ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
19 جون، 2014
بے شمار (گنتی میں زیادہ لیکن تناسب میں بہت کم) مسلمانوں کا دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کی بنیادی طور پر چار اہم وجوہات ہیں: اوّل:
تاریخ اور متن کے سیاق و سباق سے ہٹا کر منتخب قرآنی آیات کی غلط تشریح۔
دوم:
یہ عقیدہ کہ اسلام کا مقصد تمام دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل کرنا ہے اور اسلام تمام نظام حیات سے بر تر و بالا ہے۔
سوم:
بہت سے معاملات میں آدھی ہی سچائی دکھا کر مسلمانوں کے منفی پہلوؤں کو میڈیا کے ذریعہ مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا جانا۔
چہار:
جن پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے ہیں انہیں یہ لگتا ہے کہ ان کے پاس ہتھیار اٹھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس سوال کا جواب کہ "کیا ہر مسلمان کا عمل اس کے مذہب کے مطابق ہے ایک دوسرا سوال کھڑا کر کے دیا جا سکتا ہے کہ کیا ہر عیسائی/ ہندو کا عمل ان کی مذہبی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے"۔ کسی عمل کے اسلامی ہونے کے لیے اس کا اسلام کے دو بنیادی مصادر و ماخذ: قرآن اور صحیح حدیث کے مطابق ہونا لازمی ہے۔ اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ جب مختلف تشریحات پیش کی جا رہی ہیں چند قوانین کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ان دو بنیادی مصادر سے مشابہ کوئی بھی چیز محض ایک مذہبی رائے یا فتوی ہے۔ اور علماء کرام کی (رائے) 'فتاوی'بھی خطاؤں سے محفوظ نہیں ہیں۔
لفظ اسلام کا مادہ (سلم) ہے جس کا مطلب امن، اطاعت شعاری اور خلوص ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ بالا مادے سے ماخوذ الفاظ کو دیکھیں: مسلم (سلم) جو اطاعت قبول کرتا ہے؛ یسلم (سلم) اطاعت قبول کرنا؛ اسلم (سلم) اطاعت قبول کر لیا۔ لہٰذا لسانی ماخذ کی بنیاد پر اسلام کی مذہبی تعریف ہو گی: خدا، خود، اور خدا کی دیگر تخلیقات (دوسرے انسانوں، جانوروں، پودوں) کے ساتھ سکون اور ہم آہنگی حاصل کرنا۔
پہلی بات یہ ہے کہ اسلامی قوانین یا نظام حیات کے پانچ بنیادی مقاصد ہیں: 1۔ نہ صرف اپنے بلکہ دوسروں کے بھی ایمان کی حفاظت کرنا انہیں مکمل آزادی دنیا اور ان پر کبھی بھی جبر نہ کرنا (2:256)؛ 2۔ زندگی کا تحفظ (5:32)؛ 3۔ ذہن کی حفاظت (5:90)؛ 4۔ ناموس کی حفاظت (17:70)؛ اور آخری جائیداد کا تحفظ۔
دیگر کمیونٹیز کے ساتھ تعلق کے بارے میں قرآن کا واضح بیان ہے کہ مذہب، امن، اطاعت یا خلوص صرف ایک ہی ہے (3:19)۔ ایک عام دین کی تبلیغ و اشاعت تمام نبیوں نے کی ہے (اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مذاہب کے ناموں میں تبدیلی ہوتی گئی اور جزوی پیغامات میں معمولی تبدیلیاں ہوتی رہیں لیکن امن کا بنیادی پیغام اب بھی تمام مذاہب میں موجود ہے)۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ قرآن ابراہیم، موسی اور عیسیٰ (علیہم السلام) کو مسلمان قرار دیتا ہے۔ در اصل قرآن مجید تاریخ کے مختلف انبیاء کرام کا تعارف بھائیوں کے طور پر پیش کرتا ہے،آج کے ان کے چند پیروکاروں کے برعکس جو خود کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں۔ تمام انبیاء کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو ان تمام کو آپس میں مربوط کرتا ہے، اور ان کا احترام کرنا اور ان کی پیروی کرنے کی کوشش کرنا کوئی سیاسی اور میڈیا کی صداقت کا بیان نہیں ہے بلکہ یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
قرآن مجید میں ایک ایسا اہم حوالہ موجود ہے کہ جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قرآن کی سورۃ 49 آیت 13 ہے۔ خدا تمام بندوں سے کلام کرتا ہے، قرآن میں بیشتر مقامات پر ہم یہ پاتے ہیں کہ خدا صرف مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں سے براہ راست کلام کرتا ہے، قرآن میں بہت سے دوسرے مقامات پر اللہ اپنا پیغام ‘اے ایمان والوں’ کہہ کر دیتا ہے لیکن پورے قرآن میں تقریبا 200 دیگر آیات ایسی ہیں جن میں خدا کا پیغام تمام لوگوں کے کے لئے ہے:
"اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔"
نوٹ کرنے والی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے تما انسانوں کو ایک ہی جوڑے سے پیدا کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہے کہ ہم سب کی حیثیت ایک بڑے خاندان کی سی ہے۔ اس کے بعد اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ افراد اور قوموں کے درمیان اختلافات موجود ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو پہچان سکیں اور ایک دوسرے سے نفرت نہ کریں۔ یہ تنوعات میں اتحاد کا ایک واضح پیغام ہے۔ ایسا ہی پیغام قرآن کی سورۃ 30 آیت 22 میں ہے:
"اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا اختلاف (بھی) ہے، دانش مندوں کے لئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔"
اور اب زبردستی تبدیلیٔ مذہب اور غیر مسلموں کے ساتھ برے سلوک کی بات کرتے ہیں۔ قرآن میں ایسی بہت ساری آیتیں ہیں جو انتہاء پسندوں کے معمولات سے متصادم ہیں۔ اکثر آیت کا 2:256 حوالہ پیش کیا جاتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں، ایک آیت اس طرح ہے ‘‘آپ تو صرف آگاه کرنے والے ہیں’’؛ سورۃ سونس میں قرآن کا فرمان ہے "اگر وہ (اسلام کے پیغام کو سننے سے) روگردانی کریں تو آپ ان پر حاکم نہیں ہیں"؛ بہت سے مقامات پر قرآن کا فرمان ہے "آپ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے"۔
ہمارا کام صرف دہشت گردوں کی راہیں مسدود کرنا ہے۔ ہم اس کا آغاز اپنی آواز بلند کر کے کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر جب بھی ہم یہ محسوس کریں کہ جمعہ کی جماعت میں امام اسلام کی ایک قدامت پسند تصویر پیش کر رہا ہے تو اگر فوراً نہیں تو کم از کم نماز کے بعد ہمیں ان سے بحث و مباحثہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے بعد ہمیں لوگوں کو یہ تعلیم دینی چاہئے کہ اسلام کا مقصد دیگر مذاہب کو زیر کرنا نہیں ہے اس لیے کہ ہر مذہب خدا کی جانب سے ہی آیا ہے اور نجات کی طرف لے جانے والا ایک راستہ ہے۔ اس کے تحت ایک دوسرا نقطہ یہ ہے کہ اسلام کا معنی اس قدر جامع اور وسیع ہے کہ اس کے دامن میں تمام نظام حیات سما جاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ میڈیا غیر جانبدار ہو، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ اور آخری بات قابل ذکر یہ ہے کہ جبر و تشدد دہشت گردی کا جواز فراہم نہیں کرتا۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
URL for English article:
https://newageislam.com/debating-islam/islam-peaceful-problematic/d/87633
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/islam-peaceful-problematic-/d/98507