اے جی نورانی
05 نومبر 2016
قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری 1925 ء میں برطانوی دور اقتدار میں ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی سے کہا تھا کہ "مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ خفیہ کونسل نے کئی مواقع پر ہندو قانون کا قتل کیا ہے اور اسلامی قانون کا خون بہایا ہے"۔
اسلام سے نا واقف اور جاہل مسلمانوں نے مسلم قانون کے متعلق انگریزی تحقیق پر انحصار کیا۔ 1897 میں اس نے یہ فیصلہ دیا کہ، "[ہندوستان میں] اتنے عظیم اور قدیم اتھارٹی کے مبصرین کے ذریعہ بیان کیے گئے حکم کی مخالفت میں قرآن پر عدالتوں کا اپنے احکامات کو مسلط کرنا غلط ہو گا"۔ اور اس طرح شریعت کی ایک قرآنی تشریح کا دروازہ بند کر دیا گیا، اور اس پر تبصرے اور تشریحات کوفوقیت دے دی گئی۔
پاکستان کی عدالتوں نے اس قول کو رد کر دیا اور قرآن و حدیث کے ایک تخلیقی مطالعہ سے استفادہ کیا۔ کچھ مستثنیات کو چھوڑ کر ہندوستان کی عدالتوں نے ایسا نہیں کیا۔ اسلام میں مذہبی غور وفکر کی تعمیر نو پر لکھتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا، "ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید قدامت پرستی کے پیش نظر ہندوستانی ججوں کے پاس معیاری فیصلہ دینے کے لیے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ قانون منجمد اور غیر متحرک ہو کر اپنی جگہ قائم ہے۔"
تاہم، جب ہندوستانی مسلمانوں کا سامنا نصف صدی کے دوران ہندو تجدید پسندوں، جن سنگھیوں اور اس کے موجودہ جانشین بی جے پی کے حملوں سے ہوا تو انہوں نے اپنے مسائل کو بمشکل ہیں حل کیا۔ انہوں نے مسلم قانون مٹانے اور مسلم کمیونٹی کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے اسے یکساں سول کوڈ سے تبدیل کرنے کو اپنا مقصد بنا لیا۔
اکتوبر 1931 میں ایم۔ کے۔ گاندھی نے لندن میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کی اقلیتی کمیٹی کی طرف سے غور کے لئے ایک میمورینڈم شائع کیا۔ اس میں دوٹوک انداز میں یہ لکھا ہوا تھا کہ "پرسنل لاء کو آئین میں شامل کرنے کے لیے اسے خاص دفعات کے ذریعہ محفوظ کیا جائے گا "۔ ایک قرارداد میں انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی نے اعلان کیا کہ "ایک اقلیت کو کسی بھی تبدیلی کے بغیر اپنی ذاتی شریعت پر عمل کرنے کا پورا حق ہے اور اس میں اکثریت کو مداخلت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔" اپریل 1938ء میں جناح کے نام ایک خط میں کانگریس کے صدر جواہر لال نہرو نے لکھا ہے کہ ان کی جماعت کا فیصلہ ہے کہ "یہ کسی بھی کمیونٹی کے ذاتی قانون میں کسی بھی طرح کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔"
بہر حال، ان پختہ وعدوں کو تقسیم کے بعد جلد ہی مسترد کر دیا گیا۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 44 کو ایک 'ریاستی پالیسی کے لیے ہدایاتی اصول' کے طور پر دسمبر 1948 ء میں دستور ساز اسمبلی نے منظور کر لیا تھا۔ جس کے مطابق "حکومت ہندوستان کے تمام علاقوں میں شہریوں کے لئے یکساں سول کوڈ کو محفوظ کرنے کی کوشش کرے گی"۔ بنیادی حقوق کے برعکس، ہدایاتی اصول (directive principles)"کسی بھی عدالت کے ذریعہ قابل نفاذ نہیں ہوں گے"۔ آرٹیکل 37 واضح طور پر یہ شق فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود، گزشتہ چند دہائیوں میں ہندوستان کی سپریم کورٹ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یکساں سول کوڈ کو کیوں نافذ نہیں کیا گیا۔
1948 میں آئین ساز اسمبلی کے مسلم ارکان نے جس خوف کا اظہار کیا تھا وہ 2016 میں سچ ہو گیا۔ حال ہی میں اترپردیش میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ "آئین کے مطابق مسلم خواتین کو ان کے حقوق فراہم کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی ذمہ داری ہے"۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "اس میں مسلمان بہنوں کا کیا جرم ہے کہ کوئی مرد فون پر تین بار طلاق کہتا ہے اور اس کی زندگی تباہ و برباد ہو جاتی ہے؟" جبکہ اس سے کوئی بھی متاثر نہیں ہوا۔ مسلم خواتین کے لیے مودی کی تشویش آشکار نہیں ہوئی اس لیے کہ جب وہ وزیر اعلی تھے تو انہیں اور ان کے مرد رشتہ داروں کو 2002 کے گجرات قتل عام میں موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔
آئندہ سال کے اوائل میں اتر پردیش میں انتخابات کا دور شروع ہونے والا ہے۔ وہاں مسلمان ووٹروں کی تعداد ایک پنجم سے زیادہ پر مشتمل ہے۔ مودی کو اس بات کا علم ہے کہ مسلمان ان کے ان ریمارکس سے خوش نہیں ہوں گے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی نظریں ہندو ووٹ پر ٹکا لی ہیں۔ وہ دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والی ذات پات کی تقسیم کو ایک کر کے مذہبی خطوط پر ہندو برادری کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔
جس دن مودی نے یہ بیان دیا اسی دن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ممتاز مورخ اور پروفیسر عرفان حبیب کی قیادت میں مسلم دانشوروں کے ایک گروپ نے یہ بیان جاری کیا کہ وہ "اچانک پیدا ہونے والی اس 'خواتین کے لئے محبت' اور 'صنفی انصاف' پر کوئی بھروسہ نہیں رکھتے ہیں" جس کا اظہار حکمران جماعت کے ارکان کر رہے ہیں۔ بہر حال، انہوں نے "ہندوستان میں عمل کیے جانے والے ایک نشست میں یکطرفہ طور پر تین طلاق کی مخالفت کی" اور اسے ختم کرنے کے لیے مسلم خواتین کے بڑھتے ہوئے مطالبات کی حمایت بھی کی۔
1943 میں مولانا ابو الاعلی مودودی نے کہاتھا کہ: "[تین طلاق] بدعت اور ایک گناہ ہے جو بہت سی قانونی پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوتا کہ تین طلاق ضرورت سے زیادہ ہے اور ایک طلاق سے ہی عقد نکاح ٹوٹ سکتا ہے، تو یقیناً وہ آئندہ تین ماہ کے دوران طلاق کو منسوخ کرنے اور اس کے بعد دوبارہ شادی کرنے کی گنجائش رکھتے اور اس طرح بے شمار خاندان اس خاندانی تخریب کاری سے محفوظ ہو سکتے تھے۔"
ہندوستانی مسلمانوں کا پاکستان کے 1961 ء کے مسلم عائلی قوانین آرڈیننس میں مذکور قوانین کو اپنانا زیادہ بہتر ہوگا۔ اس میں مفاہمت کی کوشش کرنے کے لئے ایک ثالثی کونسل اور مراجعت کے لئے 90 دن کی مدت فراہم کی گئی ہے۔ طلاق تحریری شکل میں ایک نوٹس کے ذریعہ دیا جانا اور اس سے کونسل کے چیئرمین کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ اور بیوی اپنے نکاح نامہ میں طلاق دینے کے حق کے لئے شرط عائد کر سکتی ہے۔ مزید برآں، اسے خلع کے ذریعہ عقد نکاح توڑنے کا حق حاصل ہو گا۔
ایک لبرل شریعت کو برطانوی حکومت نے تباہ و برباد کر دیا۔ ہندوستانی مسلمان کو شرعی احکامات کی روشنی میں اسلامی قانون کی اصلاح کرنی چاہئے۔
ماخذ:
dawn.com/news/1294294/talaq-in-india
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/talaq-india/d/109018
URL for this article: