New Age Islam
Tue Oct 08 2024, 02:15 PM

Urdu Section ( 4 Feb 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What is Sharia? And What Are Its Objectives? (Part 1) شریعت کیا ہے؟ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

  

ایمن ریاض، نیو ایج اسلام

27 جنوری 2014

‘شریعت’ اس اصطلاح کا استخراج و استنباط ایک خالص لغوی اور لسانی نقطہ نظر سے کیا گیا ہے جس کا معنیٰ ‘راستہ’ ہے۔ اسلام میں شریعت کا معنیٰ ایک ایسا نظام حیات ہے جس کا انتخاب اللہ نے کیا ہے اور اپنے بندوں پر اس کی تعمیل کو ضروری قرار دیا ہے۔ جب شریعت کو ایک اعلیٰ اور وسیع ترین معنوں میں دیکھا جائے تو اس سے اسلام کی فطرت ابھر کر سامنے آتی ہے جو نہ صرف یہ کہ ایک مذہبی طرز زندگی کا احاطہ کرتا ہے بلکہ یہ ایک مکمل نظام حیات بھی ہے۔ شریعت میں ان تمام باتوں کے اصول و آداب بیان کئے گئے ہیں کہ کس طرح نماز ادا کی جائے، کس طرح زکوٰۃ دی جائے، کس طرح روزے رکھے جائیں، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی معاملات میں کیا رویہ اختیار کیا جائے اور شریعت میں یہ ضابطہ بھی واضح انداز میں موجود ہے کہ میدان جنگ میں دشمنوں کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔

مذکورہ بالا تمام احکام ‘شریعت الٰہی’ کے خانے میں مندرج ہوتے ہیں، لیکن انسانوں نے جس شریعت کی تدوین کی ہے اس میں صرف فوجداری عدالت کا نظام ہی شامل ہے۔ دراصل فوجداری عدالت شریعت الٰہی کا صرف ایک پہلو ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ شریعت کا معنیٰ صرف ہاتھ اور پاؤں کاٹنا ہی ہے۔

بہت سارے لوگوں کا یہ وہم ہے کہ شریعت ایک قدیم نظام حیات ہے اسی وجہ سے یہ متروک، فرسودہ اور دقیانوسی ہے۔ شریعت کے متعلق لوگوں کی اس سوچ کی بنا پر چند سولات پیدا ہوتے ہیں: پہلا، اگر کوئی چیز قدیم ہو جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہےکہ وہ متروک، فرسودہ اور دقیانوسی ہے؟ دوسرا، اگر کوئی چیز نئی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرانی سے بہتر ہے؟ پانی کی ہی مثال لے لیں، پانی قدیم ترین شئی ہے۔ تو کیا لوگوں نے اس کا استعمال ترک کر دیا ہے؟ جن لوگوں کا یہ وہم ہے کہ شریعت ایک قدیم نظام حیات ہے اسی وجہ سے یہ متروک، فرسودہ اور دقیانوسی ہے، ان کا فضائی آلودگی، پانی کی آلودگی اور شور کی آلودگی کے بارے میں کیا خیال ہے، کیونکہ یہ تمام قسم کی آلودگیاں اس دور جدید کی پیداوار ہیں جس میں ہر جگہ بڑی بڑی صنعت کاریاں ہو رہی ہیں۔ کیا واقعی یہ تمام چیزیں انسانی زندگی کے لیے نفع بخش ہیں؟ ہمیں ایک بات ذہن میں یہ رکھنی چاہیے کہ جب ہم کسی چیز کی قد و قامت کا اندازہ لگائیں یا اس کی پیمائش کرنے کی کوشش کریں تواس کی اہمیت اور قد و قامت کی پیمائش کا پیمانہ صرف وقت اور زمانہ نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ مظروف بھی اسی معیار کا ہونا ضروری ہے جس پیمانے کا ظرف ہے۔

کچھ لوگوں کا شریعت کے بارے میں یہ بھی خیال ہے کہ اس میں تبدیلی کر کے اسے دور جدید سے ہم آہنگ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ شریعت کے داخلی پہلوؤں کے تعلق سے زبردست غلط فہمی کا شکار ہیں۔ میں پھر یہ یاد دلا دوں کہ شریعت کا بنیادی معنیٰ ایک نظام حیات ہے۔ لہٰذا جب حالات میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے تو ظاہر ہے کہ نظام میں بھی تبدیلی کی جائیگی۔

جب انسان کوئی قانون بناتا ہے تو وہ اپنے علم، عمر، تجربات اور مہارت سے قطع نظر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کا بنایا ہوا قانون کامل و اکمل ہے۔ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی قسم کا کوئی تعصب اور تصلب ضرور پایا جاتا ہے جس کا اثر اس کے فیصلے پر کسی نہ کسی صورت میں پڑنا ناگزیر ہے۔ انسان جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو کچھ نہ کچھ اس کا محرک ضرور ہوتا ہے جس سے وہ انسان متأثر ہوتا ہے، مثال کے طور پر اس مضمون کو صفحہ قرطاس پر لانے کا مقصد قارئین کو متاثر کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ خود راقم الحروف بھی اپنے شعور و ادراک یا یوں کہیں کہ اپنے ‘ادراک و شعور کی لہر’ سے متأثر ہے۔1

شریعت کی داخلی ساخت ہی ایسی ہے کہ جب جب ضرورت پیش آئے گی شریعت تبدیلیٔ حالات سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل بطریق احسن پیش کرے گی۔ اور اسے فقہ کانام دیا جاتا ہےجس کا لغوی معنیٰ ‘سمجھ بوجھ’ ہے۔ اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کس طرح کسی ایک خاص شرعی قانون کو ایک خاص زمانے میں اچھی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔

شریعت کے تعلق سے بڑے پیمانے پر پائی جانے والی ایک غلط فہمی یہ ہے کہ یہ دور جدید کی عزت و عظمت اور حقوق انسانی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ دراصل حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ آج سے ایک طویل عرصہ پہلے جب کسی حقوق انسانی کمیشن یا اقوام متحدہ کا کوئی تصور بھی نہیں تھا تب قرآن نے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ پوری نسل انسانی کو احترام و تکریم کے آخری مقام پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔

‘‘اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی’’۔ (17:70)

شریعت اسلامیہ نے ہی انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو متعین کیا ہے۔ اسلامی شریعت کے پانچ بنیادی مقاصد ہیں: ایمان، زندگی، عقل و دانش، عزت اور دولت کا تحفظ۔ حقوق انسانی کے تعلق سے انسان جو بھی سوچ سکتا ہے یا جو بھی تجویز پیش کر سکتا ہے وہ انہیں پانچوں میں سے کسی ایک میں مندرج ہوں گے۔

لوگ صرف حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن حقوق کے دوسرے پہلو میں ذمہ داریاں بھی پائی جاتی ہیں۔ اسلامی شریعت میں وہ خوبی ہے جو ان دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہا ہوں تو اس سے خود بخود کسی نہ کسی کے حقوق پورے ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں ایک بیٹے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے والدین کے بھی حقوق پورے کر رہا ہوں اور اسی طرح اس کا بر عکس بھی ہے۔ لہٰذا اسلامی شرعی نقطہ نظر سے حقوق اور ذمہ داریاں دونوں ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔

لیکن ہمیں یہاں یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ ‘‘اگر ان کے نفاذ میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا ایسا کوئی حفاظتی طریقہ کار بھی موجود نہ جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ان حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہے تو پھر ان حقوق اور ذمہ داریوں کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ اس سے شریعت اسلامیہ میں ایک انوکھی خوبی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اس سے اسلامی شریعت میں نہ صرف یہ کہ مندرجہ بالا مقاصد میں سے ہر ایک کے ساتھ ‘اوامر’ کی ایک طویل فہرست سامنے آتی ہے بلکہ اس میں ایک ایسا طریقہ کار بھی شامل ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہ تمام کے تمام حقوق اور ذمہ داریاں پوری کی جا رہی ہیں۔ اور یہ تمام کے تمام حقوق اور ذمہ داریاں دو خانوں میں منقسم ہیں: پہلا وہ ہے جسے کیا جانا چاہیے اور دوسرا وہ ہے جو نہیں کیا جانا چاہیے یعنی سابق میں مثبت مضمرات ہوتے ہیں اور لاحق منفی مضمرات کا حامل ہوتا ہے۔

اسلامی شریعت کا جو سب سے پہلا مقصد ہے اس کی بات کرتے ہیں: مثبت اور منفی معنوں میں اصول و معتقدات کا تحفظ کرنا۔ مثبت معنوں میں اس کا مطلب ہے اصول و معتقدات یعنی مذہب کی آزادی جس کا قرآن کریم میں بڑا واضح ذکر ہے (آیات کا خلاصہ) ‘‘دین میں کوئی جبر نہیں ہے’’، ‘‘تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین’’، ‘‘ائے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں گے’’۔ اس میں لوگوں کو کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کی آزادی اور اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ضروری طور پر شامل ہے۔ تاہم اس میں اپنے مذہب اور اصول و معتقدات کا دفاع کرنے کی بھی آزادی شامل ہے۔

اس کا ایک معنیٰ توہین کے خلاف کھڑا ہونا بھی ہے جس سے کہ کسی بھی مذہب کی وقعت اور حیثیت کم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بستر مرگ پر ہندؤں اور عیسائیوں کا مذہب زبردستی تبدیل کروانا، مساجد، چرچوں اور مزارات کو ڈھانامکمل طور پر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور اسی طرح لوگوں کو زبردستی ہندو مذہب یا عیسائیت یا کوئی اور مذہب قبول کرنے پر مجبور کرنا بھی شریعت کے خلاف ہے۔

‘‘یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے’’۔ (22:40)

کسی بھی مذہب کے خلاف توہین آمیز جملے کسنا شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے۔ ڈنمارک کا کارٹون، ‘Innocence of Muslims’ جیسی فلیں اور ذاکر نائک اور اس کے ہمنواؤں کی ایسی تقریریں بھی شریعت اسلامیہ کے خلاف ہیں جن میں ایسی باتیں کہی جاتی ہیں کہ ‘‘اگر دیوی جی ہوں گی تبھی تو دعوت دیں گے’’، ‘‘بائبل میں فحش انگیزیاں ہیں’’۔2

(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)

1.       David Mc Raney, You are Not so Smart

2.      ذاکر نائک کا خطاب: ‘کیا قرآن کو سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے؟’ اور ‘میڈیا اور اسلام: جنگ یا امن’۔

URL:

https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/sharia-its-objectives-(part-1)/d/35452

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/sharia-its-objectives-(part-1)/d/35588

 

Loading..

Loading..