احمد جاوید
12نومبر،2017
یہ گیارہویں صدی کا بغداد تھا۔ سلجوقیوں کے وزیر نظام الملک طوسی نے دریائے دجلہ کے کنارے ایک فضا مقام پر عالیشان عمارتیں تعمیر کرائیں، کشادہ درسگاہیں ،شاندار کتب خانہ، بہتر ین اقامت گاہیں اور امام جوینی ،ابواسحاق شیرازی اورابونصر صباغ جیسے جیداساتذہ۔ نظام الملک طوسی کا یہ دارالعلوم (559ھ1065ء) میں بن کر تیار ہوگیا۔اس کے مصارف کے لئے قیمتی جائیدادیں وقف کی گئیں تو اس زمانے کے بعض علمانے بڑی مخالفت کی۔ ایک اجتماع بلا کر انہوں نے اس انتظام کی سخت مذمت کی او رکہا کہ لو گ اب علم کی خاطر علم حاصل نہیں کریں گے بلکہ دنیا کیلئے علم حاصل کریں گے ۔ یہاں تک کہ اس شور کے دباؤمیں شیخ الشیوخ شیرازی نے مدرسہ کے افتتاحی جلسے میں شرکت نہیں کی جب کہ افتتاحی خطبہ اور پہلا درس انہی کودینا تھا ،لہٰذا یہ فریضہ شیخ ابونصر نے انجام دیا۔
تاریخ کا یہ ورق سامنے آیا او رمیرے ذہن و فکر میں دھماکے ہونے لگے۔ آیا ہم لوگ ایک ہزار سال سے اپنی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ یہ نظام تعلیم بہتر ہے یا وہ نظام اچھا ؟ اس نصاب میں خیر ہے یا اس نصاب میں؟ امت کو ملاّ کی ضرورت ہے یا مہندس کی؟ یا خدا ! اس مدت میں دنیا کہاں سے کہاں نکل آئی، اسی بغداد ، قاہرہ، قراؤین اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں سے ترقی کا راز پاکر شکست خوردہ قومیں جانے کس کس مورچے پر خلافت الہٰیہ کے دعویدار وں کو مات دے رہی ہیں او رہم ہیں کہ ایک دوسرے کے ایمان ودیانت اور حسب و نسب کوناپ رہے ہیں۔کیا ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی درسگاہ میں ہر ذوق اور ہراستعداد کے طلبہ نہ ہوتے تھے؟ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاضی کوکل علم کانصب نہیں کیا؟ کیا عبرانی سیکھنے کے لئے یہودیوں کے پاس نہ بھیجا ؟ اور کیا ہر قسم کے ہنر، محنت اور دستکاری کی حوصلہ افزائی نہیں کی؟ او رکیا صرف ذوق اور صلاحیتوں کی بنیاد پر لوگوں کوآگے نہیں بڑھایا ؟کیا سماج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا وہ ایک جامع معاشرہ نہ تھا جس میں ہر سطح ذہن اور ہر استعداد کے لوگ ایک دوسرے کی قدر کرتے تھے، ہر کوئی دوسرے سے سیکھتا تھا،دوسروں کی خیر خواہی میں حریص اور پنی غلطی یا کمزوری کی نشاندہی کرنے والے کا احسان مند ہوتا تھا؟
آپ خواہ محسوس کریں نہ کریں لیکن سچ مانیے آج کل دھماکوں پر دھماکے ہورہے ہیں، ایسے دھماکے جن سے صوفیوں کے مراقبے میں خلل پڑجائے، خلوت گزینوں کااعتکاف ٹوٹ جائے ،جوگیوں کی تپسیا بھنگ ہوجائے اور وہ بھی بے چین ہوجائیں جن لوگوں کے شور و شر سخت ناگوار ہیں ۔اب یہی دیکھئے کہ ہمارے مدرسے کا ایک مستند پروڈکٹ یعنی برانڈ مولوی کھلی فضا میں سانس لیتے ہی فارغین مدارس کے ذہنی و فکری معیار واستعداد پر سوال اٹھا تا ہے، مدرسوں کے اس نصاب کوآٹھویں دسویں تک بتاتا ہے جس کو ہم اب معیار فضیلت تصور کئے بیٹھے ہیں۔ ہونا توچاہئے کہ ہم اس کے سوالوں کو سنجیدگی سے لیتے ،غور و فکر کرتے اور چیلنجز کو قبول کرتے لیکن اس بحث میں جو ہند و پاک کے بڑے وسیع حلقے میں پھیل گئی جب ایک شخص نے کہا کہ بر صغیر تو کیا سارا عالم اسلام نقال ہے، نہ کوئی نئی سوچ ہے ، تجدید نہ تحقیق ، جس طرف دیکھئے ،نقل ہی نقل ۔
تاریخ کے اسی ورق پر لکھا تھا کہ نظام الملک طوسی نے بغداد ہی نہیں ، نیشا پور، آمل، بلخ ، ہرات، اصفہان، بصرہ مرو، موصل اور عراق و خراسان کے ہر شہر میں اتنے ہی بڑے بڑے مدرسے قائم کئے۔ پوری سلطنت میں مدرسوں کا جال بچھا دیا جو سب کے سب مدرسہ نظامیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ صرف ایک سال (559ھ) میں سلطان کے خزانے سے 70مدرسے بنائے گئے۔ آگے چل کر یہ سلسلہ اس قدر مقبول ہوا کہ 1155ء سے 1260ء کے دوران قاہرہ میں مدرسوں کی تعداد 75، دمشق میں 51، اور حلب میں 44تھی۔ او ران ہی مدرسوں نے رومی ،غزالی، شاشی، خیام اور شبلی بھی پیدا کئے اورابن حیان ، البیرونی ، ابوسینا اور ابن حثیم جیسے طب، ریاضی، کیمیا، طبعیات ،ہندسہ اور تاریخ و عمرانیات کے ماہرین بھی دنیا کودیئے لیکن اس سے اگر کسی نے کوئی سبق نہ لینا تھا تو وہ بھی ہم ہی ہیں۔ عہد تغلق و لودھی میں جب اس نصاب میں طب و حکمت اور ریاضی کی نئی کتابیں داخل کی گئیں تو پھر یہی شور تھا کہ تعلیم کا اصل مقصد فوت ہوجائے گا ۔ پھر عہد عالمگیری آیا جب ملا نظام الدین نے اورنگ زیب کی سرپرستی میں ایک نیا نصاب جاری کیا۔ اس بات بھی اس پر طرح طرح کی نکتہ چینی ہوئی ، فلسفہ و منطق لاد نے کا الزام آیا مگر نیرنگی دیکھئے کہ اب یہ نصاب بھی مقدس گائے ٹھیرا جس کو چھونا حرام تھا۔
موجودہ ہندوستان میں جدید طرز کے ، قواعد و ضوابط کے پابندامتحانات اور نتائج کے نئے نظام والے مدارس کے بانی انگریز تھے لیکن مدرسہ عالیہ کلکتہ کے قیام کے تقریباً ایک سو سال بعد غازی الدین حیدر نے مدرسہ دہلی قائم کیا۔ اب سوچ میں کچھ تبدیلی آئی اور دیوبند وعلی گڑھ دونوں تحریکوں کے بانیان اسی دہلی کالج کے تعلیم یافتہ تھے۔ ایک ہزار سال کی ایک اس پوری تاریخ میں ایک مشترک ہے۔ مسلمانوں کوتعلیم میں وقت کے تقاضوں اور تبدیلیوں کوقبول کرنے میں ہر بار کم از کم سو سال لگے ۔ زندہ قومیں اپناراستہ خود بناتی ہیں اور اس پر مضبوطی سے چلتی ہیں لیکن ہم لوگ،صدیوں سے بنے بنائے راستوں پر چلنے کے عادی ہیں، وقت کے ہموار کردہ راستوں پر چلتے ہیں یہاں تک کہ پھر کوئی راستہ ایک اور رخ پر چلنے کو مجبور کردیتا ہے۔ اسی طرح رخ بدلتے رہتے ہیں اور جس جس رخ پر راستہ لے جاتاہے، چلے جاتے ہیں۔ ایک تعلیم ہی کیا سیاست ومعیشت جہاں دیکھئے ہمارا حال یہی ہے۔
اس دن ہم شیخ ابو سعید احسان اللہ محمدی صفوی کی مجلس میں تھے۔الہٰ آباد کے سینئر وکیل نے ایک بایو ڈاٹا بڑھاتے ہوئے اپنے ساتھی کاتعارف کرایا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر کہیں کوئی گنجائش ہو توشیخ اس نووارد کو روزگار سے لگادیں۔ اس کے پاس فاضل کی اسناد بھی تھیں او روہ الہٰ آباد یونیورسٹی سے کامرس میں گریجویٹ بھی تھا۔’’ یہ عالم فاضل کی اسناد تو ہمارے کسی کام کی نہیں ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ آپ نے بی کام کیا ہے تو اکاؤنٹ وغیرہ آتا ہے یا سائنس میں انٹر میڈیٹ کیا ہے تو اس میں آپ کیسے ہیں‘‘؟ وہ خاموش تھا ۔ نہ اسے اردو فارسی آتی تھی، نہ کامرس میں کچھ دخل رکھتا تھا نہ دوسرے مضامین میں خود کو اس لائق پاتا تھا کہ اعتماد کے ساتھ کچھ کہتا ۔ اب شیخ نے پوچھا کہ کیا آپ کو ڈرائیونگ آتی ہے؟ یہ بھی نہیں آتی تھی۔ میری زبان سے بے ساختہ نکل گیا ’’ یہ تو ہمارے زمانے کے ہیں، جب ڈگریاں نوکری دیتی تھیں حالانکہ اب زمانہ بدل چکا ہے‘‘۔معاً لگا کہ کسی نے میری کانوں میں کہا کہ ’’ میاں! تم اس ایک شخص کی کیا کہتے ہوں، تمہاری تو پوری کی پوری قوم ہی انیسویں صدی میں اٹکی ہوئی ہے۔‘‘ حاضرین کو ہنسی آرہی تھی۔ جے این یو کے پروفیسر معین الدین جینا بڑے آلہٰ آباد یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفر انصاری بھی ہنس رہے تھے ۔ یہ شخص بتار ہا تھا کہ اس نے عالم فاضل کرکے بورڈ سے مدرسہ منظور کرانے کی کوشش کی تھی مگر نا کام رہا۔ آنے کو تو مجھے بھی ہنسی آرہی تھی ، پھر ترس آیا اور اس کے بعد ذہن میں دھماکے ہونے لگے، دل میں پیدا ہونے والی ہر ٹیس باہر آنے کو بے قرار تھی۔ محض اتفاق ہے کہ اگلے ہی دن حکومت اتر پردیش نے ریاست کے مدرسوں میں عصری علوم کی این سی ای آر ٹی کی کتابیں داخل نصاب کرانے کا اعلان کیا اور اس پر بحث چھڑ گئی ۔ یہ کوئی نئی بحث نہیں تھی لیکن حد تو یہ ہوئی کہ مدارس کے ایک گروپ نے حکومت اور مدرسہ بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کردیا۔ گویا یہ کوئی قانونی جرم ہے جو حکومت ان کے ساتھ کرنے جارہی ہے۔ دو دن بعد بہار مدرسہ بورڈ کے فوقانیہ (X) کا رزلت آیاتو 80ہزار 932طلبا ء و طالبات میں صرف 4طلبہ ہی فرسٹ ڈویژن میں جگہ پاسکے او ر31ہزار 107فیل ہوگئے کیونکہ ایک عرصہ بعد پہلی بار بورڈ کے امتحانات صاف ستھرے ماحول اور سخت نگرانی میں ہوئے تھے ۔اب کچھ لوگ اس میں بھی سرکار کی سازش دیکھ رہے ہیں ۔ ان دھماکوں کا کلائمکس یہ ہے کہ کشن گنج کی اصغری بیگم نے فوقانیہ (X) میں فیل ہوجانے سے زہر کھا کر جان دے دی۔
میری نگاہوں میں الہٰ آباد یونیورسٹی کے اس گریجویٹ کاچہرہ اب بھی گردش کررہا تھا جس نے عالم فاضل کی اسناد بھی حاصل کی تھیں، سانئس بھی پڑھی تھی، کامرس میں بھی ڈگری رکھتا تھا لیکن وہ کسی کام کا نہیں تھا کہ شیخ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے دواخانے ، ٹرسٹ ،خانقاہ یا مدرسے میں رکھ لیتے۔ بھلا وہ تعلیم کس کام کی جو آپ کو کوئی ہنر نہ دے، کسی ضرورت کانہ بنائے؟ آپ بھی کیا کہیں گے کہ ہمارے سروں سے خون کا دریا گزر جاتا ہے،پہلو خان اور جنید مارے جاتے ہیں ، قانون کے رکھوالے قانون و انصاف کا خون کرتے ہیں، دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ او ران کے ساتھی چھوڑ دئیے جاتے ہیں ، یہ بے چین نہیں ہوتا ۔ برما میں روہنگیوں کاقتل عام ہوتاہے، رخائن کے مہاجرین کی کشتیاں خلیج بنگال میں غرقاب ہوتی ہیں، بے گناہوں کی بے گوروکفن لاشیں میڈیا کے اوراق کی زینت بنتی ہیں، اس کے مراقبے میں خلل نہیں پڑتا لیکن کچھ مسلم نوجوانوں کے خیالات ،اسکول مدرسے ، ان کے معیار ،امتحانات کے نتائج اوران پر ہونے والی بحثیں ، اس کے لئے دھماکوں سے بھی بڑے دھماکے ہیں لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا یہ قتل و خون ، یہ تہمتیں ،یہ رہائیاں اور یہ قید وبند کی صعوبتیں قوموں کوجگانے کے لئے نہیں ہوتے ، میاں ! ان کربلاؤں نے تو اسلام کوزندہ کیا ہے لیکن کیا سیاست ومعیشت او ران سے بھی بڑھ کرتعلیم کے تعلق سے وہ رجحانات جو دوسرے قسم کے واقعات میں نظر آتے ہیں ،قوموں کومٹانہیں دیتے ۔ کیا ان ہی رجحانات پر قومی ترقی یا تنزلی کی عمارتیں نہیں بلند ہوتیں؟ اگرآپ کولگتا ہے کہ ہم بلا وجہ ہراساں ہیں، خواہ مخواہ خوف کھار ہے ہیں تو معاف کیجئے ، ہم آپ سے کچھ نہیں کہتے ورنہ اس بحث کوبند کیجئے ، اس دو عملی اور ٹکراؤ سے باہر نکلئے اور پہلی فرصت میں اپنی ترجیحات طے کیجئے ۔رونے کو تو ہم ہر وقت تعصبات کارونا روتے ہیں، اپنے خلاف قدم قدم پر نفرتو عداوت کاشکوہ کرتے ہیں، اپنے ملی وجود اور مذہبی تشخص کودرپیش خطرات کی بات کرتے ہیں لیکن ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم کیا کررہے ہیں؟
اگر اس تیز رفتار دنیا میں بھی ہم اپنی سیاسی، معاشی اور تعلیمی ترجیجات طے نہیں کرپائے، اگر اب بھی ہم نے اپنا راستہ خود نہیں بنایا اور اس پر مضبوطی سے نہیں چلے۔ اب بھی اگر اسی بحث میں مبتلا ہیں، اسی ذہنی پسماندگی کا شکار اور اسی فکری کشمکش میں گرفتار ہیں جس میں انیسویں صدی میں مبتلا تھے، اگر اب بھی آپ قوم پرستی اور اسلام پسندی کی اسی جنگ اوران ہی اختلافات کو ڈھو رہے ہیں جس نے بیسویں صدی کے اوائل میں ملت کو فرقوں اور خیموں میں تقسیم کیا اور اگر اب بھی اپنے ’’ معصوم اسلاف‘‘ کی پہاڑ جیسی غلطیوں سے سبق لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ،وقت کی کروٹیں آپ کو راستہ نہیں دکھاتیں تو پھر کب ہوش کے ناخن لیں گے؟ ہماری پریشانی یہ ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے اسی دور پر آشوب میں ٹھہر گئے ہیں جس نے مسلمانوں کے اقبال کو ادبار میں بدل دیا اور ہم اس ذہنی و فکری دلدل سے نکلنے کی ہمت ہی نہیں جٹا پارہے ہیں۔ صلاحیتوں کا مقابلہ اسناد سے کرناچاہتے ہیں، محنت و مشقت کے مقابلے میں تن آسانی اور خیرات پرجینے کی روش پر آمادہ ہیں، ترقی کی دوڑ بیساکھیوں کے سہارے جیتنے کے خواب دیکھتے ہیں اور دعویٰ یہ کہ ہم اسلام کو بچائیں گے ،دین و ملت کو ہماری ضرورت ہے، ہم ہی ہیں جو اللہ کی زمین پر اللہ کی خلافت قائم کریں گے ۔بھئی کیجئے ،شوق سے کیجئے لیکن کس حکمت عملی، کن راستے او رکن اسباب و سائل سے کریں گے ،یہ بھی سوچا ہے؟
12نومبر،2017، بشکریہ : انقلاب،نئی دہلی
https://newageislam.com/urdu-section/accepting-modern-education-demand-time/d/113197
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism