ایمن ریاض ، نیو ایج اسلام
15 جنوری 2013
( انگریزی سے ترجمہ ۔ مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
اسلام مسلمان مردوں کو ایک سے زیادہ عورت سے شادی کرنے کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )"حسن اخلاق کے سب سے اونچے مقام پر فائز ہیں "تو کیا 4 بیویوں سے زیادہ سے شادی کرنے میں بھی ان کی پیروی نہیں ہونی چاہئے ؟ چند شوہر رکھنا اسلام میں کیوں ممنوع ہے؟
ابھی تک اکثر ان عام تکلیف دہ سوالوں کے جواب دینے کے لئے ، ہمیں ایک بڑے منظر نامے کا معائنہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک پہلو پر غور وفکر کرنا اکثر ناقص نتائج کا باعث ہوتاہے ۔
مذہبی نقطۂ نظر
یہ دیکھتے ہیں کہ شادی کے بارے میں قرآن کا کیا کہنا ہے ۔
‘‘اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں، دو دو اور تین تین اور چار چار (مگر یہ اجازت بشرطِ عدل ہے)، پھر اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم (زائد بیویوں میں) عدل نہیں کر سکو گے تو صرف ایک ہی عورت سے (نکاح کرو) یا وہ کنیزیں جو (شرعاً) تمہاری ملکیت میں آئی ہوں، یہ بات اس سے قریب تر ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو’’۔(3 :4)
چند آیات کے بعد اللہ ہم سب کو یاد دلاتا ہے کہ تم ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ کبھی نہیں کر سکو گے ۔
"اور تم ہرگز اس بات کی طاقت نہیں رکھتے کہ (ایک سے زائد) بیویوں کے درمیان (پورا پورا) عدل کر سکو اگرچہ تم کتنا بھی چاہو۔ پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔ اور اگر تم اصلاح کر لو اور (حق تلخی و زیادتی سے) بچتے رہو تو اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے"(129-4)۔
ان آیات میں دو چیزیں قابل غور ہیں : پہلی بات ، اگرچہ اللہ نے مرد کو ایک سے زیادہ بیوی سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے، ہمیں اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ ناانصافی کا ارتکاب کریں گے : ۔ دوسری با ت ، اللہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم نے پہلے سے ہی ایک سے زیادہ شادی کر رکھی ہے اور ہم ان کے ساتھ انصاف سے پیش آنے کے قابل نہیں ہیں (جیسا کہ یہ ہمیشہ ہو تا ہے ) تو ہمیں اپنی بیویوں میں سے کسی ایک کو نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ یہ دوگنا گناہ کے ارتکاب کا باعث بنے گا: ناانصافی اور بیویوں کو چھوڑنے کا گناہ ۔
جب ان آیات کا ایک مجموعی طور جائزہ لیا تو میں اس نتیجہ پر پہونچا کہ اگر چہ نادر و نایاب حالات میں جس تعدد ازدوج کی اجازت ہے وہ اللہ کی نظر میں حقیر ہے ، اس لئے کہ اس کی وجہ سے نا انصافی کا گناہ اس تعدد ازدوج کرنے والے شخص کی گردن پر آنے والا ہے ۔
تاریخی نقطۂ نظر
ہر شخص کو یہ اچھی طرح یاد ہونا چاہئے کہ قبل از اسلام کے دور میں، مکہ کے لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے ۔ خواتین کی حیثیت ان کے لئے ایک مادی جسم سے زیادہ نہیں تھی ۔ انہوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا ، انہوں نے ان کی پٹائی کی اور ان کو کوئی حق نہیں دیا ۔ جب اسلام آیا، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان تمام میں تبدیل لانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے خواتین کو زندگی جینے کا حق دے کر سب سے اہم حق دیا ۔ انہوں نے عورتوں کو (ان کی اپنی پسند کے مطابق) ایک شخص سے شادی کرنے کا حق دیا ۔
یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ جنگوں کے دوران بہت زیادہ مرد مارے گئے جس کی وجہ سے بیواؤں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ۔ قرآن بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت دے کر عورتوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ لوگ جن کی پہلے ہی شادی ہو چکی ہے ان سے شادی کر سکتے ہیں۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کچھ بیواؤں سے شادی کی اور انہیں پناہ دی اور ان کی حفاظت کی ۔
وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) عورت باز تھے انہیں عقلمندی کے ساتھ یہ نوٹ کرنا چاہئے کہ اس شخص نے 25 سال تک ایک ہی عورت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر رکھا تھا ، جو عمر میں ان سے تقریبا 15 سال بڑی تھیں ، (اور یہ تجویز خود انہوں نےپیش کی تھی نہ کہ اس کے برعکس) ۔ اگر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعی جسمانی خواہشوں کے غلام ہوتے تو وہ نوجوان کنواریوں سے شادی کر تے۔ انہوں نے جنسی خوشی کے لئے تعدد ازدواج پر کبھی عمل نہیں کیا۔ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو غیر معمولی وجوہات کی بنا پر واضح طور پر 4 سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ان کی ازواج میں سے زیادہ تر یا تو بیوہ تھیں (جو عمر میں بھی ان سے بڑی تھیں ) یا مطلقہ عورتیں تھیں (ان میں سے بھی زیادہ تر یا تو ان سے بڑی عمر کی تھیں یا انہیں کے عمر کی تھیں ) ۔ ان کی زوجات میں سے صرف ایک ہی کنواری تھیں ، اور انہوں نے صرف اس لئے ان سے شادی کی کہ ان کے والد ان کے سب سے اچھے دوست تھے ۔ اور وہ اس رشتے کو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ اور ان کے والد نے ہی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )کو ان کی پیشکش کی تھی۔
سائنسی نقطۂ نظر
اگر ایک جملے میں کہا جائے تو ، مرد فطرتاً مائل بہ تعدد ازدواج ہے ، اور خواتین نہیں ہیں۔
یہ جملہ چونکا بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ، وہ لوگ جو نفسیات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں ان کے پاس اس بات کے کافی ثبوت ہیں کہ مرد "زیادہ چاہتا ہے " ۔ زیادہ تر ہمارے ارتقائی عمل کے دوران، تمام انسانی معاشروں کے 80 فیصد سے زائدلوگ فطرتاً مائل بہ تعدد ازدواج تھے ، خاص کر بقا کی وجوہات کی بنا پر ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر لوگ فطرتاً تعدد ازدواج کی طرف مائل ہیں ، یہ انکی فطرت میں شامل ہے۔ دور جدید کا انسان تناسل کی اپنی ازلی خواہش کو پورا کرنے کے لئے hypothalamus اور testosterone کی بہت بڑی مقدار کا حامل ہے۔ تناسل کی مردوں کی خواہش کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ سمجھنے والی بات ہے کہ میں کفر و الحاد کے لئے عذر کو فروغ نہیں دے رہا ہوں ہے۔ انسانی حیاتیات خطرناک طور پر متروک ہے۔
ایک آدمی بہت ساری بیویاں رکھ سکتا ہے کیونکہ اس کا ہارڈ وائرڈ hard-wired دماغ کثیر آبادی والا '' قبیلہ " بنانا چاہتا ہے ۔ لیکن ایک عورت، اگر چہ اس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں ، ایک وقت میں ایک سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتی ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا شوہر 1 ہے یا 10 ہیں ، وہ ایک وقت میں صرف ایک ہی حمل کے قابل ہو گی اور پھر اسے حمل کی اس مدت سے گذرنا ہوگا جس میں بہت زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے ۔
مربوط نقطۂ نظر
محفوظ نتیجہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ اسلام مردوں کے لئے ایک سے زیادہ عورت سے شادی کرنے اجازت دیتا ہے ، لیکن اسے ایک منفی تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ مردوں کے جین ‘genes’ تعدد ازدواج کی طرف مائل ہیں، ہمارے جین صرف ماحول کی موجودگی میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایسے کچھ خاندانوں کا مطالعہ کیا گیا جن میں مردوں نے ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کی ہے ۔ مطالعہ کا کہنا ہے کہ تعدد ازدواج اعلی سطح پر جرائم، تشدد غربت اور جنسی عدم مساوات پیدا کرتا ہے۔
ہمیں ان چیزوں کو ذہن میں رکھنا ہے۔ ایک بات جسے یاد رکھا جانا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اگر مذہب اور اس کی تعلیمات کی اصلاح نہیں کی گئی اور انہیں موجودہ وقت سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا تو ہمارے دماغ حواس باختہ ہو جا ئیں گے ۔
https://newageislam.com/islamic-society/polygamy-islam-religious-view,-historical/d/10012
https://newageislam.com/urdu-section/polygamy-islam-religious-view-/d/10561