ایمن ریاض ، نیو ایج اسلام
20 جنوری 2013
(انگریزی سے ترجمہ ۔ مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
اکثریت کا ظلم بدترین ظلم ہے ۔ اس صورت حال میں کوئی بھی صرف دو کا م ہی کر سکتا ہے ، یا تو مسلسل اکثریت کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہو تا رہے یا بغاوت کرے یا پر تشدد کارروائی کے ذریعے معاشرے کو تبدیل کر دے ، جو کہ شاذ و نادر ہی مؤثر ہے، یا پھردانشورانہ دلائل کے ذریعے۔
آج کی دنیا میں غیر مسلم ، جو اقلیت میں ہیں مسلم اکثریت والے ممالک کے ہاتھوںسخت ظلم و جبر کا شکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مسلمانوں میں احساس پرتری ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ (غالباًانہوں نے کسی مولانا سے سنا ہو گا ) کہ ان کی قسمت میں دنیا پر حکومت کرنا ہے اور جنت میں ان کے لئےمحلات محفوظ ہیں۔
اس نظریے کو قرآن پاک کی آیت 28 اور سورت 48 کا حوالہ دےکر جواز فراہم کیا گیا ہے :
" وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، اور اﷲ ہی گواہ کافی ہے "
ان کے مطابق اسلام کی تقدیر کو واضح الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ اسلام سرداری کرنے کے لئے ہے ،اور دوسرے تمام مذاہب پر غالب ہو نے اور انہیں زیر کرنے کے لئے ہے ۔ وہ اپنی دلیل کو قرآن پاک کی سورۃ 61 اور آیت 9 کا دوبارہ حوالہ دے کر مضبوطی فراہم کرتے ہیں ۔اللہ فرماتا ہے :
" وہی ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں ۔"
ان آیات سے نمٹنے کے لئے دو طر ہی یقے ہیں: پہلا طریقہ ، یہ ہے کہ یہ آیات خاص طور پر اس وقت کفار اور ثقافتی طور پر مختلف مذاہب کے لئے ہیں ۔ یا مجھے یہ کہنا چاہئے کہ یہ ان عبادات کے لئے ہیں جو اس وقت مو جود تھیں ،ان آیات کو حل کرنے کے لئے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ ہم سے یہ کہہ رہا ہے کہ خدا کا وہ پیغام جو کہ اس نے بھیجا ہےدوسری تمام کی جگہ لے لےگا ۔ اللہ کا وہ پیغام کیا ہے؟ یہ ہے:
" نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں،"(سورۃ 2 ، آیت 177)
یہ تمام پیغامات اسلام کے گشتہ تمام انبیاء کو دئے گئے اور اللہ ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کرتا:
"اور (اہلِ کتاب) کہتے ہیں: یہودی یا نصرانی ہو جاؤ ہدایت پا جاؤ گے، آپ فرما دیں کہ (نہیں) بلکہ ہم تو (اس) ابراہیم (علیہ السلام) کا دین اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہر باطل سے جدا صرف اللہ کی طرف متوجہ تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے"۔ (سورۃ 2 آیت 136)
اسلام انصاف پر زیادہ زور دیتا ہے۔ یہ اس بات کو وسعت دیتا ہے کہ انصاف کے لئے ہمیں خود کے خلاف جانے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے :
"اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے۔ " (سورۃ 4 آیت 135)
اگر دوسرے ہم سے نفرت کرتے ہیں تو بھی ہمیں دوسروں کے ساتھ اسی طرح کے جوابی عمل کے ساتھ نہیں پیش آنا چاہئے۔
"اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے۔(سورۃ 5 ۔ آیت 8)
اس کی اگلی آیت میں ہے کہ:
" اﷲ نے ایسے لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وعدہ فرمایا ہے (کہ) ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر ہے "۔ (سورۃ 5 ،آیت 9)
اللہ نے سورۃ 2 ، آیت 62 میں اس بات پر زور دیا ہے کہ کہ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں، عیسائیوں اور صابی، اگر ایمان لائے اور اچھے اعمال کرتے ہیں وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے:
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے "(62 :2)
اگرچہ اس آیت میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو بھی شامل کرنے کی حد تک توسیع کی جا سکتی ہے ، لیکن اس آیت میں اللہ نے صرف یہودیوں، عیسائیوں اور صابیوں کا ہی ذکر کیا ہے، لیکن17 : 22 میں اللہ کا فرمان ہے کہ:
"بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور ستارہ پرست اور نصارٰی (عیسائی) اور آتش پرست اور جو مشرک ہوئے، یقیناً اﷲ قیامت کے دن ان (سب) کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ بیشک اﷲ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے۔"
اس آیت سے جو دو مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں وہ یہ ہیں: پہلا ، ہمیں فیصلہ نہیں کرنا چاہئے اور انسانوں کے درمیان تقسیم بھی نہیں پیدا کرنی چاہئے خاص کر مذہب کی بنیاد پر ۔ اور دوسرا یہ ہے کہ انصاف کا یہ ایکٹ صرف خدا کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس آیت میں بھی اس بات کی طرف بلاواسطہ طور پر اشارہ ہے کہ ایک مسلمان ہونا جنت کی ضمانت نہیں ہے، اسی طرح ایک یہودی، عیسائی، صابی یا مشرک ہونا تمہارے لئے جہنم مقرر نہیں کرتا ہے۔ اس آیت کا کیا مطلب ہے کہ صرف خدا ہی ہمارے درمیان فیصلہ کے گا ، اور انصاف کا وہ معیار جس کی نشان دہی اللہ نے سورۃ 49 اور آیت 13 میں کی ہے:
" اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے،
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔ "
اللہ کی نظر میں فیصلے کا معیار نسل، رنگ، ذات، جنس، مال و دولت اور مذہب نہیں ہے، بلکہ تقوی ہے، خدا کا شعور ہے، وہ سعادت مندی ہے۔ لہذا وہ مسلمان (جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ) جنہوں نے خاص طور پر مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک اپنا رکھا ہے وہ مکمل طور پر غیر اسلامی ہے۔ اور اگر کوئی امتیاز برتنا ہی ہے، تو اس کی بنیاد اچھے اعمال ہو نی چاہئے۔
ایک مسلمان جب دوسروں کے ساتھ سلوک کرے تو مذہب سے قطع نظر اسے ہمیشہ شائستہ، ، صابر ، محبت سے لبریز اور مہذب ہونا چاہئے ، ۔ بلا شبہ اللہ تعالی ان سے محبت نہیں کرتا ہے جو دوسروں کے ساتھ جارحانہ اور غیر مہذب طور پر پیش آتے ہیں:
"اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے( 8 :60)
ایک مسلمان کو عام معاملات کے بارے میں غیر مسلموں کے ساتھ بات کرنے کو کہا گیا ہے، وہ اس کے ساتھ ایک مکالمہ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ انہیں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ قرآن کو تمام پچھلے مقدس صحیفوں کی تصدیق کر نے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ یہ بیان سورۃ 3 اور آیت 64 میں ہے
: "آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ۔"
‘‘اور لوگوں کو اپنے رب کی طرف حکمت اور اچھی تبلیغ کے ذریعہ بلاؤ ، اور ان سے بات کرو اور ان سے ایسے طریقے سے مکالمہ کرو اور دلائل پیش کرو جو سب سے اچھا اور مہربانی کا ہے ’’
سورت 6 اور آیت 92 میں واضح طور پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ہمیں خدا کے تمام سابقہ کتابوں پر یقین رکھنا اور ایمان لانا ہے:
‘‘اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔ "
دیگر مذہبی کمیونٹیز کو عبادت کی آزادی نہ دینا مکمل طور پر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ تاریخی حقائق اس بات کو کو ثابت کرتے ہیں کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مکہ کے فاتح بن کر واپس ہوئے ، تو انہوں نے کو ئی مذہبی ریاست قائم نہیں کی بلکہ انہوں نے ایک سیکولر ریاست قائم کی ہے، وہ ایک ایسی ریاست تھی جہاں اہل کتاب کو مکمل آزادی دی گئی تھی ۔
تمام مقدس مزارات کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ ماضی میں مسلم متعصب حملہ آوروں کے ذریعہ ہندو مندروں کاانہدام، اور افغانستان میں بدھا کے مجسمے اور دوسرے نمونوں کی تخریب کاری وہ آخری پستی ہے جہاں تک ایک مسلمان جا سکتا ہے ۔ خدا نےسورۃ 22 آیت 40 میں ارشاد فرمایا :
" یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (اپنی مرضی پر مجبور کرنے کے قابل ہے )
ابھی دسمبر میں ہی ، پاکستان میں ایک ہندؤں کی سو سالہ مندر کو کراچی کے فوجی بازار میں مسمار کر دیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں مندر کے ارد گرد چار سے پانچ ہندؤں کے گھر تھے وہ بھی تباہ کر دئے گئے اور 40 سے زائد افراد بے گھر کر دئے گئے۔ پاکستان میں 16 فیصد مضبوط ہندوؤں کو آزادی کے وقت غیر حقیقی دنیا دکھا ئی گئی تھی ، جہاں اب کرنے کا کام صرف یہ بچا ہے کہ انہیں ماضی کو بھول تو کرنے مستقبل کی تعمیر کرنے اور پاکستان کی ترقی میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے جو 1947 میں 16 فیصد تھے اب تیزی کے ساتھ 1.86 فیصد کم ہو گئے ہیں ۔
اب ہمیں سر گرم ہونا ہے۔ اب ہمیں کم سے کم اسلام کی خلاف ورزی اور نسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی کرنے والو ں کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم مسلمان قرآن کی تعلیمات سے دور جا رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ 'اسلام' اور 'مسلمان' کے درمیان ایک بہت بڑا فرق ہے ۔ اس کے بارے میں غور کریں ۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-quran-speaks-protect-rights/d/10081
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-quran-speaks-protect-rights/d/10241