New Age Islam
Sun Apr 02 2023, 11:11 AM

Urdu Section ( 7 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

(The Quran: Test of Time and a Standing Challenge (Part I ) قرآن: وقت کی کسوٹی اور ایک مستقل چیلنج (حصہ 1

 

ایمن ریاض ، نیو ایج اسلام

2 اگست، 2013         

(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام)

کسی بھی  کتاب کے بارے یہ دعوی کرنے کے لئے کہ یہ  خدا ایک وحی ہے، اسے وقت کی کسوٹی پر کھڑا اترنا  چاہئے۔ ماضی میں، معجزات کا دور تھا ، پھر ادب اور شاعری کا دور آیا  اور آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ خدا نے وقت کی ضروریات کے مطابق اپنی وحی نازل کی ۔ صرف قرآن ہی ایسی مقدس کتاب ہے جو وقت کی کسوٹی پر کھڑی اترتی ہے ۔ صرف یہی ایک ایسی  کتاب ہے جو  تینوں معیار پر  کھری   اترتی ہے اس میں معجزات بھی ہیں عربی زبان میں سب سے بہترین ادب بھی  ہے  اور اس میں  سائنس کے بارے میں بہت سی نشانیاں ہیں  ۔

سب سے پہلے، سر ولیم میور  کے مطابق جو کہ اسلام کے زبردست  ناقدین میں سے ایک  ہیں، قرآن معجزوں کا معجزا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ دنیا میں ایسی  کوئی دوسری کتاب نہیں ہے  جو  اپنے خالص متن کے ساتھ بارہ صدیوں (اب چودہویں ) تک باقی رہی ہو ’’۔ 1 تقریبا ایک ارب افراد نے اس کتاب کو پڑھا اور لاکھوں نے اسے حفظ کر لیا ہے ۔ حفظ کرنے والوں کی  عمر 6 اور اس سے اوپر ہے  اور اس میں  سیاہ، سفید، امیر، غریب، عرب، غیر عرب مرد اور عورت سب شامل ہیں ۔

اس روئے زمین  پر ایسی اور کوئی کتاب نہیں ہے جسے حفظ کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو ۔ اگر ہم  دنیا میں ادب کی سب سے عمدہ کتابوں کا جائزہ لیں تو  رگ وید، پرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے، افلاطون، ارسطو، شیکسپیئر، ڈیکنس ، ٹالسٹای، میشیولی ، سن   زو وغیرہ ہیں کوئی  یہ پوچھ سکتا ہے کہ  کتنے لوگوں نے اسے  حفظ کیا ہے، ؟ مشکل سے ہی  ہم کسی  ایک شخص کو پا سکتے ہیں ۔

قرآن کے معجزا کے بارے میں  بجا طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ  بالفرض اگر دنیا کی تمام کتابوں کو  ہم جلا کر  یا  سمندر میں ڈال  کر ضائع کر دیا جائے تو صرف قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہےجسے صحیح سلامت لفظ بہ لفظ دوبارہ پیش کیا جا  سکے ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کے مختلف نسخوں کے  درمیان کوئی تضاد نہیں ہو گا۔

کینتھ کیرگ کے مطابق:

"قران کی تلاوت کا  مظہر  کا  معنی یہ ہے کہ  اس کے متن کو ایک مسلسل اور متواتر لگن  کے ساتھ  صدیوں تک  منتقل کیا گیا ہے  ۔ لہذا اس کے ساتھ نہ تو ایک قدیم چیز کے طور پر سلوک کیا جانا چاہے  اور نہ ہی قدیم ترین دور کے  کسی  تاریخی دستاویز کے طور پر ۔ حفظ کی  حقیقت نے  مسلم وقت گزر جانے کے ذریعے قرآن کو ایک موجودہ  مرتبہ  عطا کیا ہے  جس نے ہر نسل میں ایک انسانی روااج بخشا ہے  جو کہ  صرف حوالے کے  لئے اس کی   اتھارٹی کو نکالے جانے کی اجازت کبھی نہیں دیتا ہے ۔ "2

دوسری بات یہ کہ مسلم اور غیر مسلم دونوں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ قرآن عربی ادب کا بہترین نسخہ ہے ۔ اگرچہ بہت سارے ناقدین ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں قواعد کی بہت ساری غلطیاں ہیں ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ  تمام عربی قواعد  قرآن سے ہی اخذ کئے گئے ہیں ۔ یہ قواعد کی ایک  کتاب ہے۔ عرب کے مختلف قبائل میں، قواعد تبدیل ہوتے رہے ہیں  مثال کے طور پر ایک قبیلے میں کوئی  لفظ مؤنث  ہے، اور وہی لفظ دوسرے قبیلے میں مذکر ہے۔ مختلف قبائل میں جنس تبدیل ہوتے رہتے ہیں  اور یہاں تک کہ قواعد بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔

قرآن کی فصاحت  اس قدر اعلی ہے کہ یہ قواعد کے  روایتی استعمال کے خلاف بھی پایا جاتا  ہے۔ انٹرنیٹ اور کتابوں ہمیں قرآن مجید میں '11 قواعد کی  غلطیاں '، قرآن مجید میں '20 قواعد کی غلطیاں' وغیرہ ملی ہیں وہ کتابیں عیسائی مشنریوں کے ذریعہ  قرآن کو بدنام کرنے کے لئے نہیں لکھی گئی ہیں ۔ در اصل یہ نام نہاد "غلطیاں" مسلمانوں کے ذریعہ نکالی گئیں ہیں۔زمحشری جیسے مسلم علماء نے  ان "غلطیوں" کا ازالہ کیا ۔

انہوں نے یہ ثابت کرنے کے لئے مثالیں پیش کی ہیں کہ قرآن مجید میں قواعد کی  غلطیاں ہیں ۔ مثال کے طور پر، وہ کہتے ہیں کہ قرآن کا کہنا  " (اور قوم) لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا " "قوم نوح نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا " ۔ در  اصل ہم جانتے ہیں کہ  صرف ایک ہی پیغمبر قوم کی طرف  بھیجے گئے تھے ، اس لئے ان کا کہنا  یہ  ہے کہ  ان  مقام پر ‘‘پیغمبرو ں ’’  کے بجائے  ‘‘پیغمبر ’’  کا استعمال   کیا جانا چاہئے ۔ لیکن قرآن کی خوبصورتی کو دیکھیں ، چونکہ  تمام پیغمبروں کا بنیادی پیغام ایک ہی تھا  اور وہ یہ کہ خدا صرف ایک ہی ہے  ۔ لہٰذا جب لوگوں نے نوح یا لوط (علیہم السلام ) کے پیغام کو رد کر دیا تو گویا  کہ انہوں نے  بالواسطہ طور پر تمام رسولوں کو مسترد کر دیا۔

اسی طرح ایک دوسرا  ناقد 3 یہ کہتا ہے کہ قرآن میں ہے ‘‘ کن فیکن ’’ جس کا  مطلب ہے "ہو جا  تو وہ  ہو جا تا ہے " ۔ لیکن اس کے مطابق " کن فکانا  " ہونا چاہیے تھا جس کا  مطلب ہے ‘‘ ہو جا تو وہ ہو گیا ’’۔ جی ہاں "کن فکانا " ماضی ہے، لیکن "کن فیکن " بدرجہا بہتر ہے – اللہ  تھا، ہے اور وقت کے دائرے ماضی حال اور مستقبل کا بھی احاطہ کرتے ہوئے  کرسکتا ہے  ۔

قرآن مجید میں بڑے پیمانے پر  قواعد کی تبدیلی بھی ہے۔ پروفیسر عبد الحلیم  کے مطابق، قرآن بڑے پیمانے پر قواعد کی تبدیلی کا استعمال کرتا ہے، اور اس کے نصوص کے  'ادبی اظہار میں اضافہ کرتا ہے  اور گفتگو کا مقصد حاصل کرتا ہے۔ مثال کے طور پر:

"(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے تم کو کوثر (لفظی معنیٰ خیر کثیر ہے ، اس کا ایک معنیٰ جنت میں ایک ندی  بھی ہے )عطا فرمائی ہے، تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو، کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا  3۔1 :108’’

اس سورۃ میں، ہم نے ضمیر متکلم"ہم"   سے "آپ کے رب کی" کی طرف ایک تبدیلی محسوس کیا ۔ یہ نہ تو ایک غلطی ہے اور نہ ہی یہ ایک نا گہانی تبدیلی ہے، اللہ اور اس کے رسول کے درمیان انتہائی قریبی تعلقات بالکل واضح اور عیاں ہے۔ "ہم" کا استعمال عظمت، مہارت ، طاقت  ،  اختیار اور  اللہ کی صلاحیت پر دلالت  کرتا ہے ۔ جبکہ "آپ کا رب" کا استعمال بے تکلفی،  قربت اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے  اللہ کی محبت کو ظاہر ہوتا ہے اور اس پر زور دیتا ہے ۔

 جو  شخص اس آیت کے تاریخی پس منظر کے بارے میں جانتا ہے جس کے تحت اس آیت کا نزول ہوا ہے وہ  یہ ظاہر کرنے کے لئے  کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اکیلے نہیں ہیں اللہ ان کے ساتھ ہے ،  لفظ ‘‘تمہارے رب ’’ کی اہمیت کو سمجھ لے گا ۔ اس سورۃ کا  مقصد نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی  دل جوئی بھی کرناہے ، عبد الحلیم  کے مطابق، اشارات و کنایات کا استعمال لسانیاتی اثر میں اضافہ کر دیتا ہے۔

 (حصہ دوم میں سائنس کے معیار  اور قرآنی چیلنج  پر بحث کی جائے گی )

1۔ سر ولیم میور، لائف آف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، لندن، 1894، جلد۔1، تعارف۔

2۔ کراگ، کینتھ – دی مائنڈ آف قرآن : جارج ایلن اینڈ انوین، 1973، p۔26

3۔ ارون شوری وہ ناقد ہے ۔

URL for English article

 https://newageislam.com/books-documents/the-quran-test-time-standing-part-1/d/12856

URL for this article:

 https://newageislam.com/urdu-section/(the-quran-test-time-standing-part-1/d/12955

 

Loading..

Loading..