احمد جاوید
30 اگست 2020
آج سےپورےایک ہزار تین
سو اکاسی سال پہلےآج ہی کےدن عراق میں کربلا کی سرزمیں پر اسلام کی تاریخ کا جو
سانحہ عظیم پیش آیا تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال تو نہیں ملتی لیکن وقت کا پہیاجتنا
گھومتا ہے، دنیااسی رفتار سے کربلا بنتی جاتی ہے، کرۂ ارض پر جدھر دیکھیے کربلا
کے مناظر ہیں، جس جس جگہ قدم رکھیے زمین کربلا پائیں گے۔پتہ نہیں آپ کیا دیکھتےہیں، میری
آنکھوں کے سامنےتو یزیدیوں کا وہی انبوہ بے کراں ہے اور مظلوموں کی وہی بے
سروسامانی،شام و یمن سے ہندوچین تک سڑکوں پرمظلوموں کے لٹے پٹے قافلے ،ماؤں کی
گود میں
بھوک پیاس سے دم توڑتے بچے ،بے دست وپاقیدیوں پر وحشیانہ
مظالم،نہتوں پر حملے، انسانوں کی زندگی جانوروں سے بھی ارزاں،انصاف کا خون،انسانیت
کی پامالی اورجنگل کا قانون، ایک کربلا کو کون روئے، ہرقدم پر کربلا ہر سینہ میں
طوفان بلاخیز۔
میدا ن کا رزار کے نقشہ
کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیں تومعرکۂ کربلا کوئی اتنی بڑی جنگ نہ تھی۔بیعت یزید سے
سبط رسول سیدالشہداء امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے انکار سے آپ کی شہادت تک کے
تمام واقعات بہ مشکل چار ساڑھے چار ماہ کی مدت پر محیط ہیں۔اسی مختصر سی مدت میں
امام حسین نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کو ہجرت فرمائی اور مکہ سے کوفہ کو جہاں دریائے
فرات کے کنارے شہید کر دیے گئے۔ذرا تصور کیجیے ، ایک طرف سپاہ شام و عراق ، دوسری
طرف بہ مشکل بہتر نفوس ۔لڑائی کتنی یک
طرفہ تھی ۔مگر یہ مختصر سی جنگ تاریخ کے اوراق پر پھیلی توپھیلتی چلی گئی ۔
کربلاکے شہیدوں کا خون تاریخ کے ماتھے پر ہمیشہ کے لیے جم گیا۔ سوال یہ ہے کہ آخر
کیوں؟فرصت میں کبھی اس پر بھی غور کیجیے۔پھریہ بھی دیکھیے کہ ہمارا خون اس قدر
سستا اور اتنا بے رنگ کیوں ہے جو قاتلوں کی آستینوں پر بھی نہیں جمتا؟
امام حسین وقت کی سپرپاور
کے سامنے آئین و قانون کی بحالی کے لیے کھڑے تھے، اس نظام کے تحفظ کے لیے سینہ
سپرتھےجو مصطفیٰ جان رحمتﷺ نےدنیا کو دیا،جانیں قربان کردیں لیکن اس کے ہاتھوں میں
ہاتھ دینا گوارا نہیں کیا۔کربلامیں جنگ سے پہلے یزیدی لشکر کے سامنے سبط رسول ﷺنے
جو خطبہ دیا تھا وہ ان کے ارادے، ان کے عزم اور ان کے مشن کا منشور ہے ۔ـ’’اے
لوگو! رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی ایسے حاکم کو دیکھے جو ظلم کرتا ہے ، خدا کی
قائم کردہ حدیں مٹاتاہے،عہد الٰہی کو توڑتا ہے ، سنت نبوی کی مخالفت کرتا ہے ،
اللہ کے بندوں پر گناہ اور سرکشی سے حکومت کرتا ہے،اور دیکھنے پر نہ تو اپنے فعل
سے اس کی مخالفت کرے نہ اپنے قول سے، اللہ ایسے آدمی کو اچھا ٹھکانہ نہیں بخشے
گا۔ دیکھو!یہ لوگ شیطان کے پیرو بن گئے ہیں، رحمان سے سرکش ہو گئے ہیں ، فساد ظاہر
ہے حدود الٰہی معطل ہے، مال غنیمت پر ناجائز قبضہ ہے۔ اللہ کے حرام مال کو حلال
اور حلال کو حرام ٹھہرایا جارہا ہے۔ میں ان کی سرکشی کو حق و عدل سے بدل دینے کا
سب سے زیادہ حقدار ہوں‘‘ ۔ غور کریںکہ خود ہم وفاداروں میں ہیں یا بے وفاوں میں،سرکشوں
میں ہیں فرماںبرداروں میں؟آپ نے دیکھا کہ مظلوم کربلا نے کوفہ کا سفر کن مقاصدسے
کیا تھا؟ اپنے شیر خوار نونہال تک کی قربانی کیوں دی تھی؟اور خود اپنے جسم مبارک
پر نیزوں اور تلواروں کے ۶۷
زخم کھانے کے بعد سجدہ میں سر کیوں کٹایا تھا؟وہ مقاصد ظلم کا استیصال ، حدود الٰہی
کی نگہداشت ، مومنوں کے اللہ سے کئے ہوئے وعدوں کا ایفا، سنت نبوی کی حفاظت ،
لوگوں کو سرکشی سے بچانے کی کوشش، فساد کو مٹانے کی جدوجہد ،مال غنیمت یعنی عوامی
رقوم(سرکاری خزانہ ) کی لوٹ کھسوٹ کو روکنا ، حرام وحلال کی پابندی اور حق و عدل
کا قیام تھے جو نواسہ رسول کو حرم مکہ سے وادی نینوا تک کھینچ لائے تھے۔ یہ مقصد کی
عظمت اور کردارکی صداقت ہے جس نے کربلا کے شہیدوں کا خون انفس و آفاق میں پھیلا دیا۔
آپ دیکھتے ہیں کہ مکہ میں
اسلام کا آغاز ہوا تو مسلمانوں کی حیثیت ایک مملکت در مملکت کی تھی لیکن ہجرت
کرکے وہ مدینہ پہنچے تورسول اکرم ﷺ نے چند ہی ہفتوں کے اندر ایک مملکت قائم کردی
جس کا دستور بھی ہم تک پہنچا ہے۔ جو مثال ہے کہ مملکت کس طرح قائم ہوتی ہے۔دنیا کی
قدیم تاریخ میں اور بھی عوامی فلاحی ریاستوں کا ذکر ملتا ہے۔ہندستان میں ویشالی
کے گرام سوراج اور یونان میں ایتھنزکی شہری ریاست کاذکر چھیڑے بغیر اب مشرق و مغرب
میں سیاسیات کی کوئی بحث آگے نہیں بڑھتی لیکن پرانی سلطنتوں کے تعلق سے ہمیں
بالکل ہی نہیں معلوم کہ وہاںمملکت کس طرح قائم ہوئی۔ شہر مدینہ کے متعلق ہمیں تفصیل
سے معلوم ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ پہنچے تو دیکھا کہ اس شہر میں کئی قبیلے رہتے
ہیں لیکن کوئی تنظیم یا حکومت بالکل ہی نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں حضور نے تجویز پیش
کی کہ دفاعی و عدالتی اغراض کے لیےاہل مدینہ اپنے آپ کو منظم کرلیں۔آپ کی اس تجویز
کو مقامی باشندوں اور قبیلوں نے قبول کرلیا۔آپ کو سردار اعلیٰ یا صدرمملکت منتخب
کیا گیا اور حاکم ورعایا دونوں کے حقوق و فرائض ایک دستاویز میں باضابطہ لکھے
گئےجس کو ہم مملکت مدینہ کا دستور کہہ سکتے ہیں۔جس میں اندرونی انتظامات کے متعلق
کافی تفصیل سے احکامات درج ہیں،مذہبی آزادی کا بھی تفصیلی ذکر ہےاوردفاع کے
انتظامات اورجنگ و صلح کے قوانین بھی اس میں درج ہیں۔دنیا میں جدید
ریاست کی بنیاد گویا مدینہ منورہ میں پڑی لیکن اس کااحسان ماننا تو دور، مسلمانوں
کو آج کی دنیا اس کاکریڈٹ تک نہیں دیتی ۔ مسلم قومیں جہاں بھی ہیں ذلیل و خوار ہیں
تو اس لیےکہ مسلمان اس مملکت کو سنبھال نہیں سکے ۔رسول اللہ ﷺ کا دیا ہوا نظام جب
خطرے میں آیا تو پہلے حضرت علی، پھر امام حسن ، امام حسین (رضی اللہ عنھم) اوران
کے ساتھیوں نےاس کو بچانے اورآنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کی جدوجہد کی۔رسول
اکرم ﷺ کی مشہور حدیث ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے قرآن کو پہنچانے کے لیے
تلوار اٹھائی ، علی قرآن کو بچانے کے لیے جہادو قتال کرےگا۔
آج ہمارے لیے یہ سمجھنا
مشکل نہیں رہ گیا ہے کہ اسلام میں ملوکیت کے قیام کے ساتھ دنیا کا کتنا بڑا نقصان
ہوا اور اگر اس کے خلاف امام حسین کھڑے نہ ہوتے، اپنی اور اپنے جاں نثاروں کی جانیں
قربان نہ کرتے تو مزیدکتنابڑا نقصان ہوتا؟ اسلام ایک ہزار تین سو اکاسی سال سے
کربلا میں ہے، قرآن کو بچانے اور دین کو قائم رکھنے کی جنگ کم و بیش ہرجگہ جاری
ہے، حسین کھڑےنہ ہوتے تو جس طرح ہماری سیاسی زندگی،حکومت و مملکت سے اسلام کی روح
رخصت ہوگئی، عائلی زندگی سے بھی نکل جاتی، نہ مظلوموں کے خیموں میں قرآن ہوتا،
آل محمد کے قافلے نکلتےنہ اصفیائے امت کی جماعتیں دین کی حفاظت کی جدوجہد جاری رکھتیں۔
جو کچھ بچتا وہی بچتا جو دنیا کےکم و بیش ۵۷مسلم ملکوں کے حکمرانوں کے محلوں اور ایوانہائے
اقتدار میں نظر آتاہے۔ آج مسلمانوں کا سب سے بڑاالمیہ ، سب سے بڑا بحران یہی ہے
کہ ان کے پاس سیاسی و سماجی زندگی کے دونوں نمونے موجود ہیں، جن ملکوں میں آپ اقلیت
میں ہیں
وہاں رسول ﷺ کی مکی زندگی کا مملکت در مملکت کا نمونہ
اور جہاں آپ کے پاس اقتدار ہےخواہ آپ اقلیت میں ہوں یا اکثریت (مدینہ میں رسولﷺ
سربراہ مملکت منتخب کیے گئے تو مسلمان شہر کے دوسرے باشندوں کے مقابلے میں ایک بہت
ہی چھوٹی اقلیت تھے )وہاں ریاست مدینہ کا نمونہ، دنیا پراور خود اپنے آپ پر ان کا
احسان ہوگا کہ وہ اس کو اپنا لیں،ہم دیکھ اور سن سکتے ہیں کہ آج کی دنیا ان سےیہی
تقاضہ کررہی ہے لیکن مشرق و مغرب میں کتنے ملک اور معاشرے ہیں جنھوں نے
اس کو سمجھا اور اپنایا ہے،بقول شاعرہماری کیفیت یہ ہےکہ:
مراحسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
# میں حر ہوں اور ابھی لشکر یزید میں ہوں
30 اگست 2020، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/my-husain-yet-reached-karbala/d/122750
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism