آغاز مسعود حسین
کیری لوگر بل امریکی سینیٹ
سے منظور ہوگیا ہے او رامریکی کانگریس نے بھی اس کو متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔
اب یہ بل امریکی صدر بارک اوبامہ کے پاس بھیجا جائے گا جو اس پر دستخط کریں گے۔ اس
کے بعد یہ قانون بن جائے گا۔ اس بل کے ذریعے پاکستان کو ہر سال 1.50بلین ڈالر ملیں
گے جس کو سماجی و معاشی بہبود کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ (پانچ سال تک کے لئے ہر
چند کہ یہ رقم پورے پاکستان کے لئے استعمال کی جائے گی لیکن اس کا زیادہ تر
استعمال فاٹا، سوات او رمالا کنڈ میں ہوگا۔ جہاں گزشتہ کئی سالوں سے نہ تو ترقیاتی
کام ہوئے ہیں نہ ہی وہاں کے عوام کے لئے کسی قسم کے روزگار کے ذرائع پیدا کئے گئے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں عوام کی معاشی بدحالی کو دیکھتے ہوئے غیر ملکی طاقتوں نے
انہیں استعمال کیا ہے اور دہشت گرد بنا کر ملک کے خلاف جنگ میں دھکیل دیا
ہے۔پاکستان کی حکومت کے پاس کیونکہ مالی وسائل کی شدید کمی ہے، اس لئے پاکستان
اپنے دوست ممالک سے مالی امداد کی توقع کررہا ہے۔ کیری لوگر بھی پاکستان کی مالی
امداد کے سلسلے میں ایک کڑی ہے تاکہ اس رقم کو پاکستان کے اس پسماندہ علاقوں میں
استعمال کیا جاسکے۔ اس بل کے تین اہم نکات ہیں:(1) پاکستان ایٹمی ہتھیاروں یا
معلومات کے عدم پھیلاؤ میں سختی کے ساتھ کاربند رہے گا۔(2) پاکستان دہشت گردی کے
سلسلے میں اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔(3) پاکستان
کی فوج جمہوری نظام کو ختم کرنے میں فریق نہیں بنے گی۔ ماضی میں ڈاکٹر قدیر خان پر
یہ الزام تھا کہ انہوں نے ایٹمی معلومات ایران اور شمالی کوریا کو مبینہ طور پر
فراہم کی تھیں۔
چنانچہ اگر کیری لوگر بل میں
یہ شرط موجود ہے تو اس میں ناراض یا غصہ ہونے کی کیا بات ہے۔ دوسرا نکتہ بھی
پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ممبئی میں دہشت گردوں کا حملہ ایک ایسا واقعہ تھا جس پر
بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ سکتی تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں جنگ
کے لئے تیار ہوگئے تھے امریکہ اوربعض یورپی ممالک نے دونوں ملکو ں کے درمیان جنگ کی
فضا کوٹھنڈا کرکے ایک ایسا ماحول پیدا کیا کہ اب یہ دونوں ملک کسی بھی دن (ممبئی
واقعات کے بعد) اپنے ٹوٹے ہوئے تعلقات کو بحال کرسکتے ہیں جیسا کہ بھارتی وزیر
اعظم نے اپنے ہم منصب یوسف رضا گیلانی سے شرم الشیخ میں وعدہ کیا تھا کہ گو یہ
وعدہ ہنوز وعدہ ہی ہے تیسرا نکتہ پاکستان کی فوج کی جانب سے جمہوری اداروں میں
مداخلت سے متعلق ہے۔ پاکستان کے عوام جیسا کہ سبھی جانتے ہیں وہ فوج کی جمہوری
اداروں میں مداخلت کوپسند نہیں کرتے بلکہ انہیں شکایت ہے کہ فوج کی مداخلت کی وجہ
سے پاکستان میں جمہوری ادارے پنپ نہیں پاتے ہیں۔اس لیے فوج کو مداخلت سے باز رہنا
چاہئے۔ چنانچہ یہ نکتہ یعنی فو ج کی سیاست میں عدم مداخلت بھی پاکستانی عوام کی
ترجمانی کررہا ہے۔ اس کے علاوہ اس بل میں ایک ایسا بھی نکتہ ہے جس کو پاکستان کی
حزب اختلاف ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور یہ ہے کہ ہر سال امریکی سیکریٹری
خارجہ اس رقم کے صحیح یا غلط استعمال پر ایک سرٹیفیکٹ جاری کریں گی جو اس بات کی
ضمانت ہوگاکہ دوسرے سال پاکستان کو مالی امداد جاری رہنی چاہئے یا نہیں۔میں سمجھتا
ہوں کہ یہ شرط اس لئے عائد کی گئی ہے کہ پاکستان کا ریکارڈ امداد کی رقم کے
استعمال کے سلسلے میں بہت بڑاے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صدر محترم کی تمام ترکوششوں کے
باوجود پاکستان کو احباب پاکستان کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملی۔ کیری لوگر بھی کسی
حد تک محدود پیمانے پر پاکستان کی مالی ضرورت کو پورا کررہا ہے۔
اگر اس بل کے تحت حاصل
ہونے والی مالی امداد منصفانہ طور پر فاٹا، سوات او رمالا کنڈ میں استعمال ہوتی ہے
تو ان علاقوں میں بہت کچھ بدل سکتا ہے۔ صدر اوبامہ کو اس بات کا ادراک ہوچلا ہے کہ
پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں معاشی ترقی کے امکان پیداکر کے ہی دہشت گردی کے
خلاف جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کیری لوگر بل میں امریکہ کا مفاد صاف نظر
آرہا ہے لیکن پاکستانیوں کو یہ بات فراموش کرنی چاہئے کہ کوئی بھی امداد شرائط کے
بغیر نہیں آتی او رنہ ہی ان شرائط سے نتیجہ اخذ کرناچاہئے کہ پاکستان کی سالمیت
متاثر ہوگی نیز یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ آپ کو یہ امداد منظور نہیں ہے
توپاکستان کے پسماندہ علاقوں میں ترقی کام کیسے شروع ہوں گے جب کہ حکومت کے پاس پیسے
نہیں ہیں او راگر پیسے ہوتے تو پاکستان کوآئی ایم ایف کے پاس کیوں جاناپڑتا؟ آخر
آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کو قرضہ دینے سے قبل سخت شرائط عائد کی ہیں اور
پاکستان بادل نخواستہ قرضہ لینے پر مجبور ہے۔ پاکستان اس وقت ایک ایسے دور اہے
پرکھڑا ہے جہاں سیاسی قیادت کوبہت تلخ فیصلے کرنے ہوں گے اس ضمن میں حکومت کو حزب
اختلاف کا بھی اعتماد حاصل کرنا چاہئے جب کہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو معروضی
حالات کے تحت زیادہ پر اعتماد بنانے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اس وقت واحد سپر پاور ہے۔
جس کے اپنے قومی مفادات ہیں اور اس قومی مفادات میں پاکستان کے ساتھ اس کی دوستی ویگانگت
لازم و ملزوم بن چکی ہے۔دہشت گردی کی جنگ پاکستان تن تنہا نہیں جیت سکتا ا س کے
لئے امریکہ علاقائی ملکوں کا تعاون بھی اشد ضروری ہے جس میں مالی امداد ایک اہم فیصلہ
ہے۔ اگر ہمیں کیری لوگر بل سے یہ امداد مل رہی ہے تو اس کو قبول کرنے میں کیا حرج
ہے یہ امداد صرف عوامی فلاح و بہبود اور ذرائع حمل و نقل کوبہترین بنانے کے سلسلے
میں استعمال کی جائے گی۔ اس کے ذریعے کسی حد تک پسماندہ علاقوں میں محرومی و افلاس
میں کمی آسکے گی اور سوچ بھی بدل سکتی ہے۔ یہ بات اد رہے کہ بھارت نے اس بل کو
”ناکام“ بنانے میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا کہ یہ امریکی سینینٹ سے
منظور نہ ہوسکے لیکن پاکستان کی سفارت کاری نے کامیاب ثابت ہوئی۔ اس طری یہ بل
کانگریس سے بھی منظور ہوچکا ہے اور جب بارک اوبامہ اس پر دستخظ کردیں گے تو
پاکستان کو مالی امداد جاری ہوجائے گی۔ (مضمون نگار پاکستان کے معروف صحافی و
دانشور ہیں)
URL: https://newageislam.com/urdu-section/kerry-lugar-bill-serves-pakistani/d/1893