New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 01:26 AM

Urdu Section ( 24 Jul 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Terrorism: How to Deal with Militant Islam دہشت گردی: عسکریت پسند اسلام سے کس طرح نمٹیں

ایمن ریاض، نیو ایج اسلام

18جولائی، 2012

(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

ہمارے لئے  یہ  قبول کرنا ضروری ہے کہ    سیاسی اسلام، انتہا پسندی  کو  شکست دیا جانا ضروری ہے۔  مسلم دینا سے  بنیاد پرستی  کسی نہ کسی طرح ختم ہوجائےگی کی امید نہیں ہونی  چاہئے۔  سیاسی اسلام کے ساتھ گفت و شنید  ضروری ہے، جس کا اثر و رسوخ دنیا کے کچھ حصوں میں اہم ہے،  جبکہ  انتہا  پسنداسلام کے  ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتی ہے۔   دہشت گردی پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔  اگلا  قدم اسے  بار بار پیدا ہونے  سے روکنے کا ہونا چاہیئے۔   اس طرح مسلمانوں کے لئے   ایسا  مستقبل یقینی بنانا ضروری ہے جو غربت، ناخواندگی، اور کرپشن سے آزاد ہو۔  دہشت گرد گروہوں کے لئے   ہمیشہ ،مشکلات سے دو چار علاقے    زرخیز ثابت ہوتے ہیں........ یہ دو حصہ والے        سیریز کا آخری مضمون ہے۔

"اسلام نظریے اور عقیدے، وطن اور قومیت، نسل اور ریاست،  روح اور کارروائی، کتاب اور تلوار ہے۔"

- حسن البنا، 1934

مذہب اور دہشت گردی کے درمیان تعلق نیا نہیں ہے۔ 2ہزار سال پہلے جسے اب ہم دہشت گردی کہتے ہیں اس کی پہلی کارروائی مذہبی انتہا پسندوں  کے ذریعہ عمل میں آئی۔   لفظ " زیلٹ ( شدت پسند)" جس کا  ہمارے نزدیک مطلب  " غیر معتدل حامی" یا  ایک  "انتہا پسند" ہے کو اسی نام کے  مسیح کی ایک ہزار سالہ حکومت کا قائل یہودی فرقہ میں تلاش کیا جا سکتا ہے  جو موجودہ    زمانے کے  اسرائیل پر   رومن سلطنت کے قبضے کے خلاف  66-73 ء میں جنگ لڑ رہاتھا۔   لفظ " اساسن  (قاتل)" - " دھوکے سے کسی کو قتل کرنا" -  مسلمان شیعہ اسماعیلی فرقے کی ایک انتہا پسند شاخ کا نام  تھا جو  1090 ء اور 1272 ء  کے درمیان   شام اور ایران پر صلیبی جنگ کرنے والوں کو قبضہ کرنے  سے روکنے کے لئے لڑ رہا تھا۔

مذہبی اور سیکولر دہشت گردی

دہشت گردی مکمل یا جزوی طور پر مذہبی ضرورت سے ترغیب پاتی ہے،  اور اس پر عمل کرنے والے  تشدد کو  ایک مقدس فریضہ  یا  مقدس رسم    کے طور پر شمار  کرتے ہیں،  اور  دہشت گردی کے لئے سیکولر دہشت گردوں  کی طرف سے کئے جانے والے وعدہ کے مقابلے میں  اسلامی انتہا پسند   نمایاں  مختلف اقسام کے جواز اور  معقول وجہ پیش کرتے ہیں اور اسی  مخصوص  صفات کے نتیجے میں  یہ ان لوگوں کو    زیادہ خون خرابے اور تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔

19 ویں صدی تک دہشت گردی کے لئے صرف  مذہب ہی ایک جواز کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔   اس زمانے کی کئی سیاسی پیش رفت جو اس وقت   لوگوں کو ترغیب دینے کے سبب عمل میں آئیں۔  اور بنیاد پرست سیاسی سوچ کے مختلف مکتب فکر  کی بڑھتی ہوئی مقبولیت،   مارکسی نظریہ، لاقانونیت  اور فنائیت کو گلے لگانے  نے  دہشت گردی  کو مذہبی  رجحان  سے  سیکولر رجحان میں  مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔

جدید مذہبی دہشت گردی کے دوبارہ ابھرنے کو ابتدائی طور پر ایران کے اسلامی انقلاب سے  منسلک کیا گیا تھا۔  اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہیئے کہ   سرد جنگ کے بعد کے ادوار میں  دہشت گردی کے لئے   مذہب  حوصلہ افزائی کا  سب سے مقبول ذریعہ بن گیا  کیونکہ  سو ویت یونین اور کمیونسٹ نظریے  کے خاتمے کے ساتھ ہی پرانے نظریے جھوٹے ثابت ہو گئے۔ جبکہ پوری دنیا میں  کئی ممالک میں   اعتدال پسند جمہوری اور سرمایا دارانہ نظام  سے  ہونے والے بڑے فائدے  کے وعدے  ٹھوس نتائج  حاصل کرنے میں اب تک  ناکام رہے  ہیں۔

  اسلامی مقاصد  کے لئے  کئے جانے  والے دہشت گردانہ واقعات   کے نتیجے میں  ہونے والی زیادہ  اموات  کی  وجوہات  کو  مختلف نظام اقدار ، حسن اخلاق کے تصورات اور عسکریت پسند اسلامی انتہا پسندوں   اور ان کے سیکولر ہم منصب کے نظریے میں  پایا جا سکتا ہے۔

عسکریت پسند اسلامی انتہا پسندوں  کے لئے تشدد مقدس رسم یا  مقدس فریضہ ہے جو براہ راست  کچھ مذہبی مطالبہ یا ضرورت  کے سبب  عمل کیا جاتا ہے۔  اس طرح اس  قسم کی  دہشت گردی عقل سے پرے طول و عرض  کو شامل کرتا ہے ، لہٰذا اس کا ارتکاب کرنے والے  اکثر سیاسی، اخلاقی یا عملی رکاوٹوں کو نظر انداز کرتے ہیں جو  دیگر دہشت گردوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

مختلف تصورات

اسلامی عسکریت پسند  اور سیکولر دہشت گرد اپنے   اور اپنی متشدد کارروائیوں کے بارے میں مختلف تصورات رکھتے ہیں۔   جبکہ سیکولر دہشت گرد تشدد کو  ایک ایسے  نظام  جو بنیادی طور پر اچھا ہے،  کی سمت میں اصلاح  کے لئے یا ایک نئے نظام  کو تقویت دینے  کے ذریعہ کے طور پر  استعمال کرتے ہیں۔  اسلامی عسکریت پسند خود کو قائم رکھنے کے لائق  کسی نظام کے حصے کے طور پر نہیں بلکہ  ایک  " خارجی" کے طور پر دیکھتے ہیں اور موجودہ نظام میں بنیادی تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں۔

بیگانگی کا یہ احساس ہونا  اسلامی عسکریت پسندوں کو سیکولر دہشت گردوں کے مقابلے  زیادہ تباہ کن اور   مہلک اقسام کی  دہشت گردانہ  کارروائیوں پر غور کرنے  کے قابل بناتا ہے۔ اور  بے شک حملے کے لئے  "دشمنوں" کی فہرست میں  یہ ان تمام لوگوں کو شامل کرتا ہے جو  اسلام کے ماننے والے نہیں  ہیں یا  اس کے  کسی مخصوص فرقے سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔  یہ  "مقدس دہشت گردی" کی عام  بیان بازی  کو واضح کرتا ہے  جو دائرہ اسلام سے باہر کے لوگوں کو  اپنے منشور میں  بدنام کرنے  کے لئے مثال کے طور پر  "کافر"،  "کتّے"، "سور"، "بندر" اور "شیطان  کی اولاد" کہتے ہیں۔   اس طرح  کی اصطلاحات کا جان بوجھ کر استعمال دہشت گردی کو  نظر انداز کرنے  اور   اس کا جواز پیش کرنے کے لئے بہت اہم ہے، کیونکہ یہ  اسلامی عسکریت پسندوں کو  غیر انسانی یا زندہ نہ رہنے  کے لائق   ہونے کے طور پر پیش کر  کے تشدد اور خون خرابے کے سارے حدود  ختم کرتا ہے۔

علماء کا کردار اور کوئی سمجھوتہ نہیں

دہشت گردانہ  کارروائیوں کو منظوری دینے میں مذہبی اتھارٹی کا کردار ہمیشہ شیعہ اور سنی دونوں تنظیموں کے لئے اہم رہا ہے۔   اس سلسلہ میں  سلمان رشدی پر موت کی سزا نافذ کرنے والا  ایران کے آیت اللہ خمینی کا   فتوٰی  ایک اہم مثال ہے۔   اسی طرح سے 1993 میں نیویارک شہر میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر بمباری کرنے والے سنّی انتہا پسندوں نے   اپنے حملے کی منصوبہ بندی سے قبل ہی  شیخ عمر عبد  الرحمن ٰ سے فتوی حاصل کیاتھا۔

اسلامی عسکریت پسند ،  بنیاد پرست تنظیمیں اپنی جدو جہد کو   غیر مصالحانہ طور پر پیش کرتی ہیں۔  1990 کی دہائی میں الجزائر میں اسلامی جمہوریہ قائم کرنے کے لئے تحریک چلانے والے ایک لیڈر انتار ذعوبری  کے مطابق، ان کی  تنظیم کے  غیر قانونی  اور  سیکولر حکومت کے خلاف جدوجہد میں کبھی  بات چیت یا جنگ بندی نہیں ہو سکتی ہے۔  اس کی دلیل تھی کہ  خدا کے الفاظ   تبدیل نہ ہونے والے ہیں:  خدا  بات چیت یا بحث میں مشغول نہیں  ہوتا ہے۔

امام شیخ احمد ابراہیم یاسین نے مبینہ طور پر اعلان کیا ہے کہ  "حماس کی جنگ صرف اسرائیل کے خلاف نہیں ہے، بلکہ  تمام یہودیوں کے خلاف ہے۔ ساٹھ لاکھ بندروں کی اولادیں  [یعنی یہودی] اب دنیا کے تمام ممالک میں حکومت کر رہے ہیں، لیکن ان کا بھی دن آئے گا۔   اللہ! کسی کو ایک چھوڑے بغیر  ان سب کو مار ڈالے۔ "

نتیجہ: باتیں نہیں عمل کیجئے

میں نے اپنے پچھلے مضامین میں سے کسی  ایک میں لکھا ہے کہ  " غلط یا کمزور خیالات کو صرف ایک درست یا  اعلی خیال سے ختم کیا جا سکتا ہے"۔ لیکن  ہم کسی ایسے شخص سے کس طرح درست نظریے کا تبادلہ کر سکتے ہیں  جو اس قدر اندھا ہو کہ نئی چیزوں کو بھی نہ دیکھ سکتا ہو ؟   ہم کسی ایسے شخص سے کیسے  بات کر سکتے ہیں جو  بات چیت  نہ کرنا چاہتا ہو؟

جبکہ ہمیں  یہ  قبول کرنا ضروری ہے کہ    سیاسی اسلام، انتہا پسندی  کو  شکست دیا جانا ضروری ہے۔  مسلم دینا میں  بنیاد پرستی  کسی نہ کسی طرح ختم ہوجاےٗگی کی امید نہیں ہونی  چاہئے سیاسی اسلام کے ساتھ گفت و شنید  ضروری ہے، جس کا اثر و رسوخ دنیا کے کچھ حصوں میں اہم ہے،  جبکہ  انتہا  پ  سنداسلام کے  ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتا ہے۔  ۔  دہشت گردی پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کا سامنا کیا جائے۔  اگلا  قدم اسے  بار بار پیدا ہونے  سے روکنے کا ہونا چاہیئے۔   اس طرح مسلمانوں کے لئے   ایسے  مستقبل کو یقینی بنانا ضروری ہے جو کہ غربت، ناخواندگی، اور کرپشن سے آزاد ہو۔  دہشت گرد گروہوں کے لئے   ہمیشہ مشکلات سے دو چار علاقے    زرخیز ثابت ہوتے ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/terrorism-how-deal-with-militant/d/7963

URL: https://newageislam.com/urdu-section/terrorism-how-deal-with-militant/d/8033

Loading..

Loading..