أيمن رياض، نيو إيج إسلام
2 نومبر 2013
یہ مضمون کا دوسرا حصہ ہے جس میں ان حقائق و معاملات کو پیش کیا جائے گا جو گیلپ آرگنائزیشن نے جمع کیا ہے ۔ ‘‘ گیلپ آرگنائزیشن نے ایک ایسی رائے شماری کے آغاز کرنے کا فیصلہ کیا جس سے اس دنیا پر یہ عیاں ہو سکے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کے ذہن میں کیا چل رہا تھا ۔ اس کے پیچھے نہ تو کوئی سیاسی ایجنڈا تھا اور نہ ہی کوئی سماجی ایجنڈا تھا بلکہ اس کے پیچھے صرف مسلم ممالک اور مغربی ممالک کے درمیان ایک ربط کے طور پر کام کرنے کی خواہش کار فرما ہے ’’۔ 1
انٹرویو کا انعقاد یوروپ و امریکہ سمیت 35 ایسے ،ممالک میں کیا گیا تھا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ۔ ہزاروں مسلمانوں سے انٹرویو لیا گیا تھا جس میں انہوں نے یہ پایا :
‘کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ مغربی ممالک مسلم ممالک کا احترام کرتے ہیں ؟’
اکثریت کا کہنا تھا ‘نہیں’ 84% فلسطینیوں نے اور 80% مصریوں نے یہ جواب دیا ۔ حیران کن بات یہ تھی کہ امریکیوں کی اکثریت نے اس سے اتفاق ظاہر کیا :54% امریکیوں نے کہا کہ مغربی ممالک مسلم ممالک کا احترام نہیں کرتے ۔(تمام صورت حال کو تصویری شکل میں مضمون کے اخیر میں پیش کیا گیا ہے)
گیلپ ورلڈ پول کی ریجنل ریسرچ ڈائریکٹر جہاد فخرالدین کا کہنا ہے کہ : ‘‘ یہ تصور پایا جاتا ہے کہ عرب متعصبوں اور متشددوں کی ایک جماعت ہے ؛ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ مغرب ہمیں بن لادن کی عینک سے دیکھتا ہے ’’۔
ایک میڈیا موادی تجزیہ کے مطابق جو لوگ امریکی نیوز میڈیا میں اسلام کا نقشہ پیش کر رہے ہیں ان میں 57% عسکریت پسند ہیں ؛ تاہم وہ عالمی مسلم کمیونٹی کا صرف 1% فیصد حصہ ہیں ۔ میڈیا کی تعمیر اور حقائق کے درمیان زبردست تضاد موجود ہے ۔گیلپ سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈالیا موگاہد کے مطابق : ‘‘اس سے ایک شبیہ یہ پیدا ہوتی ہے کہ مسلم متشدد ہیں ’’۔
مسلم خواتین کی تصویر کشی ایک محکوم وماتحت کے طور پر کی گئی ہے ، ایک سروے میں یہ پایا گیا ہےکہ تقریباً تین چوتھائی خواتین ‘‘غیر فعال مظلوم’’ ہیں۔ صرف ،15% ردوں کے برخلاف ۔ لیکن اس کا تقابل اس بات سے کیسے ہوتا ہوتا ہے جو مسلم خواتین درحقیقت محسوس کرتی ہیں ؟
مسلمانوں کی ایک مضبوط اکثریت یہ کہتی ہے کہ عورتوں کو ایسی کسی بھی ملازمت کی اجازت دی جانی چاہئے جس کی ان کے اندر قابلیت ہے ۔ لبنان میں 96% ، ملیشیا میں 92%، اور حیرت انگیز طور پر سعودی عرب میں 82% لوگ یہ محسوس کرتے ہیں کہ عورتیں ملازمت اختیار کرسکتی ہیں ۔
حجاب کے بارے میں مسلم خواتین کیا سوچتی ہیں ؟ دالیا موگاہد کہتے ہیں کہ ‘‘حجاب کو عورتوں کی کمتری اور گھٹیا پن کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن تعلیم یافتہ اور باختیار خواتین اسے کچھ اور سمجھتی ہیں ۔ ان کے لئے حجاب کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ان کے ظاہری وضع قطع پر اصرار و تاکید کو ہٹاتا ہے اور اسے ان کے باطن ، ذہن و دماغ ، عقل و خرد اور ان کے دل پر مرتکز کرتا ہے’’۔ انہوں نے مزید کہا کہ‘‘ عورتیں صرف اس لئے حجاب پہنتی ہیں کہ یہ ایک مذہبی فریضہ ہے ’’۔
جب ان سے ‘‘آزادیٔ تقریر کے لئے حمایت کی حد ’’ کے بارے میں پوچھا گیا تو امریکہ میں 97% ، مصر میں 94% ، یہاں تک کہ پاکستان میں 82% لوگوں نے آزادیٔ تقریر کی حمایت کی ۔رائے شماری میں یہ پتہ چلا کہ مسلمانوں کو ایک جمہوری ملک میں رہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہندوستان میں پائی جاتی ہے جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور انہیں ہندوستان میں رہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس میں جمہوری نظام حکومت کے لئے کوئی معاندت یا مخاصمت ہو ۔ کینتھ پولک، سابان سینٹر آف بروکنگز انسٹی ٹیوشن کا کہنا ہے کہ:‘‘ متحدہ امریکہ نے عرب ممالک کے ایک استثناء کے ساتھ ، اس دنیا کے کم و بیش تمام ممالک میں جمہوریت کو فروغ دیاہے ۔ اس کے باوجود امریکہ ان آمریت پسندوں کی حمایت کرنے میں خوش ہے جو انہیں جمہوریت نافذ کرنے سے روکتے ہیں ۔ لہٰذا اب جو ہمارے پاس ہے وہ ایک ایسا استبدادانہ نظام حکومت ہے جسے مغربی قوتوں کے ذریعہ سیاسی اور عسکری طورپر فروغ دیا گیا ہے ۔
پچھلے سات آٹھ دہائیوں سے امریکہ کی پالیسی یہ رہی ہے کہ : عرب کے لیڈران مطلق العنان ہیں ، وہ اپنی عوام کو کنٹرول میں رکھتے ہیں ، وہ تیل کے بہاؤ کو یقینی بنائیں گے ۔ وہ چیزوں کو فروغ پانے سے روکتے ہیں اور امریکہ بھی یہی چاہتا ہے اور امریکہ جمہوریت کو فروغ نہیں دے گا تاکہ امریکہ وہ حاصل کر سکے جو وہ چاہتا ہے اور یہ مطلق العنان یہ تمام چیزیں فراہم کر سکتے ہیں اور یہ عرب ممالک اور وسیع پیمانے پر مسلم معاشرے میں آزردگی اور سخت ناراضگی ، غصہ اور مایوسی کا ذریعہ ہے ۔ یہ نتیجہ حیران کر دینے والا ہے ۔
یہ نتیجہ انتہائی حیران کن ہے لیکن اگر ہم اس کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ملک کی پالیسی ان کے کے مذہب اور کلچر سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ نا موفق و نامساعد خیالات کے ساتھ مصریوں کی فیصد : امریکہ و برطانیہ مصریوں کے حسن ظن میں نہیں ہے ۔ باالترتیب 74 اور 69% کے ساتھ ؛ فرانس(21 %) ان ممالک سے کہیں زیادہ بہتر ہے یہاں تک کہ وہ پاکستان (30%) سے بھی بہتر ہے ۔
ایک اور حیرت کن دریافت امریکہ کے مقابلے میں کینڈا کے متعلق مسلمانوں کی رائے تھی ۔کینڈا بہت سے ممالک سے امریکہ سے زیادہ قریب ہے ۔ یہ امریکہ کی منفی خارجہ پالیسی کی طرح ہے ۔67% کویتی امریکہ کے تئیں منفی نظریہ رکھتے ہیں ، جبکہ ان میں سے صرف 3% لوگ ہی کینڈا کے تئیں ناموفق خیلات رکھتے ہیں ۔ یہ بات انتہائی واضح ہے کہ یہ کوئی ثقافت یا کلچر نہیں ہے بلکہ یہ ایسی متصور پالیسیاں ہیں جو ان میں سے بہت ساری چیزوں کا تعین کرتی ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی فیصد کا نتیجہ ہے جنہوں نے یہ سوچا کہ جنگ عراق نے ‘‘فائدے سے زیادہ نقصان ’’ کیا ہے : ایران 57% ، لبنان71% ، کویت 76%، اور 94% مصریوں کا یہ ماننا ہے کہ جنگ عراق میں فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے ۔
ایک اور سوال یہ تھا کہ ‘دہشت گردی کے لئے یہان کتنی ہمدردی ہے؟ لوگوں سے ایک پانچ نکاتی پیمانے پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کی اخلاقی روادری کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ، جس میں ‘1’مکمل طور پر بلا جواز تھا ، اور اور '5 ' مکمل طور پر جائز ٹھہرایا گیا تھا۔ جب ان سے9/11 کے بارے میں سوال کیا گیا تو جوابات کا ایک قطار تھا ۔ تاہم اکثریت نے شکر گزاری کے ساتھ کہا کہ ‘1’ کا مطلب مکمل طور پر بلاجواز ہے ؛ دوسری طرف 7% ایسے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ9/11 مکمل طور پر جائز تھا ۔ اور یہ 7% لوگ اس کے جواز میں قرآن سے کچھ بھی نہیں پیش کر سکے ، بلکہ وہ کسی انقلابی جماعت کی طرح لگے جن کے پاس مذہبی سے زیادہ سیاسی ایجنڈا تھا ۔
مسلمانوں کی اکثریت نےعوام پر حملے کو مسترد کر دیا ہے ۔ انڈونیشیا میں71%، لبنان میں 83%، اور ترکی میں 88% لوگوں نے ۔
جن 7% لوگوں نے 9/11 کا مکمل جواز پیش کیا وہ زیادہ تر امریکہ کے خلاف منفی نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ 7% لوگ دہشت گرد نہیں ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کی حمایت کی اور ان کی تعداد لاکھوں میں نہیں ہے بلکہ ان کی تعداد1.6 بلین مسلمانوں میں صرف ہزاروں میں ہے ۔ رائے شماری میں یہ پتہ چلا کہ وہ 7% لوگ مرکزی دھارے میں شامل لوگوں سے زیادہ مذہبی نہیں ہیں ۔جس چیز نے انہیں مرکزی دھارے میں شامل لوگوں سے ممتاز کیا وہ ان کا ‘‘تقویٰ ’’ نہیں بلکہ ان کی ‘‘سیاست ’’ ہے ۔ دالیا موگاہد نے کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی طور پر بنیاد پرست ہیں اور سیاسی طور پر بنیاد پرست انہیں کہتے ہیں جو فوری سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر پرتشدد ذرائع کے ذریعہ بھی ۔ ان کے لئے مذہبی متشدد سے زیادہ موزوں ایک انقلابی کی تعریف ہے ۔
کسی اور سے زیادہ ان سے یہ کہنے کی امید کی جاتی تھی کہ وہ یہ کہیں کہ ان معتقدات کے لئے اپنی جان کی قربانی دینا ان کے لئے مکمل طور پر جائز ہے ۔ ان سے کافی حد تک یہ بھی امید کی گئی تھی کہ وہ یہ کہیں کہ عام طور پر عوام پر حملے کرنا جائز ہے ۔ گرافیکل نمائندگی میں وہ اپنی ہی جھرمٹ میں مرکزی دھارے میں شامل لوگوں سے مختلف اور بہت دور ہو کر منتشر ہو گئے ۔ یہ 7% لوگ نہ صرف یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کے تئیں انتہائی منفی رویہ کے حامل ہیں بلکہ وہ خود اپنی حکومت کے بھی خلاف ہیں ۔
1. http://documentarystorm.com/inside-islam-what-a-billion-muslims-really-think
URL of Part 1:
https://newageislam.com/islamic-society/muslims-really-think-(part-i)/d/14223URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/muslims-really-think-(part-2)/d/14252
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/muslims-really-think-(part2)-/d/24392