ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
16 جولائی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
برسوں کی کوششوں (اور جنگوں) کے
باوجود کوئی اطمینان بخش طریقے سے دہشت گرد
کی وضاحت نہیں کر پایا ہے۔ شاید یہ ہگس بوسن پارٹیکل
(ذرّہ) کی مثبت پہچان کے مقابلے
زیادہ مشکل کام ہے۔
فرانسیسی انقلاب کے دوران لفظ
"دہشت گردی" کو پہلی بار مقبول کیا
گیا تھا۔ اس کے معاصر استعمال کے برعکس، اس وقت دہشت گردی کا صریحاً ایک مثبت مفہوم
تھا۔ 1793-94کا دہشت گردی کا دور حکومت جس
سے یہ انگریزی لفظ وجود میں آیا اور اسے عارضی بے نظم اور ضبط والے زمانے کی ہلچل اور اتھل پتھل کو ختم کر
نظم قائم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور
پر استعمال کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 1789 کا انقلاب سامنے آیا۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ دہشت گردی اپنے اصل سیاق و سباق میں جمہوریت کے آدرشوں اور فضیلت سے
قریب سے منسلک تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے موقع پر
دہشت گردی نے اپنے انقلابی مفہوم کو برقرار
رکھا۔ 1930 کی دہائی تک "دہشت گردی" کے معنی تبدیل ہو گئے۔ اب اس کا استعمال حکومتوں اور ان کے لیڈران
کے خلاف انقلابی تحریکوں اور تشدد کےحوالے کے لئے کم ہوتا ہے اور ایک جذبی حکومت
اور اس کے آمرانہ رہنمائوں کے ذریعہ اپنے
شہریوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جبر کے طریقوں کی وضاحت کے لئے زیادہ کیا جاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد، حالات ایک بار
پھر تبدیل ہوئے اور "دہشت گردی" کے معنی میں انقلابی
مفہوم پھر شامل ہوگیا جس کے ساتھ آج یہ سب
سے زیادہ عام طور پر منسلک کیا جاتا ہے۔
1960اور 70 کی دہائی کے آخری سالوں
کے دوران، دہشت گردی کو انقلابی سیاق و سباق کے تحت ہی دیکھا جاتا رہا۔ تاہم، اس کے استعمال میں وسعت پیدا ہوئی اور اس میں
نو آبادیاتی اور جدید نو آبادیاتی
فریم ورک میں قوم پرست اور نسلی علیحدگی
پسند گروپ کے ساتھ ہی ساتھ انتہا پسند اور مکمل طور پر اس کے ذیر اثر رہنے والی تنظیمیں شامل ہو گئیں۔
وضاحت مشکل
اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس لفظ کے معنی اور استعمال میں کئی بار تبدیلی کی گئی تاکہ مقامی سیاست اور ہر زمانے کی سیاست سے یہ مطابقت
رکھ سکے۔ دہشت گردی کی تعریف کو تشکیل دینے
میں یہ بہت زیادہ پر اسرار ثابت ہوا ہے۔
اب تقریبا بغیر کسی استثناء کےدہشت گرد تنظیمیں اپنے لئے ایسے نام منتخب کرتی
ہیں جو شعوری طور پر "دہشت گردی" کی کسی بھی شکل سے کوئی بھی
تعلق نہ رکھتی ہوں ۔ اس کے بجائے یہ
گروہ فعال طور پر آزادی، نجات ، ذاتی تحفظ، "پاک" یا صالح انتقام
وغیرہ جیسے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ تمام مثالیں اس بات جانب واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ دہشت گرد خود کو ایسے لوگوں میں شمار نہیں کرتے ہیں جیسا کہ دیگر
لوگ انہیں کرتے ہیں۔ دہشت گرد خود کو غیر آمادہ جنگ جو مانتے ہیں جو
مایوسی اور جبر کرنے والی ریاست، لوٹ
مار کرنے والی حریف نسلی یا قوم پرست گروپ یا کسی بے حس بین الاقوامی نظام کے خلاف تشدد کے علاوہ کسی اور قابل عمل متبادل کا فقدان سے حوصلہ پاتے ہیں۔
خودسے منکر ہونےکی یہ خصوصیت دہشت گردوں کو دیگر اقسام کے
سیاسی انتہا پسندوں اور ساتھ ہی ساتھ اسی طرح
غیر قانونی اور پر تشدد کارروائیوں میں ملوث افراد سے ا الگ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک کمیونسٹ یا ایک انقلابی آسانی
سے تسلیم کرتا ہے کہ وہ کمیونسٹ یا ایک انقلابی
ہے۔ اس کے برعکس دہشت گردکبھی
تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ وہ ایک دہشت
گردہیں اور ایسے کسی نتیجے یا تعلق سے بچنے
اور اسے چھپانے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
دہشت گرد ہمیشہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ معاشرہ یا حکومت یا "سماجی اقتصادی نظام" اور اس کے قوانین ہیں جو حقیقی "دہشت گرد" ہیں، اور اگر ان لوگوں
نے اس پر
ظلم و ستم نہیں کئے ہوتے تو انہیں خود
کی یا جن لوگوں کی نمائندگی کرنے کا وہ دعویٰ کرتا
ہے، ان کی دفاع کرنے کی ضرورت ہی نہیں
پڑتی۔
دہشت گردی سبجیکٹو ہے
کم سے کم ایک بات پر تو سب اتفاق
کرتے ہیں: کہ "دہشت گردی" ایک قابل مذمت اصطلاح ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک لفظ ہے جس کے منفی مفہوم ہیں جسے عام طور پر کسی کے دشمنوں اور
مخالفین، یا ان لوگوں کو جن کے ساتھ کسی شخص
کی نااتفاقی ہے اور دوسری صورت میں جنہیں نظر
انداز کرنا پسند کریں گے، ان کے لئے اس لفظ
کا استعمال ہوتا ہے۔
برائن جنکنس نے لکھا ہے: "دہشت گردی جسے کہا جاتا ہے اس کا انحصار
کسی شخص کے نقطہ نظر پر ہے۔ اس اصطلاح کے
استعمال کا مطلب ایک اخلاقی فیصلے سے ہے؛ اور اگر ایک پارٹی اپنے مخالف پر 'دہشت گرد'
کا لیبل لگا سکتی ہے تو اس نے بالواسطہ طور پر دوسروں کواپنا
اخلاقی نقطہ نظر اپنانے کے لئے قائل کر لیا۔ "
لہذا کسی فرد کو یا
کسی تنظیم کو "دہشت گرد " کا لیبل لگانے یا بلانے کا فیصلہ پوری طرح سے
سبجیکٹو ہو جاتا ہے، اور اس کا انحصار
کافی حد تک اس پر ہے کہ اس شخص یا گروپ سے کوئی ہمدردی
رکھتا ہے یا ان کے ساتھ جبر کرتا ہے یا ان
کو لے کر فکرکرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی
اپنے کو تشدد کے شکار فرد یا لوگوں کے ساتھ جوڑ کر دیکھتا ہے تو پھر یہ
عمل دہشت گردی ہوگی۔ اور اگر
کوئی اس عمل کا ارتکاب کرنے والے کے ساتھ خود کو جوڑ کر دیکھتا ہے تو تشدد کے اس عمل کے ساتھ اس کی ہمدردی ہوگی اوریہ دہشت گردی نہیں کہی جاےٗ گی۔
ما حصل:
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دہشت
گردی کے مقاصد اور محرکات ناگزیری طور پر سیاسی
ہیں؛ یہ تشدد ہےاور تشدد کی دھمکی دیتا ہے۔ یہ اس طرح کیا جاتا ہے ۔اس کی تشیل اس طرح کی گٗی
ہےکہ اس کے دور رس نفسیاتی اثر ہوں ۔ کسی ذیلی
قومی گروپ یا غیر ریاستی عناصر کے ذریعہ
اس کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
جیرارڈ چالیانڈ کے مطابق:
"ایک بین الاقوامی رجحان کے طور پر، دہشت گردی اپنے نفسیاتی اثر کے علاوہ حقیقی معنوں میں عدم استحکام کی ایک طاقت کے مقابلے میں ایک تشویش ناک اذیت زیادہ ہے ۔
اپنے غلبہ کو برقرار رکھنے کے لئے
مغربی ممالک اور خاص طور سے امریکہ دہشت گردی
کی قیمت ادا کرتے ہیں بھلے ہی وہ کم ہو۔
اگر کسی سیاسی سمجھ ہے اور اسے سیکھنے کی سمجھ ہے ، دہشت گردی
سے لڑنے کا دعویٰ کرتے ہوےٗ اسے بڑھنے سے روکنا ہے۔"
عام طور پر، کوئی بھی تحریک
جس میں تھوڑا بھی سماجی مادہ ہوتا ہے وہ دبائو کی حکمت عملی کے طور پر دہشت گردی کا استعمال کرتا ہے تاکہ حکومت سے رعایت حاصل کر سکے اور بات چیت کے ذریعہ حل نکال سکے۔
عسکریت پسند اسلام کے معاملے میں جو
خصوصیت اسے ماضی اور حال کی دیگر تمام
تحریکوں سے الگ کرتی ہے وہ یہ کہ اس میں گفت و شنید کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کی جنگ موت کے لئے ہے۔
(حصہ 2 عسکریت پسند اسلام پر مبنی
ہوگا)
URL
for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/terrorism-revolutionary-ideology-mindless-violence/d/7944
URL: