ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
28 مئی، 2013
( انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )
ہم نےاس قسم کی باتیں بہت مرتبہ سنی ہیں کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے ، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سب سے اچھے انسان ہیں، اللہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے وغیرہ وغیرہ ، لیکن یہ شاذ و نادر ہی ناقدین کو مطمئن کر پاتی ہیں، اور یہ بجا ہے۔ ایک ذاتی جملے کی اس وقت تک کو ئی حیثیت نہیں ہوتی جب تک (1) وہ دلائل سے مزین نہ ہو، اور (2) شخص خطیب سے متاثر ہوتا ہے ۔ ہم دوسرے حصے کو نظر انداز کرتے ہیں۔
کردار کی آواز الفاظ سے زیادہ بلند ہے، یہ بم کے لئے سچ ہے! فرض کریں کہ آپ اپنے دوست کو اس بات کا قائل کرنے کی کوشش کر رہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور یہ تلوار سے نہیں بلکہ محبت اور عقل سے پھیلا ہے ۔ آپ اپنے دوست سے چند دنوں تک اس نظریہ کے بارے میں بات کریں جس کا ذہن کھلا ہے ، در حقیقت وہ اس چیز میں سچائی تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے بارے میں آپ اس سے بات کر رہے ہیں ۔ لیکن ایک دن کوئی مسلم تنظیم ایک زبردست بم دھماکے سے سینکڑوں لوگوں کے قتل کی خبر پیدا کر دیتی ہے اور بدقسمتی سے آپ کے دوست کے خاندان کے لوگ بھی اس میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
(چند دنوں یا ہفتوں کے بعد) آپ یہ سمجھانے کی چاہے جتنی بھی کوشش کر لیں آپ کا دوست اس نظریہ سے کبھی اتفاق نہیں کرے گا کہ اسلام ایک پرامن مذہب ہے ۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ یہ کہیں کہ کچھ لوگ دقیانوسیت نہیں پیدا کرتے او ر کچھ لوگ یہ سمجھیں گے کہ اس جماعت کے تمام اراکین اس میں شامل نہیں ہیں، لیکن نفسیاتی تحقیق کے مطابق دقیانوسی تصورات پیدا کرنے میں صرف چار منٹ لگتے ہیں اور ہم سب کسی بھی استثناء کے بغیر اسے پیدا کرتے ہیں۔ آپ کا دوست بھی آپ کے بارے میں "ان میں سے ایک" سمجھتا ہے اور یہ کہ اسلام ایک امن پسند مذہب کے علاوہ سب کچھ ہے ۔
اس حقیقت کو اجاگر کرنے کے لئے میں نے یہ مثال پیش کی کہ ، ہم چاہے جتنی باتیں کر لیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اعمال (بم، بندوقیں وغیرہ پڑھیں) کی آواز زیادہ بلند (دھماکے دار ) ہوگی ۔ دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ اسلام امن پھیلانا چاہتا ہے دہشت گردی کی سر گرمیوں کو روکنا ہوگا ورنہ ہماری آواز صرف ایک خفیف ہوا کا جھونکا ہوگی ۔
بنیادی طور پر آج مسلم دنیا میں دو قسم کے عسکریت پسند اسلام ہیں یعنی مسلمانوں کے دو گروپ ہیں جو مختلف وجوہات کی بناء پر دہشت گردی کی سرگرمیوں کو انجام دے رہے ہیں ۔ پہلا فلسطینی یا عراقی جو اپنے دفاع یا انصاف کے نام پر اپنے تشدد کو قانونی جواز فراہم کر رہے ہیں ۔ دوسرا گروپ ایسے مسلمانوں پر مشتمل ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ دنیا پر اسلام کا غلبہ ہو جائے ، وہ پوری دنیا میں فرسودہ شریعت قائم کرنا اور تمام لوگوں کو مسلمان بنانا (میں بدلنا ) چاہتے ہیں ۔
پہلے گروپ کے حوالے سے مجھے زیادہ علم نہیں ہے اس وجہ سے میں بہت کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا ۔ یہ میرے لئے ایک بہت پیچیدہ موضوع ہے مجھے یہ قبول کرنا ہوگا ، لیکن میں ایک بات کہنا چاہوں گا جو میں نے پہلے ہی اپنے ابتدائی مضامین میں سے ایک میں کہا ہے کہ جبر دہشت گردی کو قانونی جواز فراہم نہیں کرتا ۔ جارحیت (دہشت گردی) کو واقع ہونے کی وجہ صرف مایوسی (یا جبر) نہیں ہے جس نے جارحانہ ردعمل بھڑکا یا بلکہ دیگر عوامل کے ایک ہجوم دراصل جارحانہ رویے کی وجہ ہے ، یہ جنرل ایگریشن ماڈل (GAM) کے مطابق ہے۔
دوسرا گروپ جن کی تعداد بے شمار پروپیگنڈوں ، پیٹروڈالر کی مدد سے مفت لٹریچر اور امن" وغیرہ پھیلانے والےٹی وی چینلز کی وجہ سے تیزی سے عروج پر ہے ۔ دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے یا تو ہمیں دہشت گردوں کو روکنا ہوگا یا ہمیں اس شخص کو روکنا ہو گا جو ان میں سے ایک بن رہا ہے ۔ یہ سوچنا ایک نا دانی ہوگی کہ ایک دہشت گرد ‘اپنی’ سرگرمی (یعنی، لوگوں کو دھماکے سے اڑانے اور دوسروں کو (اس کا )مذہب کو قبول کرنے پر مجبور کرنے ) کا ارتکاب نہیں کرے گا ۔
چونکہ ہم اساتذہ سے سرجری اور وکلاء سے رقص کرنے کی توقع نہیں کرتے ، اسی طرح ہمیں یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ دہشت گردامن پسند ہوں گے اور ہم ان کے ساتھ بات چیت کریں گے اور ہم انہیں اپنا طرف دار بنا لیں گے ۔کچھ لوگ یہ کہیں گے کہ بات چیت سے یہ کیا جا سکتا ہے لیکن میری رائے مختلف ہے کیونکہ(1) اگر بات چیت انہیں ہمارا طرف دار بنانے میں مدد کر یں تب بھی ان کی تعداد بہت کم ہوگی اور (2) ان کے دماغ کو تبدیل کر دیا گیا ہے در اصل وہ عام انسانوں کی طرح نہیں سوچتے ۔ چونکہ ان کے سوچنے کا عمل پیچیدہ ہے لہٰذا ہم ان سے واضح طور پر سوچنے کی توقع کس طرح کر سکتے ہیں؟
میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ 'ایک دہشت گرد ہمیشہ دہشت گرد ہی رہے گا'۔ وہ بدل سکتا ہے ، لیکن اس کے لئے، انہیں زندگی کا ایک مکمل اور جامع طرز زندگی دیتے ہوئے، اعتدال پسند مسلمانوں کی طرف سے بہت بڑی کوشش (وقت، پیسہ، پراپیگینڈا پڑھیں) کی ضرورت ہے ، ( جیسا کہ مسٹر سیف شاہین نے ‘The Unbearable Heaviness of Being Muslim’میں اس کی نشاندہی کی ہے)۔
مارکیٹ میں ایسی سینکڑوں کتابیں ہیں جو غیر تکثیریت پسند اسلام کو فروغ دیتی ہیں جیسا کہ میں اسے‘ انفرادیت پسند اسلام’ کہنے کو ترجیح دیتا ہوں ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دیگر مذاہب کو رزیل بتانے والی، ہزاروں کی تعداد میں مسروق سی ڈیز اور ڈی وی ڈی دستیاب ہیں۔ نماز جمعہ میں ائمہ سامعین پر ، ہندوؤں کے حوالے سے ‘‘بت پرست ’’، عیسائی کے حوالے سے "مسیح کے محبت کرنے والےاور خنزیر کھانے والے "، یہودیوں کے حوالے سے‘‘ خنزیر اوردم کٹے بندر کی طرح مخلوق ’’، امریکہ کے حوالے سے "سازش رچنے والے"، اسرائیلیوں کے حوالے سے "قاتل" جیسے کینہ پر ور پیغامات کے ذریعہ بمباری کرتے ہیں ۔
ہم نہ صرف اپنے لئے ان سب کو چیلنج پیش کرنے کے لئے ایک موقف اختیار کرنا ہو گا ، بلکہ اسلام اور سچے امن پسند اسلام کے لئے بھی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت کے لئے، ہم ان قاتلوں کو اسلام کو ہم سے دور کرنے اور جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں یکسر تبدیل نہیں کرنے دے سکتے۔ اگر ہمارے لئے نہیں تو ہمارے بچوں کے لئے اسلام کو بچانا ہوگا کیونکہ جب وہ بڑے ہوں گے تو داڑھی بڑھانے کے لئے ہم پر تنقید کریں گے (اگر ہم ان کے والد ہیں تو) اور مکمل طور پر برقعہ میں خود کو چھپا لینے کے لئے (اگر آپ ان کی ماں تو ) ، غیر مسلموں سے نفرت کرنے کے لئےان سے دوستی نہیں کرنے کے لئے اور خدا نہ کرے کہ ان کو مارنے کے لئے ۔
عسکریت پسند اسلام کے عروج کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ کتابوں، سی ڈیز ، ڈی وی ڈی اور جمعہ کے خطبے میں "تلوار والی آیات" کی موجودگی اور اس کا مسلسل استعمال ہے ۔ ان ایات کا تعلق اس وقت کے بت پرستوں کے قتل سے ہے ۔ وہ آیات (جو سینکڑوں کی تعداد میں ہیں ) انتہا پسندوں کے لئے بڑے وسائل ہیں۔ وہ ان آیات کا استعمال دو طرح سے کرتے ہیں جو ان کے مقصد کے مطابق ہیں: پہلا) وہ یا تو انہیں جزوی طور پر نقل کرتے ہیں یا وہ ان کا حوالہ غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں ؛ دوسرا ) وہ سیاق و سباق نہیں بتاتے ۔
عیسائیت، اسلام کے برعکس، کامیابی کے ساتھ بائبل کے صفحات سے پرے ہونے کے قابل ہو چکی ہے ۔ اس نے موجودہ ضروریات کے مطابق خود کی ساخت دوبارہ بنا لی ہے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں میں سے بہت سے لوگ اس آیت کے بارے میں جانتے ہیں "تم کافر کو جہاں کہیں بھی پاؤ انہیں قتل کر دو " لیکن ہم میں سے بہت سے یہ نہیں جانتے کہ (میتھو کے انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کا کہنا ہے کہ)"میں امن قائم کرنے کے لئے نہیں آیا، بلکہ تلوار لانے کے لئے" ۔ ہر مذہب میں تشدد ہے، لیکن ہمیں اسے اس کے مناسب تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
عسکریت پسند اسلام کے عروج کو روکنے کے لئے ہمیں اس حقیقت کو اجاگر کرنا چاہیے کہ وہ "تلوار والی آیات" منسوخ ہیں ۔ 'اسلام کے ساتھ ٹھیک کیا ہے 'میں رؤف فیصل عبدو کہتے ہیں: " قرآن واضح طور ایمان میں جبر کے استعمال سے منع کرتا ہے کیونکہ جبر ایک بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی کرے گا اور وہ ایک آزاد ضمیر کا حق ہے ۔ ایک مختلف مذہبی اعتقاد کو اسلامی قوانین میں تشدد یا جنگ کے لئے ایک جائز وجہ تصور نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن مجید اس پر واضح ہے : ‘‘دین (اسلام) میں کوئی زبردستی نہیں ہے (2:256)’’۔ "(اے پیغمبر ان منکران اسلام سے) کہہ دو کہ اے کافرو! [یعنی جو خدا کا انکار کرتے ہیں یاجو ملحد ہیں یا مشرک ہیں]" تم اپنے دین پر میں اپنے دین پر؛ (109: 1-6)"
اسلام پسندی اور اسلام کے درمیان ایک لڑائی چل رہی ہے سابق الذکر متشدد ہے اور مؤخر الذکر اعتدال پسند ہے۔ بدقسمتی سے اعتدال پسندوں کے مقابلے میں انتہا پسندوں کی آواز زیادہ غالب ہے۔ ہمیں اپنی آواز بلند کرنی ہے۔ انتہا پسند بھیانک کارروائیوں کا ارتکاب کرنے کے لئے معصوم نوجوان مسلمانوں کی منفی ذہن سازی کر رہے ہیں اب یہ ہمارے لئے ان کی ذہن سازی کرنے کا وقت ہے ۔
ہم یہ کیسے کریں؟ میرے خیال سے ہمیں یہ گردش توڑنی چاہئے : اگر مساجد میں کوئی مولوی نفرت کی تبلیغ کر رہا ہے تو ہمیں کھڑے ہو کر اس کا مقابلہ کرنا چاہیے، " ہمیں مسلسل قرآن اور مستند احادیث کی مدد سے ان کے نظریات کو چیلنج کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے، اگر ہمیں ‘‘تلوار والی آیات ’’ کا سامنا ہوتا ہے تو ہمیں اس کی مخالفت ‘‘ امن والی آیات ’’ کے ساتھ کرنا چاہیے، اور اسی وقت اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہئے کہ یہ آیات اب منسوخ ہیں اس لئے کہ ان آیات کا تعلق اس وقت اور اس زمانے سے ہے ۔
for English article : URL
https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/a-challenge-extremism/d/11763
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/a-challenge-extremism-/d/12595