی چاہئے، جبکہ
بعض علماء کا قول ہے، جن سے میں اتفاق کرتا ہوں:
"حکمت اور خوبصورت تبلیغ کے ساتھ سب کو خدا کی طرف بلائو اور ان
سے جو سب سے بہترین اور احسن طریقہ ہے اس سے بحث کرو۔"
تو انہیں موت کی سزا دینے
کے بجائے ہمیں ان سے بات کرنی چاہئے۔ اسی طرح
قرآن کہتا ہے کہ ایک آدمی عورت کو ہلکے سے ضرب دے سکتا ہے، لیکن کئی دوسرے مقامات
پر یہ بھی کہتا ہے کہ یہ سب سے عمدہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ شفقت اور انصاف کے
ساتھ برتائو کرو۔"
پورے عالم کی خواتین
دنیا بھر میں خاص طور پر اسلامی
دنیا میں تمام خواتین کے ساتھ سختی اور یہاں تک کہ ظالمانہ برتائو کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب: ٹی وی کی ایک پرزینٹر جن کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر نے ان کی پٹائی کی ہے، گھریلو تشدد کو اجاگر کرنے کے لئے انہوں نے اخبارات کو اپنے سوجے ہوئے چہرے کی تصاویر شائع کرنے کی اجازت
دے دی۔ رانیہ البعض کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر محمد الفلّتا نے ان کی اتنی شدید پٹائی
کی کہ ان کی ناک کی ہڈّی ٹوٹ گئی اور ان کے چہرے کی ہڈّیاں 13مقامات پر ٹوٹ گئیں۔
اسپین: 14 جنوری، 2004 کو
فینگی رولا، کوسٹا ڈیل سول، شہر کی مسجد کے
امام شیخ محمد کمال مصطفےٰ، کو بارسلونا کی ایک عدالت نے 15 ماہ کی قید اور € 2160 جرمانہ کی سزا سنائی۔ شیخ محمد کمال مصطفےٰ، کو یہ سزا اپنی کتاب
" اسلام میں عورت" کو شائع کرنے کے سبب ملی تھی جس میں مصری نژاد شیخ مصطفی نے دوسری چیزوں کے علاوہ، شرعی قانون
کے مطابق بیوی کی پٹائی کے بارے میں لکھا ہے۔
اردن میں ایک چونکانے والا
سروے‑ ایک رپورٹ کے مطابق:
· اردن کی 83 فیصد
خواتین بیوی کی پٹائی کی توثیق کرتی
ہیں، اگر بیوی شوہر کو دھوکہ دیتی ہے
· 60 فیصد خواتین بیوی پٹائی کی توثیق کرتی ہیں اگر بیوی جو کھانا پکا رہی ہے اسے وہ جلاتی ہے۔
· 52 فیصد خواتین بیوی
کی پٹائی کی توثیق کرتی ہیں اگر بیوی شوہر کے حکم کو ماننے سے انکار کرتی ہے۔
فلسطین میں، 56.9 فیصد فلسطینی
عرب کا ماننا ہے کہ ایک شخص کو اپنی بیوی کی
پٹائی کا حق ہے اگر وہ اس کی مردانگی کو حقیر
سمجھتی ہے۔
آدمی کی انا یا عورت کی شخصیت
یہ سکھائے اور بتائے جانے
کی ضرورت ہے کہ ایک عورت بہتر ہے اور ایک مرد
کی انا یا "مردانگی" کے مقابلے میں ایک اعلی سطح پر ہے۔ مردوں کو یہ تسلیم
کرنے کی ضرورت ہے کہ بعض مواقع پر عورتیں ان سے بہتر ہو سکتی ہیں، اور اس لئے انہیں
اپنی انا کو کوڑے دان میں پھینک دینا چاہئے۔
بغیر شک کے اسلامی بیوی کی
پٹائی کا عمل ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ اس کی حمایت اور اس پر عمل دنیا بھر کے مسلم طبقوں میں ہوتا ہے۔ اسے اسلامی
دنیا حقارت سے نہیں دیکھا جاتا ہے بلکہ اس
کی تعریف کی جاتی ہے!
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/does-islam-allow-wife-beating?/d/7244
URL: