ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
6 فروری، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ۔ مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
"تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ، اور اپنے لئے آئندہ کا کچھ سامان کرلو، اور تقوٰی اختیار کرو اور جان لو کہ تم اس کے حضور پیش ہونے والے ہو، اور (اے حبیب!) آپ اہلِ ایمان کو خوشخبری سنادیں (کہ اﷲ کے حضور ان کی پیشی بہتر رہے گی (نوبل قرآن، 2:223)۔ "
اللہ جبر سے نفرت کرتا ہے، یہاں تک کہ ایک نیک کام میں بھی کو ئی جبر کرے تو اللہ اس سے نفرت کرتا ہے ۔ مجبوری کی حالت میں نیک کام کبھی بھی دل کی گہرائیوں سے نہیں کیا جائے گااور وہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی روبوٹ کا م انجام دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک شخص نماز (عبادت کا اسلامی طریقہ) ادا کرنے کا خواہش مند نہیں ہے، لیکن ایسا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے (اس کے والدین یا اساتذہ کے ذریعہ) تو، مجھے یقین ہے، کہ اس طرح کی عبادت کے لئے کوئی اجر نہیں ہو گا۔ اسی طرح اللہ کا فرمان ہے کہ اس سے پہلے کہ تم اپنی بیوی سے رجوع کرو ، کچھ اچھے کام کرلو ۔ بیشک اسے (بیوی کو ) مجبور کرنا "اچھا کام" نہیں ہو سکتا ،اور اسی وجہ سے approach کہا گیا ہے ،"جب یا جس طرح تم چاہو" لیکن اگر زبر دستی جنسی تعلق قائم کیا جائے تو ہو یہ جملہ خود کے خلاف ہو جائے گا ۔
اللہ شوہر کو ان کی بیویوں کے ساتھ سونے کی اجازت دیتا ہے، لیکن انہیں ضرور اس سے ڈرنا چائے اور اسے یاد رکھنا چاہئے، اور یہ کہ ایک دن آئے گا جب اس سے ان کی ملاقات ہوگی، جب وہ ایسا کریں گے۔ جنسی تعلقات بنانے میں اپنی بیوی کو مجبورکرنا ، یا اسے کچھ ایسا کرنے پر مجبور کرنا جس کی اسے خواہش نہیں ، اللہ تعالی کو خوش نہیں کرے گا ۔ اللہ نے ان لوگوں کو آگاہ کیا ہے جو جنسی طور پر بے رحم اور بے صبر ہیں اور اپنی بیویوں کو مجبور کرتے ہیں کہ انہیں اس سے ملنا ہے ، اور وہ ان سب کے لئے جوابدہ ہوں گے جو وہ کرتے ہیں ۔
تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا ، اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا ۔ (نوبل قرآن، 99:7-8) "
اسلام میں مرد اور عورت برابر ہیں مگر کچھ واضح مراتب میں ۔ اس کا کیا مطلب یہ ہے کہ کچھ معاملات میں ایک مرد کی ذمہ داریاں بڑی ہیں ، جبکہ کچھ دوسری معاملات میں ایک عورت کا احتساب زیادہ اعلی اور قیمتی ہے۔ اوسطا دونوں کے مراتب مساوی ہیں ۔
بعض قدامت پسند نقطۂ نظر کے مطابق ایک ایسی حدیث ہے جو ، مردوں کو ان کی بیویوں کی "عصمت دری" کی اجازت دیتا ہے۔
'اگر ایک مرد اپنی بیوی کو بستر پر بلاتا ہے اور وہ انکار کرتی ہے، اور پھر وہ غصے کی حلت میں سو جاتے ہیں ، فرشتے اس ( عورت)پر لعنت بھیجتے ہیں جب تک کہ وہ بيدار نہ ہو جائے۔ "
یہاں ہمیں بیوی کے "فرائض" پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ،کہ وہ کیوں وہ اپنے شوہر کی ضروریات کو پورا کرنے نہیں جاتی ، ہمیں شوہر پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ انہیں ان کی بیویوں کے جذبات کو سمجھنا اور اس کا احترام کرنا چاہئے۔ انہیں بہت زیادہ مصر نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ 'اپنے دین میں زیادتیوں کا ارتکاب نہ کرو ۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ ہم 'درمیانی راستہ' پر عمل کریں ۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک علامتی حدیث ہے کیونکہ اگر ہم اس کے لفظی معنیٰ کو دیکھتے ہیں تو شوہر ، بیوی دونوں کے لئے دوگنا نقصان ہو جائے گا۔ اگر بیوی کو جنسی تعلق کی خواہش نہیں ہے ، اور اس کے جسم اور خواہش کے خلاف اگر اسے مجبور کیا جا رہا ہے، تو پھراسے جسمانی نقصان ہو سکتا ہے یعنی اس کے شرمگاہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور بعض صورتوں میں، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، کہ جذباتی نقصان ہوسکتا ہے جو کہ جسمانی بدفعلی سے کہیں زیادہ دردناک اور دیرپا ہے۔ اسے ایسا محسوس ہو سکتا ہے کہ اسے "استعمال کیا گیا ہے" اور یہ احساس اس کے مستقبل میں جنسی زندگی میں مزاحم ہو سکتا ہے اورازدواجی زندگی کے حشر کے بارے میں تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔
یہ روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ: "ایک سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھوں،[جرم] سے دیگر تمام مسلمان محفوظ ہیں ، اور ایک حقیقی مؤمن وہ ہے جس سے لوگوں کی زندگی اور مال و دولت محفوظ ہے اور ایک حقیقی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے اور اسے خدا کی اطاعت پر مجبور کرتا ہے، اور ایک حقیقی مہاجر وہ ہے، جو ان تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے جسے خدا نے نامنظور کیا ہے "۔
ہمیں اپنی بیویوں کے ساتھ سختی سے کبھی نہیں پیش آنا چاہئے۔ وہ پھولوں کی طرح نازک ہیں، اللہ کا فرمان ہے :
اے ایمان والو! تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ، اور انہیں اس غرض سے نہ روک رکھو کہ جو مال تم نے انہیں دیا تھا اس میں سے کچھ (واپس) لے جاؤ سوائے اس کے کہ وہ کھلی بدکاری کی مرتکب ہوں، اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے، ( 19 :4)۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
"مومن مرد کو مومن عورت سے نفرت نہیں کرنا چاہئے۔ اگر وہ اس کی خصوصیات میں سے کسی کو ناپسند کرتا ہے ، تو اسے اس کی خصوصیات سے خوشی ملے گی ۔ ((صحیح مسلم)) "
کچھ اس سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں ، اور ان کی بیویوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہیں : "اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا ، تو میں عورت کو اس کے شوہر کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا "۔ [ترمذی]
یہ بھی ایک علامتی حدیث ہے۔ اگر یہ سچ ہوتا تو شوہر (مرد)، کو اپنے ماں کے آگے بھی سجدہ کرنا چاہئے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ بہت اچھی طرح جانا جاتا ہے: "جنت اپنی ماں کے قدموں کے نیچے ہے"۔ آخر کار ، اگر ہم منطقی طور پر دیکھیں ،تو ماں (عورت) ہی جیتتی ہے!
اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ اچھی طرح پیش آنا اور اسے اس کے تمام حقوق دینا چاہئے ۔ اچھے اور دیرپا تعلقات صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتے ہیں ،جب دونوں جوڑے مصلحت کے ساتھ رہیں اور ان کے منفی پہلوؤں کو سدھار لیں ، اور مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز کر لیں ۔
"اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔" (30:21)
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-society/ruling-marital-rape-islam/d/10297
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/ruling-marital-rape-islam-/d/10492