ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
4 مارچ، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)
مذہب کے معاملے میں گروہ بندی اور تشخص کا ہمارا احساس مضبوط ہے۔ ہم اپنی گروپ بندی انتہائی سختی سے، مذہبی گروہ کے ارکان کے ساتھ، اور اپنی تشخیص ذاتی طور پر مذہبی تشخص کے ساتھ کرتے ہیں ۔ مذہبی گروپ کی تعریف، ایک مذہبی کمیونٹی کے ارکان جو تقریبا ایک ہی انداز میں پیروی کرتے ہیں اور سرگرمیاں انجام دیتے ہیں ، کی جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر، مسلمان، اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں ،اور قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ مذہبی شناخت کی تعریف ،کسی بھی مذہب کا مخصوص کردار، جو اسی مذہبی کمیونٹی کے ارکان میں مشترک ہو۔ مثال کے طور پر، یہ سوچ کہ اسلام ایک نمایا ںمذہب ہے، اور یہ دیگر مذاہب سے مختلف ہے، یہی اسلام کو نمایا ں اور منفرد بھی بناتا ہے۔
ایک عام مذہبی تشخص رکھنا ، اسی خارجی ظواہر کے ساتھ، جیسے تراشی ہوئی مونچھیں، مردوں کے لیے لمبی داڑھی ، اور عورتوں کے لیے برقع؛ اسی طرح ، عبدل، احمد، محمد وغیرہ کی طرح کے نام؛ اور مشترکہ عقائد، اقدار اور طرز عمل رکھنا ، جیسا کہ مسلمانوں کی قسمت میں جنت جانا ہے، تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کتنے برے ہیں ، ایک دن میں 5 مرتبہ نماز ادا کرنا رمضان المبارک کے روزے رکھنا، صدقہ وغیرہ دینا، ہم آہنگی کے ایک مضبوط بندھن میں لے آتا ہے ۔
وہ ایک ہی جذباتی تجربات میں شریک ہوتے ہیں : مثال کے طور پر جب پاکستان کرکٹ میچ جیتتا ہے ، تو بہت سے مسلمانوں کو خوشی محسوس ہوتی ہے ، خاص طور پر اگر وہ بھارت کو شکست دے اور اس کے برعکس ۔ ایک دوسرے گروپ کی موجودگی نادانستہ طور پر ہمیں ایک گروپ کرتی ہے: ہم نادانستہ طور پر دنیا کو 'ہم' اور 'ان' میں تقسیم کر دیتے ہیں ، 'میں اچھا ہوں اور تم برے ہو۔'، 'مسلمان جنت میں جائیں گے'، ' مشرکین جہنم میں جائیں گے، وغیرہ ۔
ہمارا مذہبی تشخص دیگر مذہبی کمیونٹی کی موجودگی میں ظاہر ہوتا ہے ، یہ ہمارے تحفظ کے لئے ہے۔ ہمارا دماغ اس طرح عمل کرتا ہے کہ وہ خود کو ایک ہی گروپ کے ارکان کے ساتھ جوڑ کر تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ حفظ نفس ہزاروں سال کی ہماری ذہنی تشکیل کی وجہ سے ہے۔ بعض ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ ہم لازمی طور پر باہم منحصر ہیں ، کہ ہماری ترقی کی تاریخ ایک دوسرے پر ایک اجتماعی علم اور معلومات کے اشتراک کے لئے ضروری انحصار میں سے ایک ہے، یقینا، اس طرح کا جماعتی تعلق ایک نوع کے طور پر ہماری بقا کے لئے ضروری ہے۔ ہماری بقا کے لئے ضروری ہے کہ ، ہم ایک گروپ کا ایک حصہ بنیں جو اس طرح سوچتا،عقیدہ رکھتا اور کام کرتا ہو ، جس طرح ہم کرتے ہیں ۔
اگر ایک واحد شخص نے کچھ چاہا ہے اور ایک گروپ نے بھی اسے حاصل کرنا چاہا ہے ،تو تقریبا ہمیشہ گروپ ہی جیتے گا۔ اسی لئے اکیلا شخص نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ، ارتقائی تاریخ کے دوران، جب کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنا جین، مستقبل کی نسلوں کی طرف منتقل کیا ، وہی گروپوں کی تشکیل کرنے والے ہو جائیں گے ۔ نمبر کھیل یعنی ایسے حقائق میں ہمارے انحصار کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے کہ ، ‘اسلام ایک سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے’ ، اور یہ کہ پیس ٹی وی پر بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا، ہمیں عام مسلمانون کو ، واقعی بہت خوش کرتا ہے۔ اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ چونکہ ہمارے گروپ میں اضافہ ہو رہا ہے،اور یہ مضبوط ہو رہا ہے، 'میں بھی بڑھ رہا ہوں اور مضبوط ہو رہا ہوں ، اور زندہ رہنے کے موقعہ میں بھی اضافہ ہو گا۔ عیسائیوں کی صلیبی جنگوں اور مسلمانوں کے جہاد (جنگ میں جدوجہد) کے وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔
مذہبی گروہ کیا حاصل کرتا ہے؟ اس سادہ سوال کا جواب دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ 1 سماجی اور 2۔ ثقافتی۔ سماجی سطح پر ہمیں تحفظ محسوس ہوتا ہے۔ جب ہم ہمارے گروپ کے ارکان کو دیکھتے ہیں تو راحت کی سانس لیتے ہیں ۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ، اب علماء اور بھی زیادہ سختی کے ساتھ مسلمان مردوں کے لئے داڑھی اور خواتین کو برقعہ پہننے کی حمایت میں آواز بلند کر رہے ہیں ۔ جیسے جیسے ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے 'مسلم گروپ' کو اپنے بارے میں اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ احمد دیدات نے ایک بار، ایک بیان میں کہا کہ 'اگر لیبل سے آپ کے ارادے ظاہر ہوتے ہیں تو اسے پہنیں، جتنے زیادہ "سچے مسلمان" (داڑھی والے مردو اور برقعہ والی خواتین) یہاں نظر آیں گے، وہ "دشمن (غیر مسلموں) کو اس کی ذہانت سے ،اتنازیادہ خوف زدہ کرے گا "۔
ثقافتی سطح پر، ہمارا انداز اور برتاؤ اسی انداز میں ہوگا ۔ اسی طرح ہم لباس پہنتے ہیں ، کھانا کھاتے، نماز ادا کرتے ہیں وغیرہ ۔ یہ سب ہمارے دماغ کو مطمئن کرتے ہیں ، اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور مواقف ہے ۔ تکلیف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم دیگر مذہبی گروہ کی موجودگی میں ہوتے ہیں۔ ان کے کپڑے، ان کا کھانا، اور عبادت کا ان کا طریقہ ہمیں الجھن کا شکار بناتا ہے ، اور اس الجھن سے ہمارے دماغ کو یہ بھی محسوس ہو سکتا ہے کہ "کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔
ہر وقت جب ہم اپنی شناخت کو یاد کرتے ہیں ۔ ایک بار 'میں' منفرد تھا یہ میری ذاتی شناخت ہے۔ اس میں 'میں' اپنے گروپ کے اراکین سے مختلف ہوں۔ پھر 'میں ایک گروپ کا رکن بن گیا ، یہ میری سماجی شناخت ہے۔ اس ، 'میں' میں، 'میرا گروپ دوسرے گروپ کے ارکان سے مختلف ہے۔
اسی طرح جب میں اپنے معاملے میں اپنے گروپ کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری انفرادیت کھو جاتی ہے ۔ ایک داڑھی والے اور برقعہ پہننے والی کا تماشا بنا کر ، ہم نادانستہ یا شعوری طور پر ہمارے 'خود' سے محروم ہو گئے ہیں ۔ میرے بہت سارے رویے، میری آزاد سوچ کا نتیجہ نہیں ہوں گے، بلکہ یہ گروپ رویے کا نتیجہ ہوں گے۔
لہذا، ایک مسلمان، اس لئے مسلمان نہیں ہے ،کہ اس نے اس کی مرضی کو خدا کے سپرد کر دیا ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ مسلم گروپ اور اس گروپ کے اقدامات کا ایک حصہ ہے جو ‘دوسرے’ گروپوں سے مختلف ہے۔ لہذا ، 'اس گروپ کا حصہ بننے کے لئے ایک شخص کو داڑھی رکھنا ، مونچھیں تراشنا ضروری ہے ، اور ایک عورت کو برقعہ سے ، مکمل جسم کو ڈھکنا ضروری ہے ۔ اگرچہ مذہب کاان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ، ابھی تک یہ ‘ اپنے گروپ’ کا حصہ ہے اور ' دوسرے گروپ' سے مختلف ہے ، اس لئے ، اس کی پیروی کی جائے گی۔
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/religious-groups-identity-feeling-hopelessness/d/10636
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/religious-groups-identity-feeling-hopelessness/d/11569