ایمن ریاض ، نیو ایج اسلام
09جولائی ، 2013
( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)
الاخلاص کا معنی مخلص یا تزکیہ ہے ، یعنی ایمان کا تزکیہ ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورہ کوقرآن کی ایک تہائی کے برابر قرار دیا ہے ۔ ابو سعید سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :
" کیا تم میں سے ہر ایک، ایک رات میں ایک تہائی قرآن کی تلاوت کرنے کے قابل نہیں ہے؟" انہیں لگا کہ یہ بہت مشکل ہے، اسی لئے انہوں نے پوچھا : " اے اللہ کے رسول کون ایسا کرنے کے قابل ہے" انہوں نے جواب دیا: سورۂ اخلاص قرآن کا ایک تہائی ہے۔"
"اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور رحم والا
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے
معبود برحق جو بےنیاز ہے
نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں"۔1
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مدینہ میں تھے اور نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد ان سے ملنے آیا تھا ۔ اس لئے کہ انہوں نے سنا تھا کہ ایک اور عربی نے خدا کے ساتھ ہم کلامی اور نبی ہونے کا دعوی کیا ہے ۔ لہٰذا وہ عیسائی ان سے ملاقات کرنے، ان سے سوال کرنے، اور خدا اور مذہب کے بارے میں انہیں آزمانے کے لئے ان کے پاس آگئے ۔ لہٰذا وہ مدینہ آئے اور انہوں نے مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں قیام کیا ، وہ مسجد میں سوتے، مسجد میں کھانا کھاتے تھے اور انہوں نے تین دن اور تین راتوں کے لئے مسجد میں مکالمہ رکھا۔
بحث کے دوران عیسائیوں نےبہت سے دوسرے سوالات کے درمیان، ایک سوال پیش کیا : "ٹھیک ہے محمد، اب ہمیں آپ بتائیں کہ: خدا کے بارے میں آپ کا تصور کیا ہے؟" اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے روایت کے مطابق ہماری طرح جواب دینا شروع نہیں کر دیا ۔ انہوں نے خدا سے ہم کلام ہونے کی کوشش کرتے ہوئےمجازاً اپنی روحانیت کو متوجہ کیا ، ‘‘ ائے میرے رب میں کیا کہوں ؟ "وہ ہماری طرح جواب دے سکتے تھے ۔ اگر ہم سے ایسے وقت میں سوال پوچھا جاتا ہے جب جواب تیار نہ ہو تو ہم کیا کرتے ہیں ؟ - ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں ، ہم یہاں وہاں ہاتھ مارتے ہیں اور اپنے خیالات کو جمع کرنے کے لئے وقت لیتے ہیں ۔ ہم ان الفاظ کے ساتھ جواب دیتے ہیں ‘آپ کو معلوم ہے’، ‘میرا مطلب ہے’، ‘دیکھیں ’، وغیرہ،اور جب ہم تیار نہیں ہوتے تو عام طور پر اس طرح کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
فرض کریں کہ اگر میں قارئین سے پوچھوں کہ 10 بار 10 یا 6 مرتبہ 6 کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ اور اگر آپ ریاضی جانتے ہیں تو فوری طور پر جواب یہ ہو گا: "100" اور ‘‘36’’ ۔ لیکن اگر آپ کے پاس فوری طور پر جواب نہیں ہے تو آپ إدھر ادھر کی باتیں کریں گے اور آپ کو وقت لگے گا۔ ہم عام طور پر اس طرح بات کرتے ہیں ، لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایسا نہیں کیا ۔ کہ ‘‘ ائے محمداب ہمیں بتائیں کہ خدا کے بارے میں آپ کا کیا تصور ہے ؟’’وہ جواب دے سکتے تھے کہ ہمارا خدا تمہارے خدا کی طرح ہے ۔ ہم موسی، ابراہیم اور عیسی علیہم السلام کے خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔ ہمارا خدا بہت طاقتور ہے، وغیرہ وغیرہ ۔ ہم عام طور پر اس طرح بات کرتے ہیں ، لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایسا نہیں کیا ۔ ان سے سوال کیا گیا تھا اور اس کا جواب ضرور کسی عظیم اتھارٹی کی جانب سے دی جانی چاہئے ۔ لہٰذا انہوں نے اپنی روحانیت کو متوجہ کیا اور جواب خدا کی جانب سے آیا ۔ ۔ خدا کا ہر نبی کو خدا کی زبان ہوتا ہے۔ موسی نے خدا سے کہا کہ 'میں کیا کہوں گا ؟' انہیں خدا کے ذریعہ کہا گیا تھا کہ "ان سے کہو کہ تم زنا نہیں کرو گے تم چوری نہیں کرو گے " وغیرہ ، حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا ‘‘ میں خود سے کچھ بھی نہیں کرتا جیسا میں سنتا ہو فیصلہ کرتا ہوں اور فیصلہ میں اپنی مرضی نہیں دیکھتا بلکہ اپنے رب کی مرضی دیکھتا ہوں’’ ۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی کوئی (مذہبی) سوال پوچھا گیا وہ خدا کی زبان بن گئے اور خدا نے ان کے ذریعے کلام کیا ۔
عیسائی نے خدا کے تصور کے بارے میں پوچھا، تو خدا نے محمد کے ذریعے جواب دیا :
‘‘کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے
معبود برحق جو بےنیاز ہے
نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں’’۔
اور باب ختم ہو گیا ہے۔ یہ کہنے کے بعد وہ پھر بولنے کے اپنے معمول پر واپس آ گئے : یہ خدا کے بارے میں ہمارا تصور ہے ۔ پہلے وہ بولنے میں اپنے معمول پر تھے ،پھر اچانک خدا ان کے دماغ پر قبضہ کر لیتا ہے اور جب پیغام تمام ہو جاتا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے معمول پر واپس آ جاتے ہیں ۔
اس آیت میں سب سے زیادہ قابل توجہ جملہ "کہ دو " ہے۔جب آپ سے پوچھا گیا کہ دس با ر دس کتنا ہوتا ہے تو آپ نے جواب دیا 100 ، اور اسی طرح جب آپ سے پوچھا گیا کہ چھ مرتبہ چھ کتنا ہوتا ہے تو آپ نے جواب دیا "36" ۔ آپ نے " کہہ دو 36 " یا " کہہ دو 100 " نہیں کہا۔ کیوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) فرمایا "فرما دیجئے: کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے ۔۔۔ ہے" مجھے کیا کہنا چاہئے ؟ اور اس کے بعد اس کا جواب آتا ہے "فرما دیجئے: کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے ۔۔"
امام مالک بن انس نے کہا کہ عبید بن حنین نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہوئے سنا کہ:
"میں نبی صلی اللہ علیہ کے ساتھ چل رہا تھا اور ہم نے ایک آدمی کو یہ تلاوت کرتے ہوئے سنا" فرما دیجئے: کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے "اللہ کے رسول نے کہا:" یہ سزاوار ہے’’ میں نے پو چھا کس بات کا ؟ ": تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:" جنت کا "
عائشہ کی سند پر ایک روایت بخاری، مسلم اور حدیث کے دیگر مجموعوں میں مذکور ہے ، یہ کہتے ہوئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم کے رہنما کے طور پر ایک آدمی کو بھیجا۔ سفر کے دوران انہوں نے ہر نماز کو قل ھو اللہ احد کی قرآت کے ساتھ ختم کیا۔ ان کی واپسی پر صحابہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ: " ان سے پوچھو کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔" جب اس شخص سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: "اس سورت میں رحیم و کریم خدا کی صفات بیان کی گئی ہیں، لہذا میں بار بار اسے پڑھنا پسند کرتا ہوں" جب نبی صلی اللہ علیہ نے ان کے جواب کو سنا توانہوں نے قوم سے کہا: " اسے مطلع کر دو کہ خدا اس سے محبت کرتا ہے اور ان کی قدر افزائی کرتا ہے ۔" 2
یہ اس باب کی اہمیت ہے۔ یہ مختصر ہے اور منفرد ہے ۔
1۔ قرآن باب 112
2۔ قرآن-صحیح انٹرنیشنل ترجمہ، PG 670
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-spiritualism/al-ikhlas-–-one-third/d/12508
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/al-ikhlas-–-one-third/d/12722